مال بنایا اور چلے گئے

جس طرح بادشاہوں میں ان کا وارث بادشاہت سنبھالتا ہے، بالکل یہ لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں۔


ایم قادر خان January 05, 2018

نصیب کہیں یا قسمت آج تک سمجھ نہ سکے جو شخص نہایت نیک پرہیز گار، نماز روزہ کا پابند، بظاہر کوئی برائی نہیں، میل جول میں بھی خوش باش، الغرض نیکی کا مجسمہ، لیکن اس کو تمام زندگی روتا دیکھا۔ وہ اگر اپنی پریشانی نہ بتائے پھر بھی اس کے چہرے سے عیاں ہوجاتی ہے۔

اگر پوچھیں تو جواب میں یہی کہے گا سب ٹھیک ہے، اللہ کا شکر ہے، سب خیر و عافیت ہے۔ لیکن وہ پریشانی نہیں بتاتا، یہ معلوم ہے کہ پوری زندگی روتے گزری۔ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہے۔ جب کہ بدکردار، بداعمال، ہر برائی کرنے والے اشخاص ہنستے ملے ہیں، کبھی ان کو پریشان نہیں دیکھا، مال و زر سے کہیں کمی محسوس نہ ہوئی۔

بزرگان دین فرماتے ہیں جو شخص دنیا میں بدحال، پریشان، مصیبت زدہ رہا اس کو دوسری دنیا میں بڑی راحت، جنت ملے گی، اگر وہ نیک، صالح، نماز، روزہ، نیکیوں کا پابند ہوا۔ اور وہ شخص جو دنیا میں تمام عیوب میں رہا اس کو دوزخ ملے گی۔ ایک طرف یہ بھی کہا جاتا ہے ظاہر کیا، باطن کیا، کس کو معلوم۔ اگر لوگ ظاہر پر غور کرتے ہیں، اتنا بڑا عالم ہی باطن جان سکتا ہے، لیکن کہیں کہیں وہ بھی چند اہم باتوں کو سمجھنے میں تاخیر کرتے ہیں یا اس وقت سمجھ نہیں پاتے۔

جہاں تک سوال ہے غریب کا تو یہ سب ہی لوگ جانتے ہیں غربت کی اکثریت مذہب پر زیادہ اثر رکھتی ہے، وہ اپنی غربت میں مذہب کو نہیں چھوڑتا، بلکہ کبھی ناشکری بھی نہیں کرتا، ہمیشہ شکر الحمداللہ سنا ہے۔ ایک دلچسپ بات یاد آئی۔

میرے ایک دوست کہنے لگے میرے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا اس میں کنڈی نہیں لگائی؟ بولا نہیں ایسی بات نہیں، کیا کروں ان کو بند کرکے؟ اگر کوئی چوری کرنے آ بھی جائے تو اس کو شرمندگی ہوگی۔ میں ہنس پڑا۔ صحیح کہا وہ لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں جو مال و زر میں گھرے ہوتے ہیں، کچھ لوگ تو ایسے ہیں بغیر نیند کی گولی کھائے بغیر سو نہیں پاتے۔

قناعت بڑی شے ہے، قناعت پسند شخص کبھی پریشان نہیں ہوسکتا، قناعت پر اپنی زندگی گزارنا بڑی بات ہے، ایسے لوگ صاف نظر آتے ہیں، جس طرح وہ اپنی زندگی بڑی محدود، اللہ کی خوشنودی قائم رکھنے کے ضمن میں گزارتے ہیں۔ ان کی قناعت ہر شے پر غالب ہے۔ وہ لوگ جو آج کل پریشان ہیں، یہ ساری پریشانی ان کی خود پیدا کردہ ہے۔

یہ تو سب کو معلوم ہے وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، اچھے برے دن آتے اور چلے جاتے ہیں، لیکن یہ سمجھ لینا میں تاقیامت حکمراں رہوں گا، ہماری حکومت رہے گی تو ٹھیک ہے اور اگر ہماری حکومت نہیں ہوگی تو سب غلط ہے۔ یہ وہ لوگ سوچتے ہیں جن میں رعونت اس قدر آ جاتی ہے کہ خود پسندی سے دور نہیں ہوپاتے۔ وہ چاہتے ہیں ہم مطلق العنان رہیں، جمہوریت کا راگ الاپیں اور مطلق العنان بن کر بیٹھے رہیں، جس طرح بادشاہوں میں ان کا وارث بادشاہت سنبھالتا ہے، بالکل یہ لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں۔

عوام کو بے وقوف بناتے رہیں، کروڑوں اربوں روپے یا پھر اپنے بڑے بڑے کام یا پھر قیمتی زمینوں پر قبضے کرتے رہیں اور ظاہر کریں ہم ان کے مخالف ہیں۔ لیکن جمہوریت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لیے ان کا ساتھ دینا لازم ہوگیا ہے۔ یہ اچھی بہانے بازی ہے، کیسی جمہوریت، کہاں کی جمہوریت، کس کی جمہوریت۔ چند سال قبل ایک بڑے معزز شخص نے بڑے اہم الفاظ استعمال کیے جن کو سن کر اکثر لوگ ششدر رہ گئے۔ موصوف نے فرمایا آپ کس جمہوریت یا حکومت کی بات کرتے ہیں؟ ایک بڑی رقم کا ذکر کرکے بتایا اتنی رقم میں تو آپ اسمبلی خرید سکتے ہیں۔

پھر کیسی جمہوریت جہاں عزت بھی زر میں فروخت ہو۔ شرم کی بات نہیں تو کیا ہے۔ جب یہ بات کہی تھی تو سمجھ نہ سکے لیکن بات اب سمجھ میں آرہی ہے، جب نوٹوں کی بوریاں کھلیں۔ حیرت زدہ ہیں لوگ اس قدر لالچی، حرص و طمع والے ہوگئے کہ اپنی عزت کا خیال نہیں، پہلے لاکھوں کی بات تھی اب اربوں اور کروڑوں کی بات ہے، بس اتنا فرق ہے۔ جب تک اس قسم کے لوگ رہیں گے تو یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ ہم کتنا شور شرابا کر ڈالیں لیکن کچھ نہیں کرسکتے۔ معاشرے کو تبدیل کرنا دور کی بات، برائی سے روک نہیں سکتے۔وہ لوگ جو عیاشی، مال و زر، کالے دھن، منی لانڈرنگ پر چل پڑیں تو یہ مشکل بات ہے وہ اس کو چھوڑ دیں۔

یہ تو ان کی تجارت ہے، جس طرح فرنگی برصغیر میں تجارت کرنے آیا اور پھر سب کچھ ہڑپ کر بیٹھا۔ تاجر کبھی اپنا نقصان نہیں چاہتا، وہ کوئی ایسا سودا نہیں کرے گا جس میں نقصان ہو۔ ایک کے چار بنانا یہ تو پرانی بات تھی، اب ہوشیار تاجر ایک کے 100 نہیں تو 90 تو مل جائیں، موازنہ کریں، اتنے ہوشیار تاجر کبھی ایماندار نہیں ہوسکتے، نہ ہی ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔یہ لوگ ملک چلانے نہیں آتے، بلکہ اپنا مال بنانے آتے ہیں۔ مال بنایا اور چلے گئے۔ جب مال کا موقع آیا، دوڑ پڑے، لوٹا لاٹا، جو ہاتھ چڑھا لے بھاگے۔ ہم سب دیکھتے رہتے ہیں، لوگ جانتے ہیں لیکن کیا کریں، ان کے اختیار میں کچھ نہیں۔ اسی لیے اگر یہ نااہل مجرم ہوجائیں تب بھی وی وی آئی پی پروٹوکول دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے۔

اس لیے کہ وہ بے اختیار ہیں۔ اختیار صرف ان مجرموں، نااہلوں کی وی وی آئی پی پروٹوکول ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے فرعون، شداد، قارون کو نہیں چھوڑا، آج کوئی ان کا نام لیوا نہیں ہے۔ جب یہ لوگ اپنے اقتدار میں تھے، انھوں نے یہی کچھ کیا، ظلم و ستم، مال و زر کو لوٹنا، اور ان کے خلاف اگر کوئی بات کرے اس کو مار دیا جاتا تھا۔ وہ ظلم نہ رہا، نہ وہ لوگ ہیں، کہاں گیا قارون کا خزانہ، جس کی چابیاں اونٹوں پر ہوتی تھیں۔

ساری دولت نہ اس کی رہی نہ اس کے کسی چاہنے والے کو ملی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے ایک بہت بڑی طاقت ہے جو اپنا ایکشن لیتی ہے تو بڑے سے بڑے ناپید ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت سب کو ایک موقع دیتا ہے۔یاد رہے عذاب الٰہی شروع ہوچکا ہے، زیادہ وقت نہیں لگے گا ان لوگوں کو ناپید ہونے میں۔

پاکستان کی غریب قوم کے 300 ارب، اس کے علاوہ بیرون ممالک میں جو عمارتیں خریدی گئیں، منی لانڈرنگ کی گئی، کالا دھن لوٹا، عوام کی معصومیت سے فائدہ اٹھایا، ان کی دولت لوٹی، اس کو بھی ملک سے باہر لے گئے۔ یہ چور ڈاکو کبھی نہیں بچ سکیں گے۔ عوام جو مایوس ہے، افسوس ہے، ضرور دور ہوگا، اس لیے کہ اب عذاب الٰہی کا آغاز ہے، اس لیے پاکستان کے عوام کی کامیابی ہوگی، ان رعونت، متکبر، کرپٹ لوگوں کی سزا نظر آرہی ہے۔ انسان سزا نہ دے سکے تو رب تبارک و تعالیٰ سزا ایسی دیتا ہے جو رہتی دنیا تک یاد کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں