2017 تحریک لبیک کے دھرنے ملکی سیاست میں ایک نئے فیکٹر کا اضافہ

انتخابی سیاست میں قدم رکھنے والے دو نئے مذہبی گروہ آنے والے دنوں میں کیا رنگ دکھائیں گے؟

ڈاکٹرآصف جلالی نے اکتوبر میں دس روز تک اسلام آباد کے جناح ایونیو پر دھرنا دیا۔ فوٹو؛ فائل

بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی 'تحریک لبیک' کی طرف سے اسلام آباد دھرنا بھی سال2017ء کے اہم ترین واقعات میں شامل ہے۔

دو مذہبی رہنما ڈاکٹر آصف اشرف جلالی اور علامہ خادم حسین رضوی تحریک لبیک کے مرکزی قائدین کی صورت میں سامنے آئے۔ تنظیم شروع دن سے انہی دونوں رہنماؤں کی قیادت میں دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اکتوبر2017ء کے اوائل میں پاس ہونے والے الیکشن ایکٹ 2017 میں شامل چند ترامیم پر تنازع کھڑا ہوا تو ان دونوں رہنماؤں نے اپنے پیروکاروں کو لے کر علیحدہ علیحدہ اسلام آباد پر چڑھائی کی۔ ڈاکٹرآصف جلالی نے اکتوبر میں دس روز تک اسلام آباد کے جناح ایونیو پر دھرنا دیا۔ انکے ساتھ کارکنوں کی زیادہ بڑی تعداد نہ تھی۔

ریلی کے شرکا ایک طرف روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کررہے تھے، دوسری طرف الیکشن ایکٹ2017ء میں عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کرنے والے ذمہ داروں کو بے نقاب کرکے ان کو عہدوں سے الگ کرنے اور صوبہ پنجاب کے وزیرقانون کے رانا ثنااللہ کو انکے متنازعہ بیانات کی وجہ سے وزارت سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کررہے تھے۔

اگرچہ وفاقی حکومت حلف نامہ میں تبدیلی کو ایک 'کلیریکل غلطی' قراردیتی رہی تاہم تحریک لبیک اور دیگراپوزیشن جماعتیں مطالبہ کررہی تھیں کہ ذمہ دار افراد کے خلاف جوڈیشل انکوائری کی جائے۔ ان کا الزام تھا کہ وفاقی وزیرقانون زاہدحامد اس ترمیم کے ذمہ دار ہیں، اس لئے وہ بھی استعفیٰ دیں۔

اشرف جلالی کی قیادت میں تحریک لبیک کے اس دھڑے کی کوشش تھی کہ وہ ڈی چوک تک جائے تاہم حکومت اسے پریڈگراؤنڈ ہی میں دھرنا دینے کا کہہ رہی تھی، اس کے بعد دھرنا دینے والوں نے نیشنل پریس کلب تک جانے دینے کا مطالبہ کردیا۔ اگرچہ حکومت ابتدا میں یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے سے انکاری رہی تاہم بعدازاں ریلی کو اجازت دیدی گئی، نتیجتاً مظاہرین ایکسپریس وے کے ذریعے جناح ایونیو تک پہنچے اور وہاں دس روز تک دھرنا دے کر واپس چلے گئے۔

اس کے بعد علامہ خادم رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک کے دوسرے دھڑے نے اسلام آباد کی طرف چڑھائی کا سفر شروع کردیا۔ تاہم اسلام آباد کی انتظامیہ نے پانچ نومبر کوانھیں تنبیہ کی کہ شہر میں عوامی مظاہرہ کرنے پر پابندی ہے، دوسری طرف خادم رضوی اپنے پیروکاروں کے ساتھ فیض آباد جاپہنچے، نتیجتاً اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والے مرکزی شاہراہ بند ہوگئی، میٹرو بس سروس بند کردی گئی۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کے دیگر راستوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ گیا اور جڑواں شہروں کے باسیوں بالخصوص مریضوں، طلبہ وطالبات اور ملازمین کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ 15 نومبر کو دھرنا دینے والوںنے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ عدالت ان کے مطالبات منظور کرائے۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں وزیر قانون زاہد حامد نے ایک بل پیش کیا جس کے تحت 'الیکشن ایکٹ 2017' میں کی جانے والی متنازع ترامیم کو ختم کرکے اس کی پرانی شکل میں بحال کر دیا گیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے زاہد حامد نے یقین دلایا کہ وہ سچے عاشق رسول ﷺ ہیں اور ختم نبوت سے متعلق شقوں کو تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا دینے والوں اور ان کے قائدین کو دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا لیکن اس کی تعمیل نہیں ہوئی۔ 17نومبر کو حکومت نے مظاہرین کو 'آخری تنبیہ' جاری کی کہ وہ دھرنا ختم کر دیں۔

18نومبر کو ایک بار پھر وفاقی وزیر داخلہ نے امید ظاہر کی کہ وہ 24 گھنٹوں میں مظاہرین کو منتشر کر کے دھرنا ختم کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔20 نومبر کووفاقی وزراء اور مظاہرین کے وفد کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔

21نومبرکو عدالت عظمیٰ نے مذہبی جماعتوں کے دھرنے سے متعلق از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ کے علاوہ اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے سربراہوں سے اس کے بارے میں جواب طلب کیا۔22نومبر کو ایک غیرملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں 'تحریک لبیک' کے رہنما خادم حسین رضوی نے کہا کہ انھیں یقین ہے پاکستانی فوج انھیں ہٹانے کے لیے نہیں آئے گی کیونکہ وہ 'انھی کا موقف مضبوط کرنے کے لیے بیٹھے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کبھی ناموسِ رسالت اور ختم نبوت پر پیچھے ہٹی ہے نہ قیامت تک ہٹے گی'۔ اسی شب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ 'بہتر ہوگا کہ اس معاملے کا پرامن طریقے سے حل نکل آئے، تاہم حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی فوج اس پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ملکی سلامتی کے معاملے پر سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے'۔24 نومبر کواسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو دھرنا ختم کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جس کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ نے دھرنے کے مظاہرین کو 25 نومبر کی صبح سات بجے تک دھرنا ختم کرنے کی 'آخری تنبیہ' جاری کی۔


جب اس تنبیہ کے باوجود دھرنا والے اپنی جگہ سے نہ ہٹے تو سات بجے کے بعد آپریشن شروع کردیاگیا۔ پنجاب پولیس اور فرنٹیر کانسٹیبلری کے اہلکار مظاہرین پر ٹوٹ پڑے،لاٹھی چارج، پتھراؤ، آنسوگیس نے حالات نہایت کشیدہ کردئیے۔ پولیس مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سٹیج پر موجود قائدین کے بالکل قریب پہنچ گئی ، اُ س وقت ایسے لگا جیسے اگلے ایک گھنٹے کے اندر وہ تحریک لبیک کے رہنماؤں کو گرفتارکرکے دھرنا ختم کرادے گی تاہم پھر حالات نے بالکل نئی صورت اختیار کرلی۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں بتایاکہ آرمی چیف نے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'پرتشدد کارروائیاں کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں ہیں'۔ اس کے نتیجے حکومت پر مزید دباؤ بڑھ گیا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وزیرداخلہ احسن اقبال آپریشن کے بعد اس بات ہی سے مُکر گئے کہ آپریشن ان کی اجازت سے کیاگیاتھا۔

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے پہلے سرکاری ٹی وی پر آ کر پولیس کارروائی کا دفاع کرنا اور بعد میں اس سے علیحدگی اختیار کرنے سے یقیناً پولیس اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے اچھا اثر نہیں لیا ہوگا۔

دوسری طرف تحریک لبیک کے کارکنان نے ملک بھر میں شاہراہیں بند کردیں۔اس کے بعد حکومت اور دھرنا دینے والوں کے درمیان حتمی مذاکرات ہوئے اور فریقین ستائیس نومبر کو ایک معاہدہ پر پہنچ گئے، جس کے مطابق وزیرقانون زاہد حامد مستعفی ہوگئے، معاہدے میں کہاگیا کہ راجہ ظفرالحق کمیٹی کی انکوائری رپورٹ تیس دن کے اندر منظرعام پر لائی جائے گی اور جو اشخاص بھی ذمہ دار قرارپائیں ان پر ملکی قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی،گرفتار مظاہرین کو تین دنوں میں رہاکیاجائے گا۔

ان کے خلاف درج مقدمات اور نظربندیاں ختم کی جائیں گی، تحریک لبیک کے دھرنا کے خلاف آپریشن کی بابت بھی ایک انکوائری بورڈ تشکیل دیاجائے گا جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت اور انتظامیہ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا تعین اور تیس روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کرے گا۔

دھرنا کے دوران جن سرکاری اور غیرسرکاری املاک کو نقصان پہنچا، اس کا ازالہ وفاقی اور صوبائی حکومت کرے گی، معاہدے میں لکھاگیا کہ ' یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاویدباجوہ صاحب اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا'۔ جس کے بعد دھرنادینے والے فیض آباد انٹرچینج خالی کرکے گھروں کی راہ لینے پر راضی ہوگئے۔

ادھر معاہدہ طے پایا اور لوگ گھروں کی طرف عازم سفر ہوئے ہی تھے کہ تحریک لبیک کے دوسرے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر آصف جلالی( جو اکتوبر میں اسلام آباد میں دھرنا دے چکے تھے) نے کہا 'ہمارا اسلام آباد دھرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں، ان کی تنظیم الگ اور ہماری تنظیم بالکل الگ ہے، معاہدہ خادم حسین رضوی سے ہواہے ہم سے نہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران میں ڈاکٹر جلالی نے کہا کہ انہوں نے جو معاہدہ کیا، اس پر ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، زاہد حامد استعفٰی دے سکتے ہیں تو وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کیوں نہیں دے سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت اورخادم رضوی کی جماعت الگ، الگ ہے، تحریک لبیک والے اسلام آباد میں لاشیں گرا کر آگئے، انہوں نے اپنے جاں بحق کارکنوں کا بھی نہیں پوچھا۔ ڈاکٹرآصف جلالی کا مزید کہنا تھا کہ وہ وزیر قانون پنجاب کے استعفے تک دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔یادرہے کہ ڈاکٹرجلالی اپنے پیروکاروں سمیت لاہور کے مشہورمقام چئیرنگ کراس میں دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے تھے۔خادم رضوی کے دھرنا ختم ہونے کے بعد اشرف جلالی نے لاہور میں اپنا دھرنا جاری رکھا، چند روز بعد انھوں نے بھی پنجاب حکومت سے ایک معاہدہ کیا اور گھروں کو لوٹ گئے۔

اشرف جلالی کے الزامات کے جواب میں مولاناخادم رضوی نے ایک دوسرے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کی اور کہا کہ کچھ لوگ محض گھر بیٹھ کر خود کو 'تحریک لبیک' کا سربراہ قرار دے رہے ہیں، ہمت ہے تو سامنے آکر مقابلہ کریں، میدان لگا ہے۔' جب آصف جلالی اور ان کی جماعت اسلام آباد میں احتجاج کر رہی تھی، اُس وقت تو انہوں نے رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا تو پھر اب کیوں کر رہے ہیں؟آصف جلالی کے برعکس ہم نے اپنا مؤقف نہیں بدلا، پہلے دن سے زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کیا، جیسے ہی وہ ملا، ہم واپس آگئے اور دھرنا ختم کر دیا۔

اگر ہم فسادی قسم کے لوگ ہوتے تو شہادتوں کے بعد وہیں لاشیں لے کر بیٹھ جاتے اور مزید مطالبات کرتے۔انھوں نے کہا' فیض آباد دھرنے کے بعد لوگ اگلے الیکشن سے قبل ہماری جماعت میں شامل ہونے کیلئے بڑی تعداد میں رابطہ کر رہے ہیں'۔ یادرہے کہ حکومتی وزرا شروع دن سے دعویٰ کر رہے تھے کہ اس دھرنے کے سیاسی مقاصد ہیں، بعض تجزیہ نگار بھی اس دعویٰ سے متفق نظرآتے تھے اور وہ مولانا خادم رضوی کے ایک خطاب کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں انھوں نے اپنے پیروکاروں سے کہاتھا:''آپ محنت کریں اور حضور کا دین 2018 میں تخت پر لائیں، کام ہو جائے گا۔ یہ باتیں طاقت سے ہوں گی۔ میں تعداد کا قائل نہیں ہوں لیکن ان کو تعداد دکھانی ہوگی'۔

اس خطاب کے چند مہینوں بعد ان کی پارٹی نے لاہور اور پھر پشاور کے ایک ضمنی انتخاب میں غیرمعمولی طور پر بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کئے، اس الیکشن میں حافظ محمد سعید کی جماعت ' ملی مسلم لیگ' نے بھی جماعت اسلامی جیسی بڑی دینی جماعت سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے ماہرین کو حیران کردیاتھا۔اب یہ تجزیہ نگار غور کرنے پر مجبور ہیںکہ انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل جماعتوں کی ایسی متاثرکن کارکردگی عام انتخابات2018 میں کیا رنگ دکھائے گی؟ بعض کا خیال ہے کہ وہ کوئی قابل قدر کارکردگی نہیں دکھاسکیں گی البتہ ان کی مدد سے قومی بیانیہ سخت ہوجائے گا۔
Load Next Story