عہدِ جدید اور ادب کا زوال

فی الوقت ہماری تفتیش اور گفتگو کا دائرہ معاصر اردو ادب تک ہے۔


مبین مرزا January 07, 2018
معاصر ادب ہمیں فرد کی سطح سے سماج کے دائرے تک احساس کی متنوع کیفیات سے مملو نظر آتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

گزشتہ سے پیوستہ

کوئی تہذیب اور کسی عہد کا ادب نہ تو isolation میں تخلیق ہوتا ہے اور نہ ہی اُس کے معنی کا تعین اس طور سے کیا جاسکتا ہے۔ چناںچہ ہماری تہذیب بھی معاصر تہذیبوں کے تناظر میں اپنی معنوی قدر اجاگر کرتی ہے اور اسی طرح اُس کا ادب بھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کا بہت اور نمایاں طور پر اثر قبول کرنے اور اپنے منفرد نشانات سے دست بردار ہونے کے باوجود ہماری تہذیب و معاشرت انسانی المیے کی وہ صورتِ حال پیش نہیں کرتی جو ہمیں مغرب میں نظر آتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم تہذیبی سطح پر ڈھلان کے اسی سفر میں ہیں جس سے کل مغرب گزر کر اس نشیب میں اترا ہے جہاں وہ آج نظر آرہا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں کم سے کم آج یہ ماننا ہی نہیں حقیقتاً جاننا بھی چاہیے کہ ہم اپنے تہذیبی و معاشرتی رویوں میں اب تک اُس point of no return تک بہرحال نہیں پہنچے ہیں جہاں ہماری لابدی تقدیر کل وہی ہو جو مغرب کی ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ تہذیبی و معاشرتی زوال کے اس مرحلے سے ہم کو دور رکھنے میں ایک بہت اہم کردار ہمارے ادب نے ادا کیا ہے۔ جی ہاں، یقیناً ہمارے ادب نے۔

یوں اگر ضروری ہو تو مثالیں 1857 کے بعد کے تہذیبی انحطاط اور اس کے سیاق و سباق میں تخلیق ہونے والے ادب سے شروع کی جاسکتی ہیں اور ہم اپنی اس گفتگو کو مرحلہ وار عہدِحاضر تک لاسکتے ہیں، لیکن فی الوقت ہماری تفتیش اور گفتگو کا دائرہ معاصر اردو ادب تک ہے، سو ہم اسی تناظر میں حوالوں اور مثالوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔

ویسے تو ادب کو دہائیوں میں بانٹ کر دیکھنا اوّل تو ممکن نہیں ہوتا اور پھر یہ بھی ہے کہ ایک آدھ عصری اور قدری نکتے کی تفتیش و جستجو کے لیے تو یہ تقسیم کسی قدر کام آسکتی ہے مگر ادب کے من حیث الکل داعیے کی تفہیم میں یہ قطعاً مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم محض ایک قدری نوعیت کے سوال کو لے کر بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں اور اکیسویں صدی کی ان اوّلین دہائیوں میں اردو ادب پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا اس عرصۂ زمان میں ادب نے ہماری روح کی آواز کو پانے اور معرضِ بیان میں لانے کی کوشش کی ہے؟ اب اگر اس سوال کا جواب ہمارے پاس اثبات میں ہے تو ساتھ ہی ہمیں یہ دیکھنا چاہیے آیا وہ اس کوشش میں کامیاب رہا ہے یا ناکام؟

اتنی بات تو ادب کے عام طالبِ علم کو بھی معلوم ہوگی کہ افراد یا معاشرے کی آوازیں براہِ راست ادب میں اظہار نہیں پاتیں- ان کو براہِ راست ہم صحافت اور سیاست کے شعبوں میں سنتے ہیں۔ ادب تو ان آوازوں کی پیدا کردہ گونج یا ان کے زیرِاثر محسوس کیے جانے والے ارتعاشات کو ریکارڈ کرتا ہے۔

اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں تو معاصر ادب ہمیں فرد کی سطح سے سماج کے دائرے تک احساس کی متنوع کیفیات سے مملو نظر آتا ہے- اور یہ صورتِ حال کسی ایک صنفِ اظہار سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ادب کی تمام تر مروّجہ اصناف یعنی افسانہ، ناول، غزل، نظم، قطعہ، یادنگاری، سفرنامہ یہاں تک کہ ہائیکو وغیرہ میں بھی ہم حقیقتِ عصر کی لرزش کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تخلیقی اصناف کے ساتھ اگر ہم معاصر اردو تنقید پر ایک نگاہ ڈالیں تو اپنے یہاں زبوں حالی کا شکار سب سے زیادہ یہی شعبہ نظر آتا ہے، لیکن اس شعبے سے اپنی ساری شکایت اور عدم اطمینان کے باوجود اپنے عہد کے فکری، ذہنی، اخلاقی اور ادبی سوالوں کی پوری گونج ہم معاصر تنقید میں بھی سن سکتے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ ادب کے باب میں ناموں کی کھتونی کا کام پروفیسروں اور طویل یا مختصر تاریخِ ادب لکھنے والے نقادوں کو آتا ہے، ہمیں نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زیب بھی انھی کو دیتا ہے۔ سو یہاں نام شماری سے حذر کرتے ہوئے ہم صرف اتنی بات کہیں گے کہ ادب کے زوال کا یہ مسئلہ جس کی طرف ڈاکٹر جمیل جالبی یہ کہتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں کہ آج ادب عصری انسانی احساس سے عاری اور سچائی کے جوہر سے خالی ہے اور یہ کہ وہ کوڑے کا ڈھیر ہے یا پھر انتظار حسین کو بھی ادب کا کاروبار ماند نظر آتا ہے، اس لیے کہ اب ادیب کی دل چسپی ادب سے زیادہ ادب کے ذریعے حاصل ہونے والی چیزوں میں ہے اور یہ کہ ادب اسے جن عصری سوالوں اور مسائل پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے، وہ ان سے لاتعلق ہے۔

اسی طرح قرۃ العین حیدر نے ادب کے زوال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ہمارے یہاں اجتماعی تجزیے کا وجود ہی نہیں ہے۔ یہ سب لوگ ہمارے عہد کے مشاہیرِ ادب ہیں۔ ان کے کام اور خدمات سے انکار ممکن ہی نہیں۔ تاہم اس کے باوجود یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ جو کچھ یہ لوگ فرماتے ہیں، وہ باتیں یاسیت اور اضمحلال کی رو میں تو کہی جاسکتی ہیں، لیکن انھیں حتمی صداقت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ ادب اپنی تفہیم کی ایک سطح پر اجتماعی تجربے اور اس کے تجزیے کی صورت بھی وضع کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ادب ہمیں اس تجربے کی معنویت کا فہم بھی عطا کرتا ہے اور اس میں شرکت کا موقع بھی۔

مندرجہ بالا مشاہیر اور انھی جیسی رائے رکھنے والے دوسروں لوگوں کے افکار و خیالات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حوالے اور اسباب اگرچہ الگ ہیں اور مسئلے کو دیکھنے کا زاویہ بھی الگ ہے، لیکن نتیجہ سب کے یہاں مشترک طور پر ایک ہی نظر آتا ہے، یہ کہ ادب پر زوال آیا ہوا ہے۔

اسے محض اتفاق سمجھنا چاہیے یا یہ ایک علاحدہ اور توجہ طلب موضوع ہے کہ جن نام ور ادیبوں کے حوالے سطورِ ما قبل میں پیش کیے گئے وہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اُس نسل سے جس نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز چالیس کی دہائی میں کسی وقت کیا تھا۔ گویا پچپن ساٹھ برس کے کام کے بعد اب یہ لوگ ادب اور اس کی صورتِ حال سے مایوسی یا چلیے یوں کہہ لیجیے کہ عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ کچھ ایسے ہی احساسات کا اظہار بعد کے زمانے میں ادب کے میدان میں اُترنے والی نسلوں کے کچھ اور لوگ بھی کرتے نظر آتے ہیں، جنھیں اپنے شعری مجموعے اور افسانوں یا مضامین کی کتابیں شائع کرنے میں اس لیے تأمل ہے کہ پڑھنے پڑھانے کا ذوق اب کہاں رہ گیا ہے۔ گویا انقباض کی کیفیت اس وقت ہماری ادبی فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔

اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں پڑھنے لکھنے کے رُجحان میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ نتیجتاً کتابوں کی اشاعت متأثر ہوئی، ادبی رسائل کا حلقہ سمٹا، وہ جو سنجیدہ ادبی ہفتہ واری نشستیں ہوا کرتی تھیں ان میں بھی کمی نظر آتی ہے۔ یہ باتیں درست ہیں، لیکن اس نئی دنیا اور نئے عہد میں یہ سب کچھ صرف ہمارے یہاں نہیں ہوا ہے۔ ہم تو تیسری دنیا کے باسی ہیں، اگر جہانِ اوّل کو دیکھیں تو وہاں بھی کچھ اس کے مماثل ہی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ گو تناسب کا فرق ضرور محسوس ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ عہدِجدید اور اُس کے رُجحانات نے وہاں ادب اور دوسری سنجیدہ فکری و ذہنی سرگرمیوں کو مطلق متأثر ہی نہ کیا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ تبدیلی جو جدیدعہد کے اثرات اور رُجحانات کے زیرِاثر آئی ہے، یہ ایک گلوبل فینومینا ہے، اور اسے عالمی سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

عہدِجدید میں تغیرات کی رفتار ہوش رُبا ہے۔ انسانی زندگی کا تجربہ بہت کچھ بدل چکا ہے، اس کے احساس کی دنیا متغیر ہوچکی ہے، زندگی اور اس کے حقائق کا شعور تبدیل ہوچکا ہے، اپنے داخل اور خارج دونوں حوالوں سے انسان کے فکرونظر میں تبدیلی آگئی ہے۔ اس و جہ سے زندگی کی معنویت اور اس کا فہم بھی بدل گیا ہے۔ عہدِجدید کے انسان کے لیے ہر شے، ہر سرگرمی اور ہر رشتے کی اہمیت کا تعین اس کے مادّی اور افادی پہلو سے ہوتا ہے۔ زندگی کے بیش تر معاملات اب اسی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں اور ہر احساس اسی میزان پر پورا اترنے کی صورت میں بار پاتا اور اہمیت حاصل کرتا ہے۔ آخر اس دور کا انسان اس منزل تک کیوں کر آگیا یا خود نہیں آیا، بلکہ اُسے التزاماً یہاں پہنچایا گیا ہے؟ یہ اپنی جگہ ایک بالکل الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، جس پر ہم کسی اور موقع پر بات کریں گے۔ فی الحال ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور اس صورتِ حال کے اپنے ادب اور ادیبوں پر اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس امر کا اعتراف دیانت داری سے کیا جانا چاہیے کہ فکرواحساس کے اس تغیر اور معاشرے پر اس کے ضرررساں اثرات کو سب سے پہلے اور شدت کے ساتھ ہمارے ادب کی بزرگ نسل نے محسوس کیا ہے۔ بعد کے زمانے کی نسلوں پر اس کے اثرات بہ تدریج کم رہے ہیں۔ اس کی اہم ترین و جہ یہ ہے کہ جتنی پرانی نسل کے لوگ ہیں، ان کے تجربے، مشاہدے اور حافظے میں اتنا ہی پرانا زمانہ، اس کی اقدار اور امی جمی کا احساس محفوظ ہے، جب کہ بعد والوں کو زمانے کے تغیر کے تناسب سے بدلی اور بدلتی ہوئی دنیا میسر آئی ہے اور اسی لحاظ سے ان کا ردِعمل ظاہر ہوا ہے۔

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح چالیس اور پچاس کی دہائی کے ادیبوں سے مختلف رویے کا اظہار ساٹھ اور ستر کی دہائی کے لکھنے والے کرتے ہیں، کچھ اسی طرح اسّی اور اس کے بعد کی نسل کا زمانی، تہذیبی اور فکری تجربہ اگلوں سے خاصا مختلف ہے اور اسی باعث عہدِجدید اور اس کی صورتِ حال کی طرف اُن کا رویہ بھی اگلوں سے مختلف ہے۔

خیر، اس وقت اپنے ادب کی نئی اور پرانی نسلوں کے طرزِاحساس کا جائزہ اور موازنہ مقصود نہیں، بلکہ غورطلب بات یہ ہے کہ دیکھا جائے، ہم عصر انسانی صورتِ حال میں ادب کی بابت جو ایک عام تأثر پھیل گیا یا کہ پھیلایا گیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے۔زمانے کے تغیر اور ادب کے فروغ میں کمی کا احساس اور اس کے اسباب اپنی جگہ درست، اور یہ بھی تسلیم کہ عہدِجدید اور اس کی صورتِ حال ایک ٹھوس سچائی ہے جو اپنی تمام تر بلاخیز قوتوں کے ساتھ ظہور کر رہی ہے۔ ہم اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کو جھٹلا کر اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے، وہ یہ کہ ہم اس نئے زمانے اور نئی دنیا کو وہ کرنے دیں جو یہ کر رہی ہے اور کرکے رہے گی اور ہم وہ کریں جو اپنی تہذیب اور اس کے نظامِ اقدار کو بچانے کے لیے ہم کرسکتے ہیں۔

ہماری تہذیب کیا ہے، اس کی بنیاد کس پر ہے اور ہمارا ادب اس کے مظاہر میں کیا درجہ رکھتا ہے؟ یہ جاننے کے بعد ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا عصری ادب کس حد تک ہمارے تہذیبی جوہر کی پاس داری کررہا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کسی بھی عہد کا ادب کماحقۂ یکساں قدروقیمت کا حامل نہیں ہوتا، لیکن من حیث المجموع اگر وہ اپنے تہذیبی حقائق کا نمائندہ ہے تو ہمیں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ تغیروتنزل کے زمانے میں بنیادی حقائق کا شعور اور اظہار ہی اصل جوہر کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسری اہم بات یہ کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں، اسے لاحاصل نہیں سمجھنا چاہیے۔ زوال و ادبار کے زمانے میں بے یقینی سب سے بڑھ کر بے سمتی کا سبب بنتی ہے۔ عہدِجدید اگر ہمارے تہذیبی وجود کو گھایل کرتے ہوئے گزر رہا ہے تو اس کے دیے ہوئے زخموں کو چاٹتے رہنا، ان کا علاج نہیں ہے۔ اس کے برعکس زخم چاٹنے سے ہم اپنی اذیتوں سے لذت کشی کے عادی ہوجائیں گے اور یہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر خودرحمی کی بدترین شکل ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس احساس کو فروغ دیا جائے کہ ہم نے نئے زمانے اور اس کی منہ زور تباہ کن قوتوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں اور نہ ہی ڈالیں گے۔ جہاں بھی ہمارے یہاں لائقِ قدر کام ہورہا ہے، ہمیں اس کی بھرپور پذیرائی کرنی چاہیے۔ منفی احساسات بھی زندگی کا حصہ ہیں، لیکن ہمیں تا دیر ان کے زیرِاثر نہیں رہنا چاہیے اور انھیں پھیلانے سے تو مکمل طور پر گریز کرنا چاہیے۔

مثبت رویوں کی پاس داری ضروری ہے تاکہ یقین و ثبات کے احساس کو فروغ حاصل ہو۔ ہمارا عصری ادب ہماری تہذیبی اقدار کا آئینہ دار اور ہمارے زندہ و فعال شعورواحساس کا ترجمان ہے۔ نئی نسل کے جو لوگ ادب و تہذیب کی بقا اور استحکام کے لیے متانت کے سا تھ کام کررہے ہیں، وہ بھی اسی طرح قابلِ قدر ہیں جیسے ان سے پچھلی نسلوں کے لوگ جنھوں نے اس تہذیب کی نقش گری، فروغ اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دور میں کام کیا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنے ادب و تہذیب کی طرف سے آج ہماری بے اعتنائی یا اس کی بے مایگی کے احساس کا فروغ نادانستگی میں ہمیں تہذیب دشمن قوتوں کا آلۂ کار بنا دے گا۔

اس لیے کہ آج کی مقتدر اقوام اور سیاسی قوتیں دراصل یہی چاہتی ہیں کہ اس عالمی گاؤں میں صرف وہ لوگ دل و دماغ سے کام لیں جو خود اُن کے ساتھ ہیں یا پھر ان کے آلۂ کار ہیں، باقی دنیا کی ساری آبادی کے لیے ذہنی سرگرمیوں کو لایعنی بنا دیا جائے۔ یہ کام دو طرح سے کیا جا رہا ہے- ایک رُخ سے آپ دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ سنجیدہ فکری اور ذہنی سرگرمیوں کو لایعنی بنا کر، اُن سے اعتبار اٹھا کر اور دوسرے رُخ سے انسانی زندگی میں تفریح کی ضرورت اور خواہش کو غیرحقیقی سطح تک اُجاگر کرکے- اور تفریح بھی وہ جو جمالیات و اخلاقیات کی نفی کرتی ہے اور ابتذال کو تفریح کا نعم البدل بناکر پیش کرتی ہے۔

چناںچہ اس صورتِ حال اور اس کے پس منظر میں کارفرما اصل ذہنیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے- اور خصوصاً اُن لوگوں کو جو ادب کے زوال کا راگ الاپ کر بے خبری میں دراصل تہذیب دشمن اور انسانیت کش قوتوں کا آلۂ کار بن رہے ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے تو نہ صرف خود اس مسئلے کو سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے واضح طور پر دوسروں کو بھی سمجھانا چاہیے۔ یہی نہیں کہ ہم اس شعور کو اُجاگر کرکے اطمینان سے بیٹھ رہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مفروضے کو کلیتاً رد کیا جائے اور اِس کے برعکس قومی سطح پر تہذیبی و سماجی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔

یہ کام اثباتی نوعیت کا ہوگا۔ ہمیں اپنی قدروں پر اور اُن کے لیے کام کرنے والے ادب اور ادیبوں پر اعتماد کا اظہار کرنا ہے۔ اس وقت ہماری تہذیب بے شک اضمحلال کے دور سے گزر رہی ہے، لیکن خدانخواستہ وہ ختم نہیں ہوئی۔ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنے تہذیبی شعور کو آج بھی بروئے کار دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم اسے توانائی بہم پہنچا کر نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں، بلکہ مستحکم بھی کرسکتے ہیں۔

یہ کام ادب سب سے بہتر انداز میں کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ دیکھا جائے تو انفرادی سطح پر اپنے اپنے انداز سے اس کی کوشش بھی ہورہی ہے۔ وہ اپنی جگہ خوش کن اور امید افزا ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسے اپنی تہذیبی اور سماجی ضرورت باور کرتے ہوئے اجتماعی شعور کا حصہ بنائیں، اور مل کر اس کے لیے کام کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں تہذیبی بقا اور استحکام کی منزل تک لے جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں