جعفرآباد سے نیشنل ہائی وے پرکوئٹہ تک سفر

اس سڑک پر بلوچستان کے چھوٹے دیہات، ان کے ساتھ طویل پہاڑی سلسلے اور سرسبز علاقے موجود ہیں


اس سڑک پر بلوچستان کے چھوٹے دیہات، ان کے ساتھ طویل پہاڑی سلسلے اور سرسبز علاقے موجود ہیں۔ (تصاویر بشکریہ مصنف)

ایک بار پھر ہم عظیم بلوچستان کے خاموش میدانوں سے ہوکر، خوبصورت پہاڑوں اور کھلی فضاؤں کی سمت چل پڑے۔ ہماری منزل صوبہ بلوچستان کا صدر مقام کوئٹہ تھا۔ بلوچستان کے حسن کے زیادہ تر جلوے نیشنل ہائی وے کوئٹہ روڑ پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس روڑ پر سر زمین بلوچستان کے چھوٹے موٹے دیہات آباد ہیں۔ ان دیہاتوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے طویل پہاڑی سلسلے اور سرسبز علاقے، اور ساتھ میں بیل پٹ کے ویران لیکن دیدہ زیب علاقے موجود ہیں۔



صوبہ بلوچستان کا واحد ڈویژن نصیرآباد ہے جسے دریائے سندھ سے نکالے گئے کیرتھر کینال اور پٹ فیڈر کینال کے ذریعے کھیت کھلیانوں سے سر سبز و خوبصورت بنایا جارہا ہے۔ یہ علاقہ بلوچستان کی گرین بیلٹ بھی کہلاتا ہے۔ اس گرین بیلٹ میں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں قلفی جما دینے والی سخت سردی پڑتی ہے جس کی وجہ سے مختلف موسمی فصلیں نصیرآباد ڈویژن میں کاشت کی جاتی ہیں اور پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہیں۔

سبی عبور کرتے ہی ایک نہ ختم ہونے والا پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سلسلہ کوئٹہ شہر تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ان سرسبز ویران اور پہاڑوں کے ساتھ ساتھ نیشنل ہائی وے کی خوبصورت اونچی نیچی سڑک ہمارا ساتھ دیتی ہے جو جعفرآباد سے شروع ہوتی ہے اور مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی کوئٹہ کے بہترین دیدہ زیب جگہوں تک چلی جاتی ہے۔ اس سڑک کو کوئٹہ روڈ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ گرمیوں میں کوئٹہ روڈ پر سفر کرنا آسان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ موجود اہم مقامات دیکھنا اور ان تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔



اس روڈ پر سفر کرکے آپ کے سامنے بہت سے اعلی مقامات آئیں گے جن کا نام سن کر آپ ایک لمحے کےلیے حیران و پریشان ہوجائیں گے اور ان مقامات کو آپ ایک مرتبہ ضرور دیکھنے کی خواہش کریں گے۔ سردیوں کا موسم ہو اور آپ کوئٹہ کی جانب سفر کرنا چاہتے ہوں تو اپنے ساتھ گرم لباس اور گرم جیکٹ ضرور اٹھالیجیے ورنہ آپ کا جسم قلفی بننے میں دیر نہیں کرے گا۔ ہمارے اس سفر کا مقصد بھی یہی ہے کہ بندہ کس طرح قلفی بن جاتا ہے۔ ہم نے اپنے سفر کا آغاز جعفرآباد سے کیا اور کوئٹہ کی طرف چل پڑے۔

جعفرآباد


جعفرآباد کا نام قائداعظم کے قریبی دوست میر جعفر خان جمالی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ ضلع سندھ کے شہر جیکب آباد کے سنگم پر واقع ہے۔ جیکب آباد کا نام جنرل جان جیکب کے نام پر رکھا گیا تھا۔ انگریز حکومت نے کئی سال تک جعفرآباد اور جیک آباد پر حکمرانی کی تھی اور پھر ریل گاڑی بھی چلائی تھی۔ جب پہلی مرتبہ ریل گاڑی کوئٹہ کی جانب چلی تھی تو جعفرآباد کے اسٹیشن پر چند منٹوں کےلیے ٹھہر کر دوبارہ کوئٹہ کی جانب چل پڑی، تو اس وقت جنرل جان جیکب نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ اس شہر کا نام کیا ہے؟ تو اس گائیڈ نے بتایا کہ جھٹ شہر آیا پٹ ختم ہوا ہے۔ اچھا تو اس شہر کا نام بھی جھٹ پٹ رکھا جائے تو خوبصورت نام ہوگا۔ پھر اس دن کے بعد اس شہر کا نام جھٹ پٹ رکھ دیا گیا تھا جو بعد میں جعفرآباد بن گیا۔



آج بھی جھٹ پٹ شہر موجود ہے مگر ضلع کا نام جعفرآباد رکھا گیا۔ جعفرآباد اس ضلع کا صدر مقام ہے اور جعفرآباد کو تین تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک جھٹ پٹ، دوسرا اوستہ محمد اور تیسری گنداخہ تحصیل ہے۔ اس ضلع سے سابق وزیراعظم میرظفراللہ خان جمالی بھی تعلق رکھتے ہیں۔



جعفرآباد میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، مٹی، گرد و غبار اور کیچڑ میں دھنسے کچے پکے راستے، تباہ ہوتی صنعتیں، ایک عشرے سے مختلف علاقوں میں ریلوے سروس کی معطلی، تعلیمی اداروں کی خستہ حالی، بڑے ہسپتالوں سے محرومی، برباد و ویران فصلیں، کرپشن و لوٹ مار کا جمعہ بازار، بدامنی، چوری ڈکیتی، بجلی و پانی کے ساتھ گیس کی عدم فراہمی، سیلاب کا عذاب، رہی سہی کسر زرعی پانی کی دن دہاڑے چوری نے پوری کرتے ہوئے جعفرآباد کو غربت و افلاس کی بھٹی میں جھونک دیا ہے جس کی وجہ سے جعفرآباد پورے ملک میں بہت مشہور ہے۔ یہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں جو دن رات محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں تاکہ خوشحال اور مستحکم زندگی گزارسکیں۔

اس ضلع کی چاول کی فصل سعودیہ تک بہت مشہور و معروف ہے۔ ہمیشہ سعودیہ نے پاکستان سے جب بھی چاول کی خریداری کی تو سب سے زیادہ اہمیت جعفرآباد کے چاول کو دی تھی۔ ہم نے لہلاتی ہوئی فصلوں کو خیرباد کہا تو نصیرآباد ضلع شروع ہوا۔

نصیرآباد


ہم نصیرآباد میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے جانوروں کی منڈی آئی، پھر نصیرآباد شہر کے ٹوٹے پھوٹے روڈ جن پر گدھا گاڑیاں رینگ رہی تھیں اور ساتھ میں بے ہنگم ٹریفک جام جگہ جگہ لوگوں کےلیے وبال جان تھا۔ اس شہر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ہر دور میں اس شہر سے ایک وزیر تو منتخب ہوتا ہے مگر آج تک اس شہر کو بائی پاس تک میسر نہ کیا گیا جو باعث عبرت ہے۔



ضلع نصیرآباد صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس ضلعے کا نام خان آف قلات میر نصیر خان نوری کے نام پر رکھا گیا جنہیں ان کی بہادری کی بدولت خان اعظم کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ نصیرآباد کے مشہور علاقوں میں ڈیرہ مراد جمالی، تمبو اور چھتر شامل ہیں۔ ضلع نصیرآباد کا صدر مقام ڈیرہ مراد جمالی ہے۔ ضلع نصیرآباد ایک زرعی ضلع ہے جس کی زراعت کا انحصار پٹ فیڈر کینال پر ہے جو گڈو بیراج سے نکالی گئی ہے۔



نصیرآباد میں سیاسی شطرنج کی بساط کے مہروں کی اکھاڑ پچھاڑ اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ محرومیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی، صفائی کی ناگفتہ بہ حالت، بدنظمی، لاقانونیت کے ہاتھوں غریب لوگ اور تاجر ہندو اقلیت کے کاروباری افراد خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلسل بم دھماکے بھی اس شہر کی قسمت میں آتے رہتے ہیں۔ نصیرآباد کی سب سے مشہور چیز اوچ پاور پلانٹ کی بجلی ہے جو تاحال نصیرآباد ضلع کو میسر ہی نہیں، حالانکہ وزیراعظم نے اعلانات کیے تھے کہ جلد اوچ کی بجلی نصیرآباد کو بلا تعطل دی جائے گی۔ مگر بجلی دینے کے وعدے تاحال وفا نے ہوسکے حتی کہ اس شہر میں بجلی کے بحران نے پورے شہر کی صنعتوں کو بھی اپاہج بنا رکھا ہے۔



اس ضلع کی خوبصورتی اگر کسی چیز پر قائم ہے تو وہ ہے پٹ فیڈر کینال جس کی وجہ سے یہ ضلع گرین بیلٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ہم جیسے ہی نصیرآباد سے آگے بڑھے تو ہمارے سامنے بیل پٹ بھاگ ناڑی کے مناظر تھے۔

بھاگ ناڑی/ بیل پٹ


بھاگ ناڑی کی بنجر زمینوں کی طرف ہم جیسے ہی دیکھتے ہیں تو وہ ایک سیلاب کی طرح پانی پانی دکھائی دیتی ہیں حالانکہ یہ علاقہ پانی کی بوند بوند کو ترستا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو نہ سونے کی تلاش ہے نہ چاندی کی بلکہ پانی کی ہے۔ جی ہاں! پانی کی تلاش ہے۔ نہ ان کو نہ منرل واٹر کی تلاش ہے نہ دریا کے پانی کی بلکہ بارش کے پانی کی تلاش ہے۔ یہاں دُور دُور تک ایک یا دو گھر تو نظر آئیں گے مگر پانی سے بھرے ہوئے تالاب کہیں نہیں ملیں گے۔



پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے مگر بلوچستان میں صاف پانی کا ملنا انتہائی نایاب ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پی کر اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بھاگ ناڑی کے علاقے کی سرسبزی و زرخیزی کا انحصار صرف اور صرف بارشوں پر ہے۔ بارش عام طور پر گرمیوں کے دنوں میں ہوتی ہیں اور بارش ہوتے ہی اس کے نشیب و فراز اور اونچے نیچے ٹیلے سبزے کا لبادہ اوڑھ کر گل و گلزار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ سرسبزی ایک محدود عرصے کےلیے ہوتی ہے اور عام طور پر یہاں گرمی و خشک سالی کا ہر وقت ڈیرہ ہوتا ہے۔

پرانے وقتوں میں سنا ہے کہ بارش کی پانی کی خاطر لوگ عورتوں بچوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ لگتا ہے کہ زمانہ بدلا نہیں۔ بھاگ ناڑی میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ خون بہانے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بھاگ ناڑی میں بارش کا پانی جیسے ہی پہنچتا ہے، اس کے استقبال کےلیے بکریاں قربان کی جاتی ہیں۔ بارش ہونے کےلیے بھی بکریوں کی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا جاتا اور ڈھول کی تھاپ پر پانی آنے کی خوشی میں رقص بھی کیا جاتا ہے۔



انگریز حکومت کے زمانے میں اس علاقے کو ریل کے ذریعے، ڈیرہ مراد سے پانی مہیا کیا جاتا تھا مگر اب یہ سلسلہ بھی رک سا گیا ہے۔ آج بھی بھاگ ناڑی اپنی رنگا رنگ اور منفرد ثقافت کی وجہ سے ایک خاص رعنائی اور کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ اور مہمان نواز ہوتے ہیں۔ جیسے وین بیل پٹ پر دوڑنے لگی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم دریا کنارے سفر کر رہے ہیں۔ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد ہمارے سامنے سبی کا ٹول پلازہ تھا جہاں ہر گاڑی کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ ہم سبی کی جانب چل پڑے۔ سبی دنیا کا سب سے گرم ترین شہر ہے مگر آج تو قلفی جما دینے والی سردی کی لپیٹ میں تھا۔

سفر جاری ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں