بقاء کا واحد راستہ لیکن…
ہمیں فرقوں میں تقسیم کرکے ایک تو منتشر کیا دوسرا اللہ پاک کی ہر رحمت سے محروم کردیا۔
پچھلے کچھ دنوں میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا، قارئینِ کرام آپ کو یاد ہوگا میں اپنی گزشتہ تحریروں میں ملکی حالات ، سیاست ،تجارت ،معیشت ،طرزِ معاشرت کے حوالے سے بہت بے چین دکھائی دیا ہوں گا ۔بار بار میرا اشارہ ایک مخصوص سمت میں تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ قطعًا غیر فطری ،غیر طبعی،غیر انسانی ہے ،یعنی ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھنا جسمیں جنگل کے قوانین ہوں ،جہاں جس کا جو چاہا اس نے بلا کھٹکے وہی کیا کوئی قانون نہیں کوئی حکومت نہیں ،ایسا آئین جسے جب چاہا بدل لیا۔
ملک کو ملک نہ سمجھا ایک تھیٹرگاہ بنالیا جس میں آج جو ڈرامہ پلے ہورہا ہے ،مقبول ہوا تو کل دوسرا ، پرسوں تیسرا ۔ایک سے دل بھرگیا تو اور بہت ، ہر بار نئے چہرے ، نئی کہانی، نئے کردار، بلکہ کبھی کبھی تو ہالی وڈ سے بھی ایکٹر بلائے گئے انھیں بھی ڈرامے میں مرکزی (مہمان )کردار دیا گیا ۔جرم اور جرائم کی ایسی تاریخ کہ جرم لگاتار ،لیکن مجرم کبھی کوئی ایک بھی گرفت میں نا آیا۔
ملکی خزانے کا یہ حال کہ ایسا سلوک کوئی گھر کی لونڈی ،باندھی سے بھی نہ کرتا ہوگا معمولی تنخواہ پر کام کرنے والے مزدور آج کھربوں کے مالک ،ترقی کا حال ذاتی ترقی کی حد تک رہا، عدل اتنا کہ آج المعروف رحمت بابا کی عرفیت سے مشہور ،بچّے بچّے کی زبان پر ہے کہ جو کررہے ہیں خوب ہیں،جو کروارہے ہیں وہ ان سے بھی خوب ہیں، نتیجہ کار جو زبوں حالی ہوئی ،ملک جس ابتری کا شکار ہوا ،ملکی وقار آج دنیا بھر میں جس مقام پر ہے الامان الامان۔
ہم سے کہیں بہتر آج ایتھوپیا ، یوگنڈا ،گنّی بساؤ، بڑے ممالک کا توکہنا ہی کیا ۔قارئینِ کرام آج وقت آگیا ہے کہ ہم جائزہ لیں،ان اسباب پر غور وخوض کریں جن کے سبب ہم نے اور ہمارے ملک نے خاطر خواہ ترقی نہیں کی، ہم ایک قوم ایک معاشرہ نہیں بن سکے ؟ کوئی معاملہ زندگی ہو ہم تقسیم در تقسیم ہیں دنیا ہے تو قوموں اور برادریوں میں بٹے ہوئے دین ہو تو بہت سے فرقوں میں۔
اہم ترین سوال ہے جس پر ہماری آیندہ آنے والی تمام نسلوں کی بقاء کا دارو مدار ہے کہ ہم ایک قوم کی صورت آخر کیسے ڈھل جائیں ؟ جسکا منشور سب کی بھلائی ہو ،ملک کی تعمیر و ترقّی ہو ،کوئی ہمیں پھر عصبیت کے نام پر ،تعصُّبات کے حوالے سے ،فرقہ پرستی کے سبب لوٹ نہ سکے بیوقوف نہ بنا سکے آخر ہم ایساکیا کریں کہ یہ مفاد پرست سیاستدان ،کرپٹ بیوروکریٹ ،ایلیٹ مافیہ ہمارا خون ناچوس سکے ۔
قارئین ِکرام ۔ بات ہورہی تھی ایک قوم بننے کی جو میرے نزدیک واحد حل ہے اب خود کو اور ملک کو بچانے کا، اگرچہ یہ ذکر دور اذکار کا قصّہ لگتا ہے ، سرِ دست امکان سے کوسوں پرے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ،کچھ ممکن نہیں کوئی ترقی نہیں ہم کبھی اس چکر ویر سے باہر آہی نہیں سکتے ورنہ یہاں ایک آئے گا، ایک جائے گا، دونوں کا دعویٰ عوام کی بھلائی ، ملک کی بہتری ،آزادی بلکہ کچھ حضرات تو مبالغہ کی حد پر جاکر خود مختاری کی بات بھی کرتے ہیں ،جب کہ آپ ہم سب جان چکے ہیں یہ سب جھوٹ ہے ،سفید جھوٹ ، بہت بڑا مکر ہے فریب ہے ۔
اب یہ سب جاننے کے بعد بھی کسی کو سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ رہنا ہے یا کسی فرقے اور مسلک کا بن کر رہنا ہے تو اس کی مرضی لیکن یاد رکھیے گا یہ اس حالت میں بھی آپ کو نہیں چھوڑیں گے جس میں آپ انھیں صرف فائدے پہنچارہے ہیں ان کی آیندہ آنے والی 100نسلوں تک کو مال و دولت سے بھر رہے ہیں۔اس حالت میں بھی یہ آپ کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیں گے۔
اب دو صورتیں ہیں صرف دو صورتیں ،یا مہنگائی ، مفلسی ، مفلوک الحالی ،فاقہ کشی کی ایک دردناک موت جسمیں وقتًا فوقتًا آپ اپنے بچوں کو یا تو فروخت کرتے نظر آتے ہیں یا انھیں لے کر کسی ندی نالے میں کود کر جان دے دیتے ہیں یا عزت کی زندگی ،خوداری کی موت ،یہ دوسرا راستہ بہرحال قربانی کا متقاضی ہے ایک جنگ چاہتا ہے ،جہاد کرنا ہوگا جس میں سب سے پہلے اپنی اُس جھوٹی انا کا خاتمہ جس نے ہمیں قوموں میں تقسیم کیا اور ہمارے سارے بنیادی حقوق کچھ لٹیروں کے ہاتھ میں گروی رکھ دیے پھر دین و مذہب کی غلط تشریحات جس نے ہمیں فرقوں میں تقسیم کرکے ایک تو منتشر کیا دوسرا اللہ پاک کی ہر رحمت سے محروم کردیا۔
یقین کیجیے وہ ہم سے ناراض ہے بہت ناراض ۔اس نے اپنی کتابِ عظیم میں حکم دیا '' لوگو دین کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اورتفرقے بازی میں مت پڑو'' (ترجمہ) ۔ہم نے اس کا حکم نہ صرف یہ کہ نہیں مانا بلکہ بہت سے فرقوں کی بنیاد رکھی اور اسی بنیاد پر ہر دوسرے مسلمان کو کافر و مشرک قرار دیا۔ لہٰذا فی الفور اس قبیح فعل کو توبہ کرکے چھوڑ دیاجائے ۔
اگر ہم ان معاشرتی جرائم سے باہر نکل آئے تب ایک قوم کی صورت ڈھلا جا سکتا ہے۔ تب اپنے لیے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے لڑا جاسکتا ہے تب یہ ملک اور اس کی قوم جو ہم ہیں ترقی کی ہر منزل عبور کرسکتے ہیں اور یہ ہوگا کیسے؟
جنابِ والا یہ ایک دن ،ایک سال ،یا کئی سالوں کا کام نہیں اور نہ ہی موجودہ صورت میں اس کی کوئی جماعت تشکیل دی جاسکتی ، بلکہ اسے پہلے مرحلے پر تو انفرادی طور پر ہی شروع کرنا ہوگا ،یعنی ہم میں سے ہر شخص یہ عزمِ صمیم کرلے کہ اسے یہ جنگ لڑنی ہے ہر صورت میں ہر قیمت پر، اپنے گردو پیش میں اس کی تبلیغ کرنی ہے اللہ پاک ہم سے یہی چاہتا ہے یقین کیجیئے تمام نیکیاں اسی میں مضمّر ہیں ورنہ کیا ہُوا کیا ہورہا ہے ،کیا ہوگا ہم میں سے ہر ایک خوب جانتا ہے ۔
ایک اور پہلو سے دیکھیں تو ہماری بیٹیاں ، بیٹے محض اسی وجہ سے شادیوں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ جب مجھے میرے قبیلے ،قوم کا لڑکا ،لڑکی ملے۔ اور جب ملتا ہے تو اتنا تعلیمِ یافتہ نہیں ہوتا اکثر ایسا دیکھنے میں آیا کہ ایک اعلیٰ تعلیمِ یافتہ لڑکے، لڑکی کی شادی ایک گنوار جاہل لڑکے، لڑکی سے صرف اس بنیاد پر کردی گئی کہ وہ ذات برادری کا تھا یہ کہکر کہ چلو اپنا تو ہے ،بعد میں دونوں میں نبھ نہ سکی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ، المیے ۔ یعنی کس قدر مشکلات درپیش ہیں ۔
اس وقت اورکس قدر آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اک ذرا سی تبدیلی کے بعد ،آپ جانتے ہیں کہ یورپ ،امریکا، روس،چین،کہیں یہ فرسودہ روایات موجود نہیں ؟ اور یہی ان کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے کہ وہ ایک قوم ہیں ،ایک سماج ہیں ایک معاشرہ ہیں ۔ایک زمانہ تھا جب ہم مسلم ترقی پر تھے تب انھوں نے ہماری اچھی باتوں کی تقلید کی تھی اور انھیں ایسا کرتے ہوئے انھوں نے کوئی شرمندگی محسوس نہیںکی، اب وہ ترقی پر ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی اچھی باتوں کی تقلید کریں اور ببانگِ دہل کریں ۔
ملک کو ملک نہ سمجھا ایک تھیٹرگاہ بنالیا جس میں آج جو ڈرامہ پلے ہورہا ہے ،مقبول ہوا تو کل دوسرا ، پرسوں تیسرا ۔ایک سے دل بھرگیا تو اور بہت ، ہر بار نئے چہرے ، نئی کہانی، نئے کردار، بلکہ کبھی کبھی تو ہالی وڈ سے بھی ایکٹر بلائے گئے انھیں بھی ڈرامے میں مرکزی (مہمان )کردار دیا گیا ۔جرم اور جرائم کی ایسی تاریخ کہ جرم لگاتار ،لیکن مجرم کبھی کوئی ایک بھی گرفت میں نا آیا۔
ملکی خزانے کا یہ حال کہ ایسا سلوک کوئی گھر کی لونڈی ،باندھی سے بھی نہ کرتا ہوگا معمولی تنخواہ پر کام کرنے والے مزدور آج کھربوں کے مالک ،ترقی کا حال ذاتی ترقی کی حد تک رہا، عدل اتنا کہ آج المعروف رحمت بابا کی عرفیت سے مشہور ،بچّے بچّے کی زبان پر ہے کہ جو کررہے ہیں خوب ہیں،جو کروارہے ہیں وہ ان سے بھی خوب ہیں، نتیجہ کار جو زبوں حالی ہوئی ،ملک جس ابتری کا شکار ہوا ،ملکی وقار آج دنیا بھر میں جس مقام پر ہے الامان الامان۔
ہم سے کہیں بہتر آج ایتھوپیا ، یوگنڈا ،گنّی بساؤ، بڑے ممالک کا توکہنا ہی کیا ۔قارئینِ کرام آج وقت آگیا ہے کہ ہم جائزہ لیں،ان اسباب پر غور وخوض کریں جن کے سبب ہم نے اور ہمارے ملک نے خاطر خواہ ترقی نہیں کی، ہم ایک قوم ایک معاشرہ نہیں بن سکے ؟ کوئی معاملہ زندگی ہو ہم تقسیم در تقسیم ہیں دنیا ہے تو قوموں اور برادریوں میں بٹے ہوئے دین ہو تو بہت سے فرقوں میں۔
اہم ترین سوال ہے جس پر ہماری آیندہ آنے والی تمام نسلوں کی بقاء کا دارو مدار ہے کہ ہم ایک قوم کی صورت آخر کیسے ڈھل جائیں ؟ جسکا منشور سب کی بھلائی ہو ،ملک کی تعمیر و ترقّی ہو ،کوئی ہمیں پھر عصبیت کے نام پر ،تعصُّبات کے حوالے سے ،فرقہ پرستی کے سبب لوٹ نہ سکے بیوقوف نہ بنا سکے آخر ہم ایساکیا کریں کہ یہ مفاد پرست سیاستدان ،کرپٹ بیوروکریٹ ،ایلیٹ مافیہ ہمارا خون ناچوس سکے ۔
قارئین ِکرام ۔ بات ہورہی تھی ایک قوم بننے کی جو میرے نزدیک واحد حل ہے اب خود کو اور ملک کو بچانے کا، اگرچہ یہ ذکر دور اذکار کا قصّہ لگتا ہے ، سرِ دست امکان سے کوسوں پرے لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ،کچھ ممکن نہیں کوئی ترقی نہیں ہم کبھی اس چکر ویر سے باہر آہی نہیں سکتے ورنہ یہاں ایک آئے گا، ایک جائے گا، دونوں کا دعویٰ عوام کی بھلائی ، ملک کی بہتری ،آزادی بلکہ کچھ حضرات تو مبالغہ کی حد پر جاکر خود مختاری کی بات بھی کرتے ہیں ،جب کہ آپ ہم سب جان چکے ہیں یہ سب جھوٹ ہے ،سفید جھوٹ ، بہت بڑا مکر ہے فریب ہے ۔
اب یہ سب جاننے کے بعد بھی کسی کو سندھی، پنجابی، پختون، بلوچ رہنا ہے یا کسی فرقے اور مسلک کا بن کر رہنا ہے تو اس کی مرضی لیکن یاد رکھیے گا یہ اس حالت میں بھی آپ کو نہیں چھوڑیں گے جس میں آپ انھیں صرف فائدے پہنچارہے ہیں ان کی آیندہ آنے والی 100نسلوں تک کو مال و دولت سے بھر رہے ہیں۔اس حالت میں بھی یہ آپ کے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیں گے۔
اب دو صورتیں ہیں صرف دو صورتیں ،یا مہنگائی ، مفلسی ، مفلوک الحالی ،فاقہ کشی کی ایک دردناک موت جسمیں وقتًا فوقتًا آپ اپنے بچوں کو یا تو فروخت کرتے نظر آتے ہیں یا انھیں لے کر کسی ندی نالے میں کود کر جان دے دیتے ہیں یا عزت کی زندگی ،خوداری کی موت ،یہ دوسرا راستہ بہرحال قربانی کا متقاضی ہے ایک جنگ چاہتا ہے ،جہاد کرنا ہوگا جس میں سب سے پہلے اپنی اُس جھوٹی انا کا خاتمہ جس نے ہمیں قوموں میں تقسیم کیا اور ہمارے سارے بنیادی حقوق کچھ لٹیروں کے ہاتھ میں گروی رکھ دیے پھر دین و مذہب کی غلط تشریحات جس نے ہمیں فرقوں میں تقسیم کرکے ایک تو منتشر کیا دوسرا اللہ پاک کی ہر رحمت سے محروم کردیا۔
یقین کیجیے وہ ہم سے ناراض ہے بہت ناراض ۔اس نے اپنی کتابِ عظیم میں حکم دیا '' لوگو دین کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اورتفرقے بازی میں مت پڑو'' (ترجمہ) ۔ہم نے اس کا حکم نہ صرف یہ کہ نہیں مانا بلکہ بہت سے فرقوں کی بنیاد رکھی اور اسی بنیاد پر ہر دوسرے مسلمان کو کافر و مشرک قرار دیا۔ لہٰذا فی الفور اس قبیح فعل کو توبہ کرکے چھوڑ دیاجائے ۔
اگر ہم ان معاشرتی جرائم سے باہر نکل آئے تب ایک قوم کی صورت ڈھلا جا سکتا ہے۔ تب اپنے لیے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے لڑا جاسکتا ہے تب یہ ملک اور اس کی قوم جو ہم ہیں ترقی کی ہر منزل عبور کرسکتے ہیں اور یہ ہوگا کیسے؟
جنابِ والا یہ ایک دن ،ایک سال ،یا کئی سالوں کا کام نہیں اور نہ ہی موجودہ صورت میں اس کی کوئی جماعت تشکیل دی جاسکتی ، بلکہ اسے پہلے مرحلے پر تو انفرادی طور پر ہی شروع کرنا ہوگا ،یعنی ہم میں سے ہر شخص یہ عزمِ صمیم کرلے کہ اسے یہ جنگ لڑنی ہے ہر صورت میں ہر قیمت پر، اپنے گردو پیش میں اس کی تبلیغ کرنی ہے اللہ پاک ہم سے یہی چاہتا ہے یقین کیجیئے تمام نیکیاں اسی میں مضمّر ہیں ورنہ کیا ہُوا کیا ہورہا ہے ،کیا ہوگا ہم میں سے ہر ایک خوب جانتا ہے ۔
ایک اور پہلو سے دیکھیں تو ہماری بیٹیاں ، بیٹے محض اسی وجہ سے شادیوں سے محروم رہ جاتے ہیں کہ جب مجھے میرے قبیلے ،قوم کا لڑکا ،لڑکی ملے۔ اور جب ملتا ہے تو اتنا تعلیمِ یافتہ نہیں ہوتا اکثر ایسا دیکھنے میں آیا کہ ایک اعلیٰ تعلیمِ یافتہ لڑکے، لڑکی کی شادی ایک گنوار جاہل لڑکے، لڑکی سے صرف اس بنیاد پر کردی گئی کہ وہ ذات برادری کا تھا یہ کہکر کہ چلو اپنا تو ہے ،بعد میں دونوں میں نبھ نہ سکی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ، المیے ۔ یعنی کس قدر مشکلات درپیش ہیں ۔
اس وقت اورکس قدر آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں اک ذرا سی تبدیلی کے بعد ،آپ جانتے ہیں کہ یورپ ،امریکا، روس،چین،کہیں یہ فرسودہ روایات موجود نہیں ؟ اور یہی ان کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے کہ وہ ایک قوم ہیں ،ایک سماج ہیں ایک معاشرہ ہیں ۔ایک زمانہ تھا جب ہم مسلم ترقی پر تھے تب انھوں نے ہماری اچھی باتوں کی تقلید کی تھی اور انھیں ایسا کرتے ہوئے انھوں نے کوئی شرمندگی محسوس نہیںکی، اب وہ ترقی پر ہیں تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی اچھی باتوں کی تقلید کریں اور ببانگِ دہل کریں ۔