جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو

کٹاس راج مندر اور دیگر ثقافتی ورثوں کو لالچ کی دیمک چاٹ رہی ہے، کیا عدالت انہیں بچا پائے گی؟

کسی بھی منصوبے کو عمل درآمد سے پہلے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ یعنی EIA کروانا ضروری تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔ فوٹو: فائل

وادی کہون میں موجود کٹاس راج مندر آج کل خبروں کی زد میں ہے۔ اس مندر کا تالاب اور وادی کے دیگر تالاب و چشمے خشک ہونے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہوا ہے۔

اس بارے میں ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی خبروں کا چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے جواب طلب کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے ترجمان کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے وفاقی اور صوبہ پنجاب کے محکمۂ آثارِقدیمہ کے ڈائریکٹر جنرلز، محکمۂ اوقاف کے سیکریٹری اور لاہور اور چکوال کے ڈپٹی کمشنروں سے اس بارے میں جواب طلب کیا تھا۔ اس حوالے سے یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ علاقے میں سیمنٹ فیکٹریاں بہت زیادہ پانی استعمال کر رہی ہیں اور اْنہوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیرزمین پانی کے حصول کے لیے 100 سے زائد 'واٹر بورنگ' کر رکھی ہیں۔

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کٹاس راج مندر کی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ہندو بھی اس ملک کے شہری ہیں اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہندو برادری کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی حفاظت کے لیے اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ اْنھوں نے کہا کہ یہ صرف ہندوؤں کی عبادت گاہ ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کا قومی ورثہ بھی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کٹاس راج کے مندر کے تالاب میں پانی نہیں ہے جس کی وجہ سے شدید مشکلات درپیش ہیں۔ عدالت نے پنجاب حکومت اور چکوال کی ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ایک ہفتے میں تالاب پانی سے بھرنا چاہیے چاہے اس کے لیے مشکیں بھر بھر کر لے آئیں۔ عدالت میں پنجاب حکومت اور چکوال کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ کٹاس راج مندر کے پاس ایک سیمنٹ کی فیکٹری ہے اور اطلاعات کے مطابق پانی کا ایک بڑا ذخیرہ اس فیکٹری میں استعمال ہو رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو سیمنٹ فیکٹری کو بھی نوٹس جاری کر دیں گے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو کٹاس راج سے متعلق کمیٹی کا معاون مقرر کردیا ہے جب کہ اس ازخود نوٹس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

ہندو روایات کے مطابق کہ ہندو دیومالائی داستانوں کے سب سے طاقت ور کردار شیو بھگوان جب اپنی محبوبہ سیتا کی وفات پر غم زدہ تھے تو ان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے اجمیر شریف کے قریب پشکارا کے مقام پر اور وادی کہون میں کٹاس مندر کے پاس کٹاس تالاب وجود میں آئے۔ صدیوں سے ہندو مذہب کے ماننے والے ان پانیوں سے غسل کرکے نجات کے طلب گار ہوتے تھے لیکن اب اس تالاب کا پانی خشک ہوچکا ہے۔

کٹاس راج کے مندروں کا ذکر مہا بھارت جو تین سو سال قبل مسیح کی تصنیف ہے میں موجود ہے۔ براہموں کی روایت کے مطابق جب شیو دیوتا کی بیوی سیتا مرگئیں تو انہیں اتنا دکھ ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندی جاری ہوگئی اور ان سے دو متبرک تالاب معرض وجود میں آگئے۔ ایک اجمیر کا پشکر اور دوسرا کٹک شیل۔ سنسکرت میں اس لفظ کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کثرت استعمال سے کٹاس بن گیا۔ ہندو مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک اس تالاب کا پانی مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہر سال انڈیا سمیت دنیا بھر سے یاتری یہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ سنہ 2005 میں حکومت پنجاب نے ہندوؤں کے اس مقدس مقام کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہ نما ایل کے ایڈوانی نے کٹاس کے مندروں کی بحالی کے کام کا افتتاح کیا تھا۔ بحالی کا یہ کام سنہ فروری 2014 میں مکمل ہوا تھا۔

وادی کہون چکوال ڈسٹرکٹ لاہور اور اسلام آباد کی موٹر وے کے راستے پر کلر کہار کے قریب واقع ہے۔ یہ وادی مغرب میں سالٹ رینج اور مشرق میں ہندوؤں کے قدیم کٹاس مندر کے خوب صورت کھنڈرات تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس وادی کی زمین زرخیز ترین سمجھی جاتی ہے اور اس زمین کا ایک بہت بڑا حصہ کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کھیتی باڑی یہاں کے رہنے والوں کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ یہاں زیادہ تر گندم ، جو اور مونگ پھلی وغیرہ کی فصل اگائی جاتی ہے۔ وادی کا موسم خشک ہے اور اس علاقے میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔

یہ وادی ماحولیاتی حوالے سے انتہائی زرخیز سمجھی جاتی ہے۔ اس وادی میں مشہور کلر کہار جھیل واقع ہے جو موسم سرما میں نقل مکانی کرنے والے ہزاروں پرندوں کا مسکن بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بہت سے جنگلات بھی ہیں جن میں کاہو اور بیر کے بلندوبالا درخت موجود ہیں۔


یہ وادی حیاتیاتی تنوع سے بھی مالامال ہے ۔ یہاں پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں کی اقسام میں اڑیال، خرگوش، بھیڑیا، جنگلی بلی، گیدڑ، لومڑی، جھاؤ چوہا، سانپ، چھپکلیاں، لال کچھوا، فاختہ، مینا، عقاب اور شاہین وغیرہ شامل ہیں۔

وادی کہون میں قدم قدم پر تاریخ کے اوراق بکھرے ہوئے ہیں۔ سالٹ رینج اور پوٹھوہار پلیٹیو پاکستان کے قدیم تاریخی اور ثقافتی ورثے کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔ اس وادی میں موجود ہندوؤں کا تاریخی تالاب کٹاس ان کے لیے بے انتہا مذہبی اہمیت کا حاصل ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی روایات کے مطابق یہ تالاب بھگوان شیو کے آنسوؤں سے وجود میں آیا۔ قریب ہی قدیم شہر سنگھا پورہ کا قدیم مقام ہے جو 250 قبل مسیح میں اشوکا کے دور حکومت میں آباد ہوا۔ اس کے علاوہ کٹاس تالاب کی طرف کھلتی ہوئی قدیم یادگاروں کا ایک جھرمٹ ہے۔ قریب ہی واقع ملوٹ گاؤں آثارقدیمہ کا ایک اہم نشان ہے، جس میں محمود غزنوی کے زمانے کے تعمیرات کے کھنڈر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملوٹ میں ہندو شایہ ٹمپل کی عمارات بھی ہیں۔ خود چکوال کا گاؤں 400 سال پرانا ہے۔

اس وادی میں پھیلے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں تقریباً 250,000 افراد آباد ہیں۔ ان گاؤں میں خیرپور، تترال، کھوکھر بالا، دسلیل پور، مگھال، ڈھیری سیدن، بادشاہ پور، دلوال وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس وادی کی لمبائی تقریباً بیس کلومیٹر اور چوڑائی ڈھائی سے تین کلو میٹر ہے۔ یہ علاقہ چوںکہ جغرافیائی طور پر بارانی ہے، لہذا پانی یہاں کے لوگوں کے لیے جنس نایاب ہے۔

یہاں کے رہنے والے اپنی تمام ضروریات کے لیے بارش کے پانی پر انحصار کرتے ہیں جو کہ ایک آبی ذخیرے میں جمع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دو تالاب ہیں کٹاس اور ملکانی میں۔ اسی پانی سے اس وادی میں زراعت پھل پھول رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے تیرہ سالوں میں لگنے والی سیمنٹ فیکٹریوں نے اس علاقے کے ماحول کو تباہ و برباد کردیا ہے اور پانی کے وسائل پر منفی اثر مرتب کیے ہیں حتی کہ وادی میں موجود قدرتی تالاب، چشمے اور جھرنے بھی خشک ہوگئے۔ اس حوالے سے جب خبریں سامنے آئیں تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا۔ لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ اس وادی کے زرخیزماحول اور قدرتی وسائل کا خیال رکھے بغیر سیمنٹ فیکٹریوں کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی اور یوں دھیرے دھیرے یہ وادی تباہ ہوتی چلی گئی۔

اس وادی کے ایک رہائشی راجا وسیم جو ان فیکٹریوں کی غیرقانونی تعمیر کو عدالت میں چیلینج کرچکے ہیں اس کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ 2004 کا سال تھا جب وادی کے پُرسکون ماحول میں ہلچل پیدا ہوئی اور ترقی کے نام پر اس وادی میں تباہی کا آغاز ہوا جو تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ 2004 میں یہاں سیمنٹ فیکٹریاں لگنے کا آغاز ہوا اور آج یہاں 4 سیمنٹ فیکٹریاں اور ایک پیپر مل کام کررہی ہے۔ ان فیکٹریوں کی تعمیر سے پہلے ہی جب یہ منصوبے صرف کاغذات میں تھے راجا وسیم اور یہاں کے رہائشیوں نے انہیں چیلینج کرنا شروع کردیا تھا۔ سب سے پہلی فیکٹری 2007 میں لگی جو 3800 کنال پر پھیلی ہوئی ہے۔ دوسری فیکٹری 2007 میں ہی تترال گاؤں میں لگائی گئی۔ ان کے بعد ایک اور سیمنٹ فیکٹری نے یہاں کام شروع کیا۔

پہلا مقدمہ جو ان فیکٹریوں کے خلاف دائر ہوا وہ دو ہزار چار میں ڈی جی سیمنٹ کے خلاف زمین کے حصول کے حوالے سے ہوا۔ یہ مقدمہ زمین کے مالکان کی طرف سے دائر کیا گیا تھا۔ ایک اور ضابطے کی خلاف ورزی یہ ہوئی تھی کہ 2004 میں دو فیکٹریوں یعنی ڈی جی سیمنٹ اور بیسٹ وے سیمنٹ کو پنجاب کے تحفظ ماحول کے ادارے نے وادی کہون میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت دے دی۔ یہ این او سی وفاقی ای پی اے کے مرضی کے خلاف دیا گیا۔

پنجاب ای پی اے کے اس فیصلے کے خلاف 2005 میں اس علاقے کے رہنے والوں نے این جی ایوز کے ساتھ مل کر لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن فائل کی۔ اس پٹیشن میں وادی کہون میں سیمنٹ فیکٹریاں لگنے کی سخت مخالفت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ان فیکٹریوں سے وادی کہون کی ماحولیات اور خصوصا پانی کے وسائل پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔

مزید یہ بھی کہا گیا کہ یہاں قائم دو فیکٹریوں نے پاکستان کے ماحولیات کے قانون (پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997) کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔ اس پٹیشن میں خاص طور سے ان دونوں فیکٹریوں کو پنجاب ای پی اے کی جانب سے ملنے والے این او سی کو چیلینج کیا گیا تھا۔ واضح کیا گیا کہ یہ این او سی غیرقانونی ہے کیوںکہ اس میں ماحولیاتی قوانین کے سیکشن 12کو بالکل نظرانداز کیا گیا۔ کسی بھی منصوبے کو عمل درآمد سے پہلے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ یعنی EIA کروانا ضروری تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔

یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر 2010 کے آخر میں سپریم کورٹ نے چار سال گزرنے کے بعد اس مقدمے کو پھر سے سنا۔ پچھلے چھ سالوں میں جن خطرات کا مختلف حلقوں کی جانب سے اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا وہ اس دوران حقیقت میں بدل چکے تھے۔ زیر زمین پانی کی سطح جو 2004 میں 80 یا 90 فٹ کی گہرائی پر تھی اب پانی کے بے دریغ استعمال سے سیکڑوں فٹ نیچے جاچکی ہے جب کہ فیکٹریاں اپنی بھاری ٹربائن سے مسلسل پانی کھینچے جارہی ہیں۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ راجا وسیم کے مطابق 3,500 ایکڑ پر مشتمل پہاڑ بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کو لائم اسٹون کے لیے الاٹ ہوئے ہیں اور 5,500 ایکڑ زمین پر مشتمل پہاڑ ڈی جی سیمنٹ فیکٹری کو الاٹ کیے گئے ہیں۔ یوں کچھ ہی دن گزریں گے کہ یہ فیکٹریاں اس وادی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیں گی۔

اب 2017 کا آخر ہے ۔ کٹاس مندر کا تالاب اور وادی کے دیگر جھرنے اور قدرتی چشمے سوکھ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا ہے اور سپریم کورٹ کا لہجہ بتا رہا ہے کہ اس بار انصاف ہوکر رہے گا۔ راجا وسیم اور علاقے کے دیگر رہائشی بھی پُرامید ہیں کہ ان کی تیرہ چودہ سالوں پر محیط جدوجہد رنگ لائے گی۔
Load Next Story