جمہوریت اور ہمارا ماحول
جمہوری نظام ایک آئین کے تحت کام کرے گا اور سب آئین کا احترام کریں گے
سال 2017 میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے ملکوں میں 7 ویں درجہ پر رکھا گیا ہے۔ صورتحال انتہائی تشویشناک اور بھی ہوجاتی ہے کیونکہ درجہ بندی میں آنے والے پہلے 6 ملکوں کو اگر ملا بھی لیا جائے تو بھی ان کی کل آبادی شہر کراچی کے برابر بھی نہیں ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والا پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑے تمام مظاہر جن میں خشک سالی، سیلاب، شدید گرمی، لینڈ سلائیڈنگ، پانی کی کمی، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلیوں سمیت دیگر مظاہر شامل ہیں اور ان سب آفات کا نشانہ ملک کے عوام بن رہے ہیں۔
اقوام عالم کی غالب اکثریت اپنے اپنے طریقوں سے موسمیاتی و ماحولیاتی مسائل کو اپنے ترجیحی ایجنڈے پر رکھ کر اپنے ملک کے عوام کو ان خطرات سے بچانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو ہم دنیا سے ایک الگ تھلگ قوم نظر آتے ہیں۔ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں سوچنا تو ایک طرف رہا، جو کام دنیا کے تقریباً تمام ممالک دہائیوں پہلے کرچکے ہیں ہم ان کے بارے میں ابھی تک سوچ و بچار میں مصروف ہیں کہ انھیں کیا جائے بھی یا نہیں۔
دنیا طے کرچکی ہے کہ اگر سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو بحیثیت قوم آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔ عالمی اقوام کی غالب اکثریت نے سب سے پہلی ترجیح یہ طے کی کہ ایک جمہوری نظام قائم ہو جو تنازعات کے پرامن حل کا راستہ بتائے اور یہ اصول طے کرے کہ اقتدار میں آنے اور جانے کا طریقہ کار کیا ہوگا، ریاست اگر وفاق ہے تو صوبوں کو کتنی خود مختاری حاصل ہوگی، بنیادی حقوق سب کے لیے مساوی ہوں گے، اگر کسی شہری کے حقوق سلب کیے جائیں گے تو اس کی دادرسی کا قانونی طریقہ کار کیا ہوگا۔ جمہوری نظام ایک آئین کے تحت کام کرے گا اور سب آئین کا احترام کریں گے، اختلاف اور تنازعات کو آئین کے دائرے میں رہ کر حل کیا جائے گا۔ کوئی فرد گروہ، سیاسی جماعت یا ادارہ اس سے انحراف نہیں کرے گا۔
اس عمل کے نتیجے میں ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے، سیاسی استحکام کے باعث ملک اور معاشرے کے اندر تبدیلی اور ارتقا کا عمل تیز ہوتا ہے، حکومتیں پالیسی سازی کرتی ہیں، اپنے اہداف مقرر کرتی ہیں اور انھیں اپنی آئینی میعاد کے اندر حل کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں تاکہ کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکیں۔ حزب اختلاف حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور بہتر اور متبادل پالیسیاں پیش کرتی ہے اور عوام کی پذیرائی حاصل کرکے آئینی طور پر اقتدار میں آنے کی جدوجہد کرتی ہے۔
اس تناظر میں جب امور ریاست سرانجام دیے جاتے ہیں اور سیاست کی جاتی ہے تو عوام کے حقیقی مسائل رفتہ رفتہ ابھر کر سامنے آتے ہیں اور حکومت پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا ہے۔ کسی مسئلے کے حل میں بلاجواز تاخیر کی جائے تو ذرائع ابلاغ، مخالف سیاسی تنظیمیں، پیشہ ورانہ تنظیمیں اور سول سوسائٹی سراپا احتجاج بن جاتی ہیں۔ جمہوری نظام اور سیاسی استحکام کے نتیجے میں مسائل حل ہونے لگتے ہیں، لوگوں میں غیر ضروری پیمان اور اضطراب پیدا نہیں ہوتا۔ صبر، ضبط اور تحمل انفرادی و اجتماعی کا حصہ بننے لگتا ہے۔
چند سال پہلے تک تو ہماری ملکی صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی تھی کہ ملک عالمی سطح پر نادہندہ ہونے والا تھا، تمام ادارے تباہ ہوچکے تھے، خزانہ خالی تھا، ہر طرف دہشت گردوں کا راج تھا، بیرونی سرمایہ کاروں کی بات تو جانے دیں کسی ملک کی کرکٹ ٹیم تک ہمارے ملک میں آنے کو تیار نہیں تھی۔ ایسی بھیانک صورتحال میں موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات پر بات کرنا ایک مذاق ہی تھا۔
بڑی مشکلوں سے جہوری عمل شروع ہوا اور اس میں تسلسل کی امید پیدا ہوئی تو یہ سوچ بھی پیدا ہونی شروع ہوئی کہ اب جہاں دیگر معاملات پر بات ہوگی وہیں پاکستان جیسا ملک جو ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی بھٹی بن چکا ہے، جس کی لپیٹ میں پورا ملک ہے، اس طرف بھی کوئی توجہ دی جائے گی تو ایک مرتبہ پھر ملک کو جمہوریت کی پٹری سے اتارنے کا کام شروع کردیا گیا۔ دھرنے اور احتجاج کے طویل سلسلوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کو عدم استحکام کی کیفیت میں مبتلا کرکے رکھ دیا۔ ہم اپنے معاشرے اور سماج کے فطری ارتقا کو روک رہے ہیں اور ملک کی پالیسیوں کو بعض محدود اور مخصوص مفادات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے کے تمام شعبے فطری انداز میں ترقی کرتے اور پروان چڑھتے ہیں انھیں غیر فطری انداز میں چلانے کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
موجودہ صورتحال کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے معاشرے اور ماحول میں توازن کو برقرار نہیں رکھا۔ معاشی وسائل اور قدرتی ماحول دونوں کا خوب استحصال کیا۔ انصاف جمہوری اقدار اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کی حکمرانی پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے بجائے ہم ناانصافی، جمہوری حقوق کی پامالی، جبر، جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
جمہوری تسلسل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے باوجود دہشت گردی میں بے پناہ کمی ہوئی، سی پیک جیسا عظیم منصوبہ شروع ہوا توانائی کے بحران پر تقریباً قابو پایا گیا، موسمیاتی تبدیلی پر چاروں صوبوں کی کونسل بنی، گرین پاکستان پروگرام شروع ہوا اور سب سے بڑھ کر لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد قائم ہوا لیکن اب پھر صورتحال دگرگوں نظر آرہی ہے۔ طرح طرح کی افواہیں روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہیں، ایک مرتبہ پھر دھرنے دھرنے کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
اس امر کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ جب تک ہمارا انفرادی اور اجتماعی رویہ وقت کو ٹالنے، وقت پر درست فیصلے نہ کرنے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کا نہ ہو تو ایسے میں فطرت اور ماحول کو جو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ہمارے ان ہی ہلاکت خیز غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے پورا ملک آلودگی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ کون سی ایسی شے ہے جو آلودہ نہیں۔ جب ملک کو معاشی و جمہوری تباہی اور معاشرتی ابتری سے بچانے کی فکر نہ ہو تو ماحول کو بچانے کی فکر کیسے ہوگی؟
یہ جان لیا جائے کہ فطرت سے ٹکرانے، توازن کو درہم برہم کرنے، انصاف، جمہوریت کی حکمرانی کو قبول نہ کرنے کا رویہ ترک کیے بغیر ہماری معیشت اور ہمارا ماحول سنگین قومی بحران سے نہیں نکل سکے گا اور اس بحران کا جو انجام ہوگا، اس کا تصور بھی محال ہے۔