ٹرمپ کا جواب دوست ملکوں سے مستحکم تعلقات ہے ایکسپریس فورم
وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے، یہ حقیقت ہے کہ ہم امریکی الزام تراشی کے بعد بھی یو ٹرن نہیں لے سکتے، ماہرین امور خارجہ
ماہرین امور خارجہ اور دیگر شخصیات کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا ہے۔
ماہرین نے کراچی میں منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا جس میں ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد کی صورتحال اور پاکستان کی آئندہ کی حکمت عملی پر بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے الزامات اور امریکی حکومت کے موجودہ رویے کے خلاف متحدہ ہوکر حکمت عملی بنانی ہوگی۔ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے، کوشش کی جائے کہ اپنے دیگر دوست ملکوں سے رابطے مزید موثر بنائے جائیں تاکہ موجودہ صورتحال کا مقابلہ کیا جاسکے۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور ماہر امورخارجہ جاوید جبار نے کہا کہ اس حوالے سے مربوط حکمت عملی کے تحت سفارتی رابطے کیے جائیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے عالمی برادری آگاہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ دنیا کسی بڑی جنگ عظیم یا بڑی جنگ کی طرف جائے ۔ امریکا سمیت کسی ملک میں ایسی ہمت نہیں کہ وہ بلاوجہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ شروع کردے ۔
دوسری جانب سابق پاکستانی سفارت کار اور ماہر امور خارجہ جمیل احمد خان نے کہا کہ امریکی الزامات نئے نہیں ہیں ۔ امریکی حکومت کی حالیہ خارجہ پالیسی کو ان کے 70 سے زائد اہم ماہرین نے تیار کیا ہے ۔ امریکی صدر کا پاکستان پر دباؤ بڑھنا بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس صورتحال میں اگر امریکا نے پاکستان پر کسی بھی طریقے سے ممکنہ طور پر حملہ کرنے کی کوشش کرے توپاکستان کی جانب سے امریکا کو اس حملے کا بھرپور جواب دینا چاہیے تاہم اگر امریکا ہماری قدر نہیں کرتا ہے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔
علاوہ ازیں جامعہ کراچی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر مونس احمر کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ جوکام ہمیں آزادی کے بعدکرناتھاوہ نہیں کیا۔ بھارت اورچین کی کامیابی کاراز یہی ہے کہ ان دونوں ملکوں نے اپنی معیشت پرخود انحصاری کی اور اس پر سودانہیں کیا لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے نظام کا امریکا پر انحصار ہے، اگرامریکا امدادروکنے سے آگے جاتا ہے اور امریکا نے ویزے بند کردیے توپاکستانی اشرافیہ کے پیرسے زمین نکل جائے گی۔
ماہرین نے کراچی میں منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا جس میں ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد کی صورتحال اور پاکستان کی آئندہ کی حکمت عملی پر بات کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے الزامات اور امریکی حکومت کے موجودہ رویے کے خلاف متحدہ ہوکر حکمت عملی بنانی ہوگی۔ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے، کوشش کی جائے کہ اپنے دیگر دوست ملکوں سے رابطے مزید موثر بنائے جائیں تاکہ موجودہ صورتحال کا مقابلہ کیا جاسکے۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور ماہر امورخارجہ جاوید جبار نے کہا کہ اس حوالے سے مربوط حکمت عملی کے تحت سفارتی رابطے کیے جائیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے عالمی برادری آگاہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ دنیا کسی بڑی جنگ عظیم یا بڑی جنگ کی طرف جائے ۔ امریکا سمیت کسی ملک میں ایسی ہمت نہیں کہ وہ بلاوجہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ شروع کردے ۔
دوسری جانب سابق پاکستانی سفارت کار اور ماہر امور خارجہ جمیل احمد خان نے کہا کہ امریکی الزامات نئے نہیں ہیں ۔ امریکی حکومت کی حالیہ خارجہ پالیسی کو ان کے 70 سے زائد اہم ماہرین نے تیار کیا ہے ۔ امریکی صدر کا پاکستان پر دباؤ بڑھنا بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس صورتحال میں اگر امریکا نے پاکستان پر کسی بھی طریقے سے ممکنہ طور پر حملہ کرنے کی کوشش کرے توپاکستان کی جانب سے امریکا کو اس حملے کا بھرپور جواب دینا چاہیے تاہم اگر امریکا ہماری قدر نہیں کرتا ہے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔
علاوہ ازیں جامعہ کراچی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر مونس احمر کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ جوکام ہمیں آزادی کے بعدکرناتھاوہ نہیں کیا۔ بھارت اورچین کی کامیابی کاراز یہی ہے کہ ان دونوں ملکوں نے اپنی معیشت پرخود انحصاری کی اور اس پر سودانہیں کیا لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے نظام کا امریکا پر انحصار ہے، اگرامریکا امدادروکنے سے آگے جاتا ہے اور امریکا نے ویزے بند کردیے توپاکستانی اشرافیہ کے پیرسے زمین نکل جائے گی۔