طلبہ تحریک کی تاریخ

ایوب حکومت نے 1963ء میں تین سالہ ڈگری کورس نافذ کیا تو این ایس ایف نے ایک تاریخی جدوجہد منظم کی

tauceeph@gmail.com

PARIS:
8 جنوری 1953ء کو کراچی کے طلبا نے انٹر کالجیٹ باڈی (I.C.B) کی زیر قیادت تعلیم کو سستا اور عام کرنے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس میں بائیں بازو کی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (D.S.F) کا بنیادی کردار تھا۔ ڈی ایس ایف کو منظم کرنے میں ڈاکٹر محمد سرور، ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ہارون، مرزا کاظم، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور جمال نقوی وغیرہ کا کردار اہم تھا۔

پاکستان بننے کے بعد کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا مگر نئی حکومت نے تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی میں تعلیمی اداروں کی کمی تھی۔ اسکول اور کالجوں میں بنیادی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ کراچی یونیورسٹی فعال نہیں تھی۔ تعلیمی فیسوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھی ہوئی تھی۔ طلبا نے 8 اور 9 جنوری 1953ء کو کراچی کے ڈی جے کالج سے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔

وزیراعظم خواجہ ناظم الدین تو طلبا کے مسائل میں دلچسپی لیتے تھے مگر وزیر داخلہ نواب مشتاق گورمانی کو تعلیم اور طلبا کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ پولیس نے 8 اور 9 جنوری 1953ء کو طلبا تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا، متعدد طلبہ شہید ہوئے۔ طلبا کی ایکشن کمیٹی نے شہر میں ہڑتال کی کال دی، جس کے بعد طلبا کا احتجاج شہر بھر میں پھیل گیا۔ مگر پھر خواجہ ناظم الدین نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ پروفیسر جمال نقوی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی قیام گاہ پر مذاکرات میں حکومت کو طلبا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ کراچی میں نئے تعلیمی اداروں کے قیام، فیسوں میں کمی، پبلک ٹرانسپورٹ میں رعایت اور کراچی یونیورسٹی کو فعال کرنے کے مطالبات منظور کرلیے گئے۔

ڈی ایس ایف نے کراچی میں ایک مرکزی کنونشن منعقد کیا۔ جس میں ملک کے دیگر علاقوں کے طلبا نمائندوں نے بھی شرکت کی، راولپنڈی سے عابد حسین منٹو اور ڈاکٹر ایوب مرزا بھی شامل تھے۔ ڈی ایس ایف نے مغربی پاکستان میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی طلبا تحریک سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ جب پاکستان کا امریکا کے ساتھ فوجی معاہدہ ہوا، جو بعد میں سیٹو کہلایا تو امریکا کی ایما پر کمیونسٹ پارٹی اور اس کی اتحادی تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی۔ 1954ء میں ڈی ایس ایف پر پابندی عائد کی گئی۔

سینئر صحافی حسین نقی کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن دائیں بازو کی طلبا تنظیم تھی۔ این ایس ایف کے رہنماؤں کی گزارش پر حسین نقی اور ان کے ساتھی این ایس ایف میں شامل ہوئے۔ بعد ازاں این ایس ایف بائیں بازو کے طلبا کی تنظیم میں تبدیل ہوگئی۔ جس نے جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف تحریک کو منظم کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت نے 1963ء میں تین سالہ ڈگری کورس نافذ کیا تو این ایس ایف نے ایک تاریخی جدوجہد منظم کی۔ اس میں علی مختار رضوی، جوہر حسین، معراج محمد خان، حسین نقی، نفیس صدیقی، واحد بشیر، خرم مرزا، امبر حیدر کاظمی اور نواز بٹ وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔ ان طالب علم رہنماؤں کو کراچی بدر کیا گیا۔ یہ رہنما جس شہر میں جاتے کچھ دنوں بعد اس شہر کی انتظامیہ انھیں شہر بدر کردیتی۔ اس طرح طلبا تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ مگر ایوب حکومت کو تین سالہ ڈگری کورس کا فیصلہ واپس لینا ہی پڑا۔

این ایس ایف نے 60ء کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف کئی تحریکیں چلائیں۔ جب ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو این ایس ایف کے کارکنوں نے فاطمہ جناح کے پیغام کو ملک کے کونے کونے تک عام کیا۔ علی مختار رضوی کو لاہور کے شاہی قلعہ میں تھرڈ گریڈ تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ معراج محمد خان پولیس کے بدترین تشدد سے گزرے۔ اس زمانے میں یہ بات عام تھی کہ ان طالب علموں کے ہاتھوں کے ناخوں کو کھینچ لیا گیا۔


معروف سماجی کارکن رمضان بلوچ اپنی کتاب ''لیاری کی ان کہی کہانی''میں لکھتے ہیں کہ برسراقتدار مسلم لیگ نے پولوگراؤنڈ میں ایک جلسہ منعقد کیا جس کی سیکیورٹی لیاری ریکسرلین کے کرمنل عناصر کے سربراہوں داد محمد (دادل) اور شیر محمد (شیرو) کے سپرد کی گئی۔ این ایس ایف کے رہنما معراج محمد خان کی قیادت میں طلباء و طالبات کا ایک وفد لیاری آیا اور شیرو اور دادل سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں طلبا نے ان بلوچ محافظوں کے پاؤں پکڑ کر گزارش کی کہ اس جلسہ میں انھیں مطالبات پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ انھوں نے طلبا کو 10 منٹ کے لیے مطالبات پیش کرنے کی اجازت دیدی۔ پولو گراؤنڈ کے اس جلسے میں اس وقت کے مرکزی وزیر ذوالفقار علی بھٹو بھی دیگر وفاقی وزرا کے ساتھ موجود تھے۔ طلبا نے 10 منٹ تک خوب ہنگامہ آرائی کی۔ پھر انتظامیہ نے حالات پر قابو پالیا۔ معراج محمد خان اور ان کے ساتھی بعد میں گرفتار کرلیے گئے مگر حکومت کو طلبا کے مطالبات ماننے پڑے۔

این ایس ایف نے 1968ء میں ایوب خان کے اقتدار کے 10 سال مکمل ہونے پر منائے جانے والے جشن کو چیلنج کیا۔ کراچی کے جناح کالج سے بصیر نوید، کرامت علی مہکری، عابد علی سید وغیرہ نے ایک سرکاری جلسے میں احتجاج کرکے تحریک کا آغاز کیا۔ یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ حزب اختلاف کی باقی جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ اس احتجاجی تحریک میں شامل ہوگئیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں نے احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے کراچی اور ڈھاکا کی سڑکوں پر بدترین تشدد کیا، مگر تحریک جاری رہی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے سیاست دانوں کی گول میز کانفرنس بلائی۔ عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن سمیت بہت سے سیاسی کارکن رہا ہوئے مگر پھر جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء نافذ کردیا اور ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا۔

نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سربراہ معراج محمد خان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے طالب علم ڈاکٹر رشید حسن خان نئے صدر منتخب ہوئے۔ این ایس ایف نے کراچی کے گل رعنا کلب میں سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے اعزاز میں استقبالیہ دیا، اس طرح پیپلز پارٹی کے منظم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ این ایس ایف کے کارکنوں نے پیپلز پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 60ء کی دہائی میں چین اور سوویت یونین کے درمیان اختلافات کے اثرات پوری دنیا پر پڑے، مگر پاکستان کی سیاست اس ٹکراؤ سے براہ راست متاثر ہوئی۔

پہلے نیشنل عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی، پھر این ایس ایف بھی منقسم ہوگئی۔ ایک گروہ کی قیادت امیر حیدر کاظمی نے کی، جو رشین کہلائے اور دوسرے کی قیادت ڈاکٹر رشید حسن خان نے کی، جو پروچائنا کہلائے۔ اس تقسیم سے طلبا تحریک کمزور ہوئی۔ این ایس ایف کے دونوں گروپوں نے 'تعلیم ہر شہری کا حق' کے نعرے کو منوانے کے لیے زبردست کوشش کی۔ پیپلز پارٹی، عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی نے 1970ء کے انتخابات کے لیے اپنے اپنے منشور میں یہ تحریر کیا کہ پاکستانی ریاست ہر شہری کو تعلیم کا حق دینے کی پابند ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پہلی دفعہ ملک میں جامع تعلیمی اصلاحات ہوئیں، تمام تعلیمی اداروں کو قومیا لیا گیا، طلبا کی فیسیں ختم کردی گئیں اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو نئے گریڈ دیے گئے، ان کا عہدہ سی ایس پی افسران کے برابر کردیا گیا، نئے تعلیمی ادارے قائم ہوئے مگر بیوروکریسی اور سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کی بنا پر تعلیمی شعبہ خرابیوں کا شکار ہوگیا۔ طلبا تحریک کمزور ہوگئی۔ سندھ میڈیکل کالج سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار آج کل لندن میں مقیم ہیں۔ انھوں نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ لکھنے کا فیصلہ کیا۔

اس کتاب کا نام ''چاند پر کمند'' رکھا گیا۔ پاکستان کی طلبا تحریک کا کوئی ذکر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور اس کی بانی تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذکر کے بنا مکمل نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بات شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ ان دو تنظیموں کی جدوجہد کی کہانی کو آج تک باقاعدہ تحریر نہ کیا جاسکا اور اس کا ذکر مختلف اوقات میں تحریر کردہ مضامین اور سرگرم شخصیات سے گفتگو کی شکل میں تو ملتا ہے جو گاہے بگاہے شائع ہوتی رہی لیکن اس کی کوئی باقاعدہ کتابی شکل موجود نہیں۔ اس کمی کا احساس کرتے ہوئے 2012ء میں فیس بک پر ایک صفحہ کی بنیاد رکھی گئی۔

اس صفحہ کا مقصد این ایس ایف کے سابق کارکنان کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ایسی اجتماعی تاریخ نویسی کی کاوش کا آغاز کرنا تھا جس کے نتیجے میں ان دو تنظیموں کی مکمل تاریخ مرتب کی جاسکے۔ کارکنوں کی اپنی یادداشتیں، چنیدہ شخصیات سے دوبدو یا بذریعہ ٹیلی فون گفتگو، دستاویزات، تصاویر اور شائع شدہ مواد وہ تمام ذرائع تھے جن سے اس کاوش میں مدد لی گئی۔ ڈاکٹر حسن جاوید کی یہ کتاب پاکستان کے سیاسی لٹریچر میں ایک مفید اضافہ ہوگی۔
Load Next Story