آخری عظیم ناکام پاکستانی کی موت

1988 کے انتخابات میں اگرچہ تحریکِ استقلال نے حصہ لیا مگر تب تک سیاسی حالات بہت آگے نکل چکے تھے


Wasat Ullah Khan January 06, 2018

اگر پاکستان کے پانچ ایسے لوگوں کی فہرست بنائی جائے جو ضمیر کے سامنے انتہائی کامیاب اور دنیاوی اسکیل پر اتنے ہی ناکام رہے تو اس میں پہلے سے پانچویں نمبر پر ایک ہی نام ہے۔ایرمارشل اصغر خان۔اگر میں ان کی زندگی ایک سطر میں سمونے کی کوشش کروں تو وہ یہ ہوگی کہ ''اصغر خان ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں جس بات کو درست سمجھے اسے مکمل خلوص اور پیشہ ورانہ ذمے داری کے ساتھ نبھاتا چلا جائے''۔

اصغر خان کے ساتھ کئی فرسٹ لگے ہوئے ہیں۔رائل انڈین ایرفورس کا پہلا پائلٹ جس کے اسکواڈرن نے سانگھڑ کے علاقے مکھی میں گوٹھ جام نواز علی پر پرواز کرتے ہوئے حر پناہ گزینوں کے نہتے قافلے کو دہشت گرد سمجھ کر بمباری نہیں کی اور اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا سامنا کیا۔ رائل انڈین ایرفورس کا پہلا پائلٹ جس نے جیٹ لڑاکا طیارہ گلوسٹر میٹیور اڑایا (انیس سو چھیالیس)۔پاکستان بننے کے بعد رائل ایرفورس کا پہلا سینئر پائلٹ جس نے نئی مملکت کی ایرفورس کے لیے آپٹ کیا۔پاکستان ایرفورس اکیڈمی رسالپور کا بانی کمانڈنٹ (مئی دو ہزار سترہ میں اکیڈمی کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا)، ایر سٹاف کالج اور کالج آف ایروناٹیکل انجینیرز کا بانی، پاک فضائیہ کا پہلا ایرمارشل اور چیف (عمر چھتیس برس)۔

جب ایوب خان نے اپریل انیس سو پینسٹھ میں رن آف کچھ میں فضائیہ کو اعتماد میں لیے بغیر کارروائی کی تو حاضر سروس ایر چیف نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔دو ماہ بعد انھیں کمان سے ہٹا کر ایئرمارشل نور خان کو کمان دے دی گئی۔مگر اصغر خان نے جو پروفیشنل ادارہ کھڑا کر دیا تھا اس نے پینسٹھ کی جنگ کا پانسہ پلٹ کے رکھ دیا۔

ایوب خان نے اصغر خان کو پی آئی اے کا مینجنگ ڈائریکٹر بنا دیا۔ان کا پیسٹھ سے اڑسٹھ کا تین سالہ دور پی آئی اے کی '' گولڈن ایج'' کہلاتا ہے۔اس عرصے میں پی آئی اے حادثاتی اعتبار سے دنیا کی سب سے محفوظ ایرلائن بن گئی اور پروازوں کے شیڈول اور کیبن سروس کے اعتبار سے پانچ بڑی ایرلائنز میں شمار ہونے لگا۔اصغر خان نے اس دوران کمرشل پائلٹ لائسنس بھی حاصل کر لیا (یعنی ایرفورس کا پہلا سابق چیف جو کمرشل پائلٹ بھی تھا)۔

جب ایوب خانی اسٹیبلشمنٹ اسکول کے بچوں کو یہ سمجھا رہی تھی کہ پینسٹھ کی جنگ ایک عظیم الشان فتح تھی تو اندرونی حالات جاننے والے اصغر خان اس راگ میں اپنی راگنی ملانے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔پی آئی اے سے سبکدوشی کے بعد جب انھوں نے عملی سیاست میں چھلانگ لگائی اور جسٹس پارٹی بنائی تو وہ پہلے سیاستداں تھے جنھوں نے کہا کہ ہم نے یہ جنگ نہیں جیتی بلکہ ایوب خان، بھٹو اور عزیز احمد وغیرہ کے ٹولے نے ہمیں اس جنگ کے تالاب میں دھکہ دیا تھا (بعد ازاں دو ہزار گیارہ میں ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ انیس سو اڑتالیس کی جنگِ کشمیر سے انیس سو ننانوے کی گرگل لڑائی تک ماسوائے اکہتر کی جنگ جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں پہل پاکستان کی طرف سے ہوئی)۔اگر یہ دعوی غلط تھا تو اصغر خان پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے تھا۔مگر کون چلاتا؟

اصغر خان کو ایوب کے وزیر خارجہ بھٹو سے اختلاف ضرور تھا لیکن بطور سیاستداں بھٹو کی گرفتاری کی انھوں نے پھر بھی مخالفت کی اور بھٹو نے جب انیس سو اڑسٹھ میں بھوک ہڑتال کی تو اصغر خان نے ان کے موقف کی بھرپور حمایت کی۔لیکن بھٹو نے انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد انتقالِ اقتدار کی مخالفت کی تو اصغر خان مشرقی پاکستانیوں کے حق ِ جمہوریت کی حمایت میں کھڑے ہونے والے معدودے چند مغربی پاکستانی سیاستدانوں میں شامل ہو گئے۔وہ آخری سانس تک اپنے موقف پر قائم رہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو اور یحیی خان برابر کے شریک تھے۔

بھٹو کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اصغر خان کی سیکولر جماعت (جو جسٹس پارٹی سے تحریکِ استقلال ہو گئی تھی) بھٹو کی سخت گیر اندرونی پالیسیوں کی ناقد رہی۔اصغر خان نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ معاملہ صرف بلوچستان تک نہیں رہے گا بلکہ یہ بعد میں بھٹو کو بھی سیاسی طور پر کھا جائے گا۔اصغر خان نے انیس سو پچھتر میں حزبِ اختلاف کے اتحاد کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی) میں فعال کردار ادا کیا۔انیس سو ستتر میں پاکستان قومی اتحاد کے نو ستاروں میں شامل ہوئے۔انتخابی مہم کے دوران برسرِ اقتدار آ کر بھٹو کو کوہالہ پل پر لٹکانے کا وعدہ کیا۔مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک میں بے لچک موقف اختیار کیا۔فوجی قیادت کو ملک بچانے کے لیے اپنی آئینی ذمے داریاں یاد دلانے کے لیے متنازعہ خط بھی لکھا اور آخر وقت تک یہ الزام دھونے میں مصروف رہے کہ ان کے خط نے ضیا الحق کو آگے بڑھنے کا اخلاقی حوصلہ دیا۔

جب پانچ جولائی کو ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو اصغر خان نے اس کا خیرمقدم تو کیا لیکن فوری عام انتخابات کروانے کا بھی مطالبہ کر دیا۔ضیا الحق نے نوے دن میں انتخابات کا وعدہ پورا نہیں کیا اس کے بجائے پی این اے کو عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔مگر اصغر خان نے یہ سیاسی رشوت لینے سے انکار کر دیا اور کھل کے ضیا الحق کی مخالفت شروع کردی۔ضیا حکومت نے اصغر خان کا منہ بند کرنے کے لیے انھیں ایبٹ آباد کی رہائش گاہ میں اگلے پانچ برس کے لیے نظربند کر دیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انھیں ضمیر کا قیدی قرار دے دیا۔

اصغر خان اگرچہ نظربند رہے مگر انھوں نے انیس سو تراسی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت کی حمایت کی۔انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں اگرچہ تحریکِ استقلال نے حصہ لیا مگر تب تک سیاسی حالات بہت آگے نکل چکے تھے۔

تحریکِ استقلال کا جائزہ لیا جائے تو اس نے سیاسی نرسری کا کام تو کیا مگر خود کبھی تن آور درخت نہ بن سکی اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اصغر خان کی شخصیت رہی جو ٹیکسٹ بک میں درج بلیک اینڈ وائٹ سیاست کر کے ایک ایسے سماج میں کامیاب ہونا چاہتے تھے جہاں ہر شے گرے ایریا میں ہے۔

تحریکِ استقلال کی نرسری نے اس ملک کو نواز شریف، خورشید محمود قصوری، اعتزاز احسن، جاوید ہاشمی، مشیر پیش امام، اکبر بگٹی، مشاہد حسین، گوہر ایوب، ظفر علی شاہ، عابدہ حسین اور فخر امام وغیرہ دئیے اور آخر میں تحریکِ استقلال تحریکِ انصاف میں ضم ہو گئی اور اصغرخان اسلام آباد کے گھر کی چار دیواری میں رہ گئے۔

سن نوے کے عشرے تک یہ بات اصغر خان کو بالاخر اچھی طرح سمجھ میں آ گئی تھی کہ سیاست دو اور دو چار کا گیم نہیں بلکہ اس میں دو اور دو ساڑھے تین اور پانچ بھی کرنے پڑتے ہیں۔سیاست کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں، سیاست پیشہ نہیں نوکری ہے۔سیاسی جماعتیں ٹھوس میٹریل سے نہیں گتے کے میٹریل سے بنائی جاتی ہیں تاکہ حسبِ ضرورت لچک کا مظاہرہ ہو سکے۔سیاست ایمانداری کی دکان نہیں جائز و ناجائز ناممکنات کو ممکن بنانے کا کارخانہ ہے۔

اس تناظر میں اصغر خان نے اپنی سیاسی زندگی کی آخری گیند انیس سو چھیانوے میں سپریم کورٹ کے سامنے سیاست میں ایجنسیوں کے کردار کے خاتمے کے لیے کھیلی اور انیس سو نوے میں آئی جے آئی بنوانے کے سلسلے میں صدر غلام اسحاق خان، جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس ائی کے سربراہ اسددرانی کی جانب سے مہران گیٹ کے یونس حبیب کے توسط سے سیاستدانوں میں ایک سو چالیس ملین روپے بانٹ کر انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے استدعا کی کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا دروازہ مستقل بند کرنے کی سبیل کی جائے۔

سپریم کورٹ نے تمام کرداروں کے زندہ ہونے کے باوجود اس درخواست کے فیصلے میں سولہ برس لگا دئیے۔دو ہزار بارہ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مختصر فیصلے میں کہا کہ انیس سو نوے کے انتخابات صدر غلام اسحاق خان، اسلم بیگ، اسد درانی اور ایوانِ صدر اور آئی ایس آئی کے پولٹیکل سیل نے داغدار کیے۔وفاقی حکومت ایف آئی اے کے ذریعے تمام کرداروں بشمول رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف بلا تاخیر قانونی کارروائی شروع کرے۔

پیپلز پارٹی حکومت نے اس فیصلے کو اپنی عظیم فتح قرار دیا اور وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے وعدہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر حرف بحرف عمل کیا جائے گا۔اس اعلان کے پانچ برس بعد مئی دو ہزار سترہ میں تحریکِ انصاف نے اعلان کیا کہ وہ سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن داخل کر رہی ہے جس میں توجہ دلائی جائے گی کہ عدالت ایف آئی اے سے استفسار کرے کہ عدالتی حکم پر کس حد تک عمل ہوا؟ مگر اس پیٹینشن کو دائر ہونے سے پہلے پہلے پانامہ کیس کا ہلہ گلہ کھا گیا۔

اصغر خان اس دنیا سے جا چکے مگر ان کی پیٹیشن کا مستقبل آج بائیس برس بعد بھی پاکستانی آئین، قانون اور جمہوریت کے آلودہ سمندر میں لاوارث پھولی لاش کی طرح تیر رہا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ اگر سیاست میں کچھ کمانا ہے تو وہ سب کرنے کی ضرورت ہے جو اصغر خان نہیں کر سکے۔مگر اس عظیم آدمی کی ناکامیابیوں کے لیے کم ازکم ایک بھرپور سیلوٹ تو ہر پاکستانی کی طرف سے بنتا ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں