وزیراعظم پرویزاشرف کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکرکھانے لگی

وزیراعظم پرویزاشرف کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکرکھانے لگی

وزیراعظم پرویزاشرف کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکرکھانے لگی فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں منظور کئے گئے توہین عدالت قانون 2012ء کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے اِسے اجراء کے دن سے ہی کالعدم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون آئین سے متصادم، بدیانتی پر مبنی اور عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہے،صدر ،وزیراعظم سمیت کسی کو استثنیٰ دینا آئین سے متصادم ہے،آئین کا آرٹیکل 248 کسی کو فوجداری استثنیٰ نہیں دیتا۔

عدالت عظمیٰ کی طرف سے توہین عدالت کے قانون کو کلی طور پر کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کے سیاسی مستقبل کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت نے جس عجلت میں پارلیمنٹ سے یہ نیاقانون منظور کرایاتھا،12جولائی ہی کو واضح ہوگیاتھا کہ یہ قانون عدالت میں چیلنج کردیاجائے گا۔

جس قسم کے خدشات ظاہر کئے جارہے تھے ، وہ درست ثابت ہوئے۔ توہین عدالت قانون کے خلاف دائرآئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ججز کے خلاف سخت بلکہ توہین آمیز لب ولہجہ اختیار کیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے چار ججز پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔چیف جسٹس آف پاکستان مسٹرجسٹس افتخار محمدچوہدری نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل ججز اورعدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

وکلاء برادری اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے توہین عدالت قانون کو کالعدم قراردینے کے فیصلے کو سراہا اورکہا ہے کہ فیصلے سے ثابت ہوگیا ہے کہ آئین کی نظر میں کسی شخص کو رتبے کی وجہ سے دوسروں پرفوقیت نہیں دی جا سکتی۔ بیشتر آئینی ماہرین کی رائے ہے کہ توہین عدالت قانون کو کالعدم قراردیئے جانے کے بعد اب موجودہ وزیراعظم کے خلاف عدالتی کارروائی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کو سوئس حکام کو خط لکھنے کے لیے عدالت کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن آج 8اگست کوختم ہورہی ہے۔ توہین عدالت قانون وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کی توہین عدالت کیس میں ممکنہ نااہلی روکنے کیلئے آئینی ماہرین کی مشاورت پر حکمران اتحاد نے بہت جلدی میں، اپوزیشن کے شدید تحفظات کے باوجود منظور کرایاتھا۔ اس قانون کے معرض وجود میں آنے کے بعد حکومتی حلقے یہ کہہ رہے تھے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو عدالت نااہل قرارنہیں دے سکتی۔

قانون کو کالعدم قراردیئے جانے کے بعد صورتحال یکسربدل گئی ہے۔ حکومتی شخصیات نے اس عدالتی فیصلے پر تحفظات ظاہر کئے ہیںاور کہا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور اس کے حق پر سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔ توہین عدالت قانون کو کالعدم قراردیئے جانے کے بعد ایوان صدر میں مسلسل مشاورتی اجلاس ہورہے ہیں۔

صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اتحادی جماعتوں کی مشاورتی میٹنگ کے دوران ایک مرحلے پر یہ فیصلہ کرلیاگیاتھا کہ حکومت توہین عدالت قانون کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گی،تاہم حکومتی آئینی ٹیم نے صدر زرداری کو قائل کیا کہ اپیل دائر کرنا حکومت کا حق ہے اور یہ حق استعمال کرنا ضروری ہے۔


پیپلزپارٹی کے بعض عاقبت نا اندیش رہنمائوں نے سپریم کورٹ پر حملے شروع کردیئے ہیں اورعدلیہ پر سنگین نوعیت کے الزامات پریس کانفرنسوں میں لگائے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی اس حکمت عملی سے عدلیہ کے ساتھ تنائو اور ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کو مزید فروغ ملے گا۔

حکمران اتحاد میں شامل بعض سینئرسیاستدانوں نے عدالتی فیصلے کو پارلیمان پر بالادستی اور قانون سازی کے حق پر اثرانداز ہونے کی کوشش قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عدلیہ اور مقننہ کے درمیانی فاصلے بڑھ سکتے ہیں۔ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے آئینی اختیارات تسلیم کرنا چاہیے۔

سابق وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے خاموشی توڑتے ہوئے بیان بازی کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر دوسرے منتخب وزیراعظم کو نااہل قراردے کر گھربھیجاگیاتو ملک ٹوٹ سکتا ہے۔

وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اپنے سیاسی مستقبل کے بابت فکرمند ہیں اور وہ ممکنہ عدالتی فیصلے کے باعث مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کیلئے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ رابطے نہیں کررہے ہیں۔ وہ بظاہر پراعتماد لگ رہے ہیں جبکہ حکومت کی لیگل ٹیم بھی وزیراعظم کو عدالتی کارروائی سے بچانے کیلئے مشاورت میں مصروف ہیں۔

راجہ پرویزاشرف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ قائدحزب اختلاف چودھری نثار علی خان کو ٹیلی فون کیا اور انہیں یاد کرایا کہ حکومت اور اپوزیشن تمام معاملات مفاہمتی جذبے سے حل کرلیں گے۔

وزیراعظم نے قائدحزب اختلاف کے کردار کو سراہا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان توقعات کے برعکس نگران سیٹ اپ کے بارے میں بات چیت نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کو مکمل تعاون فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی جنگ نقطہ عروج پر ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے اخلاقیات کی تمام حدود عبور کرتے ہوئے سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ اس سیاسی جنگ نے ملک بھرکے سیاسی درجہ حرارت میں شدت پیدا کر دی ہے۔
Load Next Story