چیمپئنز ٹرافی فتح انٹرنیشنل کرکٹ بحالی نے سال یادگار بنا دیا
ہاکی اسکواش میں ناکامیوں کا سلسلہ تھم نہ سکا، اسنوکر، باکسنگ پاور لفٹنگ میں پاکستانیوں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے۔
KARACHI:
پاکستان کرکٹ کے لیے سال 2017کا آغاز خوشگوار نہیں رہا،آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز کے 5 میچز میں اکلوتی فتح ہاتھ آنے کے بعد کپتان اظہر علی کو تبدیل کرنے کے مطالبے نے زور پکڑا، فروری میں پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کا پہلا میچ ختم ہوتے ہی سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے طوفان برپا کردیا۔
آئی سی سی نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملنے والی معلومات پی سی بی کو دیں جن کی بنیاد پر اینٹی کرپشن یونٹ نے کارروائی کرتے ہوئے شرجیل خان اور خالد لطیف کو فوری طور پر معطل کرکے وطن واپس روانہ کردیا، محمد عرفان، شاہ زیب حسن اور ذوالفقار بابر کیخلاف بھی تحقیقات شروع ہوئیں لیکن تینوں ایونٹ میں شریک رہے، شرجیل خان اور خالد لطیف کو چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے ناصر جمشید کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے بکی یوسف سے دبئی میں ملاقات کرتے ہوئے فکسنگ کے لیے آمادگی ظاہر کی، بعد ازاں ذوالفقار بابر کلیئر قرار دیئے گئے۔
محمد عرفان نے بکی سے رابطے کی اطلاع پی سی بی کو نہ کرنے کا جرم تسلیم کیا،ان کو ایک سال معطلی کی سزا سنادی گئی،پی سی بی اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے شرجیل خان کو ڈھائی سال معطل سمیت 5سال پابندی کی سزا سنائی، خالد لطیف پر 5سال کے لیے کرکٹ کے دروازے بند ہوئے، تحقیقات میں عدم تعاون پر ناصر جمشید ایک سال کے لیے معطل ہوئے، شاہ زیب حسن کیس کی سماعت اب بھی جاری ہے۔
خوش آئند بات یہ رہی کہ سپاٹ فکسنگ کی اڑتی دھول میں منعقد ہونے والے پی ایس ایل میں صلاحیتوں کے پھول بھی کھلے، فخر زمان اور شاداب خان جیسے کرکٹرز نے شاندار کارکردگی سے خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کا اہل ثابت کیا،رومان رئیس اور فہیم اشرف کے کھیل میں بہت نکھار آیا،حسن علی نے دنیا بھر میں اپنے پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کیا،مارچ میں پاکستان ٹیم کے دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے ٹی ٹوئنٹی کپتان سرفراز احمد کو ون ڈے فارمیٹ میں بھی قیادت سونپ دی گئی،اظہر علی سکواڈ میں بھی جگہ نہ برقرار رکھ سکے۔
پاکستان ٹیم نے کیریبیئنز کیخلاف پہلی ٹیسٹ سیریز فتح کیساتھ سینئرز مصباح الحق اور یونس خان کو شاندارالوداعی تحفہ پیش کیا۔ عالمی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستان کو ورلڈ کپ 2019میں براہ راست رسائی کا یقین نہیں تھا،اگلے چیلنج چیمپئنز ٹرافی میں کنڈیشنز اور حریف سب سخت جان تھے، دنیا کی 8 بہترین ٹیمیں شریک جن میں گرین شرٹس سب سے آخر میں تھے،سرفراز احمد صرف ویسٹ انڈیز کیخلاف ایک سیریز کا تجربہ لئے میدان میں اتر رہے تھے،ٹیم میں کئی نوآموز کرکٹرز شامل اور ان میں سے چند تو ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلے تھے۔
دیگر ٹیموں میں بڑے نام دہشت کی علامت نظر آرہے تھے، تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے رائے تھی کہ پاکستان کی دال نہیں گلنے والی، پہلے ہی میچ میں بھارت کا سامنا ہوا تو یہ بات درست بھی محسوس ہوئی، گرین شرٹس کے بغیر لڑے ہارجانے پر شائقین کو سخت مایوسی ہوئی، خدشہ تھا کہ ناکامیوں کی دلدل سے نکلنا مشکل ہوگا اور گزشتہ چیمپئنز ٹرافی کی طرح اس بار بھی ابتدائی تینوں میچز میں شکست کے بعد وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھنا ہوگا لیکن پاکستانی سکواڈ نے ٹورنامنٹ میں واپسی کے ارادے باندھنے شروع کردیئے،درست فیصلوں کا آغاز ہوا، بھارتی بیٹسمینوں کے عتاب کا نشانہ بننے والے وہاب ریاض خوش قسمتی سے زخمی ہوگئے۔
انگلش کنڈیشنز کے لیے موزوں جنید خان کو جنوبی افریقہ کیخلاف صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل گیا،پیسر نے مایوس نہیں کیا،دیگر بولرز نے بھی عالمی نمبر ون پروٹیز کا خوف سوار کرنے کے بجائے جارحانہ بولنگ کرتے ہوئے فتح کا راستہ بنادیا،احمد شہزاد کی جگہ فخرزمان کو آزمایا گیا تو انہوں نے بھی گہرا تاثر چھوڑا، سری لنکا کیخلاف میچ کوارٹر فائنل بن چکا تھا،بولرز ایک بار پھر سرخرو ہوئے اور حریف کو 250سے کم سکور تک محدود کیا، ہدف کم اور آغاز اچھا ہونے کے باوجود بیٹنگ لڑکھڑائی تو سرفراز احمد اور محمد عامر نے حیران کن شراکت سے فتح کا مشن مکمل کردیا،اس کامیابی نے ٹیم میں نئی روح پھونک دی،سیمی فائنل میں فیورٹ انگلینڈ کو پاکستان نے مات دیدی۔
فائنل میں پاکستان نے میگاایونٹس میں بھارت کے ہاتھوں مات کھانے کی تاریخ بدل ڈالی، فخرزمان کی سنچری نے حریف بولرز کی حوصلے پست کئے تو دیگر بھی پیچھے نہ رہے،محمد عامر ایک عرصہ بعد بھرپور فارم میں نظر آئے اور یادگار سپیل میں ویرات کوہلی سمیت 3مہرے کھسکادیئے، باقی کام ایونٹ کے بہتر بولر حسن علی اور دیگر نے کرتے ہوئے 180رنز کے بھاری مارجن سے فتح کیساتھ بھارت میں صف ماتم بچھادی، ورلڈکپ 1992اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009کے بعد گزشتہ سال پہلی بار چیمپئنز ٹرافی حاصل کرکے گرین شرٹس نے پوری قوم کو خوشی سے نہال کردیا، فاتح کرکٹرز پر انعامات کی برسات ہوئی، مصباح الحق اور یونس خان کے بغیر پہلی ٹیسٹ سیریز میں قیادت سرفراز احمد کو سونپی گئی۔
سری لنکا نے دونوں میچز میں شکست دیکر طویل فارمیٹ میں پاکستان ٹیم کی کمزوریوں کو آشکار کیا، یہ پہلا موقع تھا کہ گرین کیپس یو اے ای میں کسی ٹیسٹ سیریز میں کسی ناکامی سے دوچار ہوئے،ون ڈے سیریز میں پاکستان نے آئی لینڈرز کو 5-0سے کلین سوئپ کیا، یواے ای میں دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز بھی جیتے، لاہور میں بھی مہمان ٹیم فتح سے محروم رہی،حسن علی اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون بولر کے طور پر ابھرے، ٹاپ 10میں موجود بابر اعظم نے بھی اپنی کارکردگی کا معیار برقرار رکھا،سال کے آخر میں انٹرنیشنل کرکٹ مقابلوں سے دورشاہد آفریدی اور سعید اجمل نے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے خود کو صرف لیگز تک محدود کرلیا،کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ٹی 10لیگ کا تجربہ کیا گیا،شارجہ میں ہونے والے اس ایونٹ میں سٹار پاکستانی کرکٹرز کی شمولیت پر انگلیاں بھی اٹھائی گئیں۔
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے اہم پیش رفت کی وجہ سے بھی 2017یادگار بن گیا، مارچ 2009میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کے بعد ملکی میدان ویران ہوئے تو صرف مئی 2015میں زمبابوے نے 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے اپنے کرکٹرز لاہور بھجوائے، دوسرا بڑا قدم گزشتہ سال ہی اٹھاتے ہوئے پی ایس ایل کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں کروایا گیا، ورلڈ الیون کی لاہور میں ہی میزبانی کی بات چلی تو ملکی سیاسی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیئے گئے۔
نجم سیٹھی کی بطور چیئرمین تقرری کا مرحلہ مکمل ہونے سے پی سی بی میں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن جلسے جلوس عروج پر ہونے کی وجہ سے سیریز پر توجہ دینا مشکل نظر آرہا تھا، بالآخر سکیورٹی اداروں نے کم وقت میں بہترین انتظامات کا چیلنج لیا اور آزمائش پر پورے اترتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی،7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز،آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز آفیشلز نے پاکستان کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور پاکستانیوں کی کرکٹ سے بے پناہ محبت سمیٹی، ورلڈالیون کیخلاف سیریز کیلیے مہم کے دوران ہی کولمبو میں ایشین کرکٹ کونسل اجلاس میں سری لنکن بورڈ کے حکام لاہور میں ایک میچ کھیلنے رضا مند ہوگئے تھے،کئی اہم کرکٹرز کے انکار کے باوجود ٹی ٹوئنٹی کیلئے سیریز کا آخری میچ کھیلنے کے لیے ٹیم لاہور بھیجی،یوں آئی لینڈرز نے میچ کھیل کر 2009 کی تلخ یادوں کو کھرچ ڈالا۔
پاک بھارت سیریز کی بحالی کا خواب پورا نہ ہوا، بھارتی کرکٹ بورڈ نے بگ تھری کی حمایت کے بدلے میں جن میچز کا وعدہ کیا تھا،ان میں سے ایک بھی نہیں کھیلا گیا،پی سی بی نے بالآخر ہرجانے کی وصولی کے لیے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں کیس دائر کردیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے،ڈومیسٹک کرکٹ میں اس بار بھی نئے تجربات کئے گئے،قائد اعظم ٹرافی میں پہلی بار پی ایس ایل کی طرز پر ڈرافٹ سسٹم متعارف کروایا گیا لیکن ناقص انگلش گیندوں اور غیر معیاری پچز نے مقابلوں کا مزا کرکرا کردیا،ویمن کرکٹ ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی،انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈکپ میں گرین شرٹس تمام ساتوں میچز میں شکست سے دوچار ہوئیں،ثناء میر کی کپتانی گئی، مینجمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔
ہاکی میں مایوسی کے سائے مزید پھیلتے چلے گئے، قومی ٹیم نے گرتے پڑتے آئندہ ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی ضرور کیا، اس کی وجہ بھی اچھی کارکردگی نہیں تھی بلکہ دوسری ٹیموں کی جانب سے جگہ خالی کیے جانے کے نتیجے میں موقع مل گیا، ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستانی ٹیم 10ٹیموں میں ساتویں نمبر پر آئی جبکہ ڈھاکہ میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں بھارت سے دو بار شکست کے بعد تیسری پوزیشن ہی ہاتھ آسکی، دورہ آسٹریلیا میں گرین شرٹس نے اپنی تاریخ کی بدترین کارکردگی دکھاتے ہوئے میزبان ٹیم سے ایک کے مقابلے میں 9گول سے شکست کھائی،پی ایچ ایف کی غیرمستقل مزاج پالیسیوں کے سبب ٹیم مینجمنٹ میں ردوبدل کا سلسلہ پورا سال جاری رہا،حنیف خان اور خواجہ جنید کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے فرحت خان کو ہیڈ کوچ بنایا گیا لیکن دو غیر ملکی دوروں کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے بھی استعفیٰ دینے میں ہی عافیت سمجھی۔
ہاکی کی طرح سکواش میں بھی ناکامیوں کی فہرست طویل ہوگئی، ورلڈ ٹیم چیمپئن شپ میں پاکستان نے 24 ٹیموں میں 19ویں پوزیشن حاصل کی، تاہم اسلام آباد میں انٹرنیشنل سکواش چیمپئن شپ کا انعقاد کرواکے فیڈیشن نے ایک اہم کامیابی ضرور حاصل کی۔سنوکر میں پاکستانی کھلاڑیوں نے متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا، محمد آصف اور بابر محمد سجاد نے کرغزستان میں ایشین 6 ریڈ بال چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا جبکہ نسیم اخترانڈر 18عالمی ایونٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے، حمزہ اکبر نے ایشین ٹائٹل جیتنے کے بعد پروفیشنل سرکٹ میں قسمت آزمائی شروع کی لیکن مالی مشکلات کے سبب صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھاسکے۔
باکسنگ میں محمد وسیم نے نمایاں کامیابیاں سمیٹیں اور پورا سال ناقابل شکست رہتے ہوئے اپنی کیٹیگری میں عالمی نمبر ون پوزیشن برقرار رکھی لیکن حکومت اور سپانسرز کی جانب سے کئے گئے وعدے پورے نہ کیے جانے پر خاصے برہم نظر آئے۔ انعام بٹ اور عنایت اللہ نے ورلڈ بیچ ریسلنگ چیمپئن شپ میں ایرانی پہلوان کو زیر کرکے طلائی تمغہ جیتا اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی کامیابیاں حاصل کیں۔
پاکستان نے اسلامک گیمز میں 12تمغے جیتے جن میں 3 سلور 9 برانزشامل تھے، سپیشل ونٹر اولمپکس گیمز میں3 گولڈ سمیت16 میڈلز پر قبضہ جمایا،ایشین انڈور گیمز میں 2 گولڈ سمیت کل 22 تمغے حاصل کئے، پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار اتھلیٹکس4 400xمیں سونے کا تمغہ جیتا، خواتین ریسلرز نے عالمی سطح پر پہلی بار شرکت کو 7 تمغوں کے ساتھ یاد گار بنایا، ساؤتھ ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں پاکستان نے 6 گولڈ سمیت 25میڈل جیتے،ایشین فیڈریشن ہاکی کپ میں پاکستان نے سلور میڈل اپنے نام کیا، رشنا خان نے غیر ملکی ہاکی لیگ کھیلنے والی پہلی خاتون کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا، ایشیا پیسفک پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی خواتین نے 15 گولڈ میڈل جیتے،ٹوئنکل سہیل، سیبل سہیل اور سنیہا غفور کی کارکردگی شاندار رہی،عائشہ زمان پاکستان کی پہلی سائیکلنگ کوچ بنیں۔
پاکستان کرکٹ کے لیے سال 2017کا آغاز خوشگوار نہیں رہا،آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز کے 5 میچز میں اکلوتی فتح ہاتھ آنے کے بعد کپتان اظہر علی کو تبدیل کرنے کے مطالبے نے زور پکڑا، فروری میں پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کا پہلا میچ ختم ہوتے ہی سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے طوفان برپا کردیا۔
آئی سی سی نے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملنے والی معلومات پی سی بی کو دیں جن کی بنیاد پر اینٹی کرپشن یونٹ نے کارروائی کرتے ہوئے شرجیل خان اور خالد لطیف کو فوری طور پر معطل کرکے وطن واپس روانہ کردیا، محمد عرفان، شاہ زیب حسن اور ذوالفقار بابر کیخلاف بھی تحقیقات شروع ہوئیں لیکن تینوں ایونٹ میں شریک رہے، شرجیل خان اور خالد لطیف کو چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے ناصر جمشید کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے بکی یوسف سے دبئی میں ملاقات کرتے ہوئے فکسنگ کے لیے آمادگی ظاہر کی، بعد ازاں ذوالفقار بابر کلیئر قرار دیئے گئے۔
محمد عرفان نے بکی سے رابطے کی اطلاع پی سی بی کو نہ کرنے کا جرم تسلیم کیا،ان کو ایک سال معطلی کی سزا سنادی گئی،پی سی بی اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے شرجیل خان کو ڈھائی سال معطل سمیت 5سال پابندی کی سزا سنائی، خالد لطیف پر 5سال کے لیے کرکٹ کے دروازے بند ہوئے، تحقیقات میں عدم تعاون پر ناصر جمشید ایک سال کے لیے معطل ہوئے، شاہ زیب حسن کیس کی سماعت اب بھی جاری ہے۔
خوش آئند بات یہ رہی کہ سپاٹ فکسنگ کی اڑتی دھول میں منعقد ہونے والے پی ایس ایل میں صلاحیتوں کے پھول بھی کھلے، فخر زمان اور شاداب خان جیسے کرکٹرز نے شاندار کارکردگی سے خود کو انٹرنیشنل کرکٹ کا اہل ثابت کیا،رومان رئیس اور فہیم اشرف کے کھیل میں بہت نکھار آیا،حسن علی نے دنیا بھر میں اپنے پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کیا،مارچ میں پاکستان ٹیم کے دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے ٹی ٹوئنٹی کپتان سرفراز احمد کو ون ڈے فارمیٹ میں بھی قیادت سونپ دی گئی،اظہر علی سکواڈ میں بھی جگہ نہ برقرار رکھ سکے۔
پاکستان ٹیم نے کیریبیئنز کیخلاف پہلی ٹیسٹ سیریز فتح کیساتھ سینئرز مصباح الحق اور یونس خان کو شاندارالوداعی تحفہ پیش کیا۔ عالمی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستان کو ورلڈ کپ 2019میں براہ راست رسائی کا یقین نہیں تھا،اگلے چیلنج چیمپئنز ٹرافی میں کنڈیشنز اور حریف سب سخت جان تھے، دنیا کی 8 بہترین ٹیمیں شریک جن میں گرین شرٹس سب سے آخر میں تھے،سرفراز احمد صرف ویسٹ انڈیز کیخلاف ایک سیریز کا تجربہ لئے میدان میں اتر رہے تھے،ٹیم میں کئی نوآموز کرکٹرز شامل اور ان میں سے چند تو ایک بھی انٹرنیشنل میچ نہیں کھیلے تھے۔
دیگر ٹیموں میں بڑے نام دہشت کی علامت نظر آرہے تھے، تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے رائے تھی کہ پاکستان کی دال نہیں گلنے والی، پہلے ہی میچ میں بھارت کا سامنا ہوا تو یہ بات درست بھی محسوس ہوئی، گرین شرٹس کے بغیر لڑے ہارجانے پر شائقین کو سخت مایوسی ہوئی، خدشہ تھا کہ ناکامیوں کی دلدل سے نکلنا مشکل ہوگا اور گزشتہ چیمپئنز ٹرافی کی طرح اس بار بھی ابتدائی تینوں میچز میں شکست کے بعد وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھنا ہوگا لیکن پاکستانی سکواڈ نے ٹورنامنٹ میں واپسی کے ارادے باندھنے شروع کردیئے،درست فیصلوں کا آغاز ہوا، بھارتی بیٹسمینوں کے عتاب کا نشانہ بننے والے وہاب ریاض خوش قسمتی سے زخمی ہوگئے۔
انگلش کنڈیشنز کے لیے موزوں جنید خان کو جنوبی افریقہ کیخلاف صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل گیا،پیسر نے مایوس نہیں کیا،دیگر بولرز نے بھی عالمی نمبر ون پروٹیز کا خوف سوار کرنے کے بجائے جارحانہ بولنگ کرتے ہوئے فتح کا راستہ بنادیا،احمد شہزاد کی جگہ فخرزمان کو آزمایا گیا تو انہوں نے بھی گہرا تاثر چھوڑا، سری لنکا کیخلاف میچ کوارٹر فائنل بن چکا تھا،بولرز ایک بار پھر سرخرو ہوئے اور حریف کو 250سے کم سکور تک محدود کیا، ہدف کم اور آغاز اچھا ہونے کے باوجود بیٹنگ لڑکھڑائی تو سرفراز احمد اور محمد عامر نے حیران کن شراکت سے فتح کا مشن مکمل کردیا،اس کامیابی نے ٹیم میں نئی روح پھونک دی،سیمی فائنل میں فیورٹ انگلینڈ کو پاکستان نے مات دیدی۔
فائنل میں پاکستان نے میگاایونٹس میں بھارت کے ہاتھوں مات کھانے کی تاریخ بدل ڈالی، فخرزمان کی سنچری نے حریف بولرز کی حوصلے پست کئے تو دیگر بھی پیچھے نہ رہے،محمد عامر ایک عرصہ بعد بھرپور فارم میں نظر آئے اور یادگار سپیل میں ویرات کوہلی سمیت 3مہرے کھسکادیئے، باقی کام ایونٹ کے بہتر بولر حسن علی اور دیگر نے کرتے ہوئے 180رنز کے بھاری مارجن سے فتح کیساتھ بھارت میں صف ماتم بچھادی، ورلڈکپ 1992اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009کے بعد گزشتہ سال پہلی بار چیمپئنز ٹرافی حاصل کرکے گرین شرٹس نے پوری قوم کو خوشی سے نہال کردیا، فاتح کرکٹرز پر انعامات کی برسات ہوئی، مصباح الحق اور یونس خان کے بغیر پہلی ٹیسٹ سیریز میں قیادت سرفراز احمد کو سونپی گئی۔
سری لنکا نے دونوں میچز میں شکست دیکر طویل فارمیٹ میں پاکستان ٹیم کی کمزوریوں کو آشکار کیا، یہ پہلا موقع تھا کہ گرین کیپس یو اے ای میں کسی ٹیسٹ سیریز میں کسی ناکامی سے دوچار ہوئے،ون ڈے سیریز میں پاکستان نے آئی لینڈرز کو 5-0سے کلین سوئپ کیا، یواے ای میں دونوں ٹی ٹوئنٹی میچز بھی جیتے، لاہور میں بھی مہمان ٹیم فتح سے محروم رہی،حسن علی اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون بولر کے طور پر ابھرے، ٹاپ 10میں موجود بابر اعظم نے بھی اپنی کارکردگی کا معیار برقرار رکھا،سال کے آخر میں انٹرنیشنل کرکٹ مقابلوں سے دورشاہد آفریدی اور سعید اجمل نے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے خود کو صرف لیگز تک محدود کرلیا،کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ٹی 10لیگ کا تجربہ کیا گیا،شارجہ میں ہونے والے اس ایونٹ میں سٹار پاکستانی کرکٹرز کی شمولیت پر انگلیاں بھی اٹھائی گئیں۔
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے اہم پیش رفت کی وجہ سے بھی 2017یادگار بن گیا، مارچ 2009میں سری لنکن ٹیم پر حملہ کے بعد ملکی میدان ویران ہوئے تو صرف مئی 2015میں زمبابوے نے 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے اپنے کرکٹرز لاہور بھجوائے، دوسرا بڑا قدم گزشتہ سال ہی اٹھاتے ہوئے پی ایس ایل کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں کروایا گیا، ورلڈ الیون کی لاہور میں ہی میزبانی کی بات چلی تو ملکی سیاسی صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیئے گئے۔
نجم سیٹھی کی بطور چیئرمین تقرری کا مرحلہ مکمل ہونے سے پی سی بی میں غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن جلسے جلوس عروج پر ہونے کی وجہ سے سیریز پر توجہ دینا مشکل نظر آرہا تھا، بالآخر سکیورٹی اداروں نے کم وقت میں بہترین انتظامات کا چیلنج لیا اور آزمائش پر پورے اترتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی،7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز،آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز آفیشلز نے پاکستان کی میزبانی کا لطف اٹھایا اور پاکستانیوں کی کرکٹ سے بے پناہ محبت سمیٹی، ورلڈالیون کیخلاف سیریز کیلیے مہم کے دوران ہی کولمبو میں ایشین کرکٹ کونسل اجلاس میں سری لنکن بورڈ کے حکام لاہور میں ایک میچ کھیلنے رضا مند ہوگئے تھے،کئی اہم کرکٹرز کے انکار کے باوجود ٹی ٹوئنٹی کیلئے سیریز کا آخری میچ کھیلنے کے لیے ٹیم لاہور بھیجی،یوں آئی لینڈرز نے میچ کھیل کر 2009 کی تلخ یادوں کو کھرچ ڈالا۔
پاک بھارت سیریز کی بحالی کا خواب پورا نہ ہوا، بھارتی کرکٹ بورڈ نے بگ تھری کی حمایت کے بدلے میں جن میچز کا وعدہ کیا تھا،ان میں سے ایک بھی نہیں کھیلا گیا،پی سی بی نے بالآخر ہرجانے کی وصولی کے لیے آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں کیس دائر کردیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے،ڈومیسٹک کرکٹ میں اس بار بھی نئے تجربات کئے گئے،قائد اعظم ٹرافی میں پہلی بار پی ایس ایل کی طرز پر ڈرافٹ سسٹم متعارف کروایا گیا لیکن ناقص انگلش گیندوں اور غیر معیاری پچز نے مقابلوں کا مزا کرکرا کردیا،ویمن کرکٹ ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی،انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈکپ میں گرین شرٹس تمام ساتوں میچز میں شکست سے دوچار ہوئیں،ثناء میر کی کپتانی گئی، مینجمنٹ میں اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔
ہاکی میں مایوسی کے سائے مزید پھیلتے چلے گئے، قومی ٹیم نے گرتے پڑتے آئندہ ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی ضرور کیا، اس کی وجہ بھی اچھی کارکردگی نہیں تھی بلکہ دوسری ٹیموں کی جانب سے جگہ خالی کیے جانے کے نتیجے میں موقع مل گیا، ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستانی ٹیم 10ٹیموں میں ساتویں نمبر پر آئی جبکہ ڈھاکہ میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں بھارت سے دو بار شکست کے بعد تیسری پوزیشن ہی ہاتھ آسکی، دورہ آسٹریلیا میں گرین شرٹس نے اپنی تاریخ کی بدترین کارکردگی دکھاتے ہوئے میزبان ٹیم سے ایک کے مقابلے میں 9گول سے شکست کھائی،پی ایچ ایف کی غیرمستقل مزاج پالیسیوں کے سبب ٹیم مینجمنٹ میں ردوبدل کا سلسلہ پورا سال جاری رہا،حنیف خان اور خواجہ جنید کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے فرحت خان کو ہیڈ کوچ بنایا گیا لیکن دو غیر ملکی دوروں کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بعد انھوں نے بھی استعفیٰ دینے میں ہی عافیت سمجھی۔
ہاکی کی طرح سکواش میں بھی ناکامیوں کی فہرست طویل ہوگئی، ورلڈ ٹیم چیمپئن شپ میں پاکستان نے 24 ٹیموں میں 19ویں پوزیشن حاصل کی، تاہم اسلام آباد میں انٹرنیشنل سکواش چیمپئن شپ کا انعقاد کرواکے فیڈیشن نے ایک اہم کامیابی ضرور حاصل کی۔سنوکر میں پاکستانی کھلاڑیوں نے متاثرکن کارکردگی کا مظاہرہ کیا، محمد آصف اور بابر محمد سجاد نے کرغزستان میں ایشین 6 ریڈ بال چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا جبکہ نسیم اخترانڈر 18عالمی ایونٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے، حمزہ اکبر نے ایشین ٹائٹل جیتنے کے بعد پروفیشنل سرکٹ میں قسمت آزمائی شروع کی لیکن مالی مشکلات کے سبب صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھاسکے۔
باکسنگ میں محمد وسیم نے نمایاں کامیابیاں سمیٹیں اور پورا سال ناقابل شکست رہتے ہوئے اپنی کیٹیگری میں عالمی نمبر ون پوزیشن برقرار رکھی لیکن حکومت اور سپانسرز کی جانب سے کئے گئے وعدے پورے نہ کیے جانے پر خاصے برہم نظر آئے۔ انعام بٹ اور عنایت اللہ نے ورلڈ بیچ ریسلنگ چیمپئن شپ میں ایرانی پہلوان کو زیر کرکے طلائی تمغہ جیتا اور دیگر بین الاقوامی مقابلوں میں بھی کامیابیاں حاصل کیں۔
پاکستان نے اسلامک گیمز میں 12تمغے جیتے جن میں 3 سلور 9 برانزشامل تھے، سپیشل ونٹر اولمپکس گیمز میں3 گولڈ سمیت16 میڈلز پر قبضہ جمایا،ایشین انڈور گیمز میں 2 گولڈ سمیت کل 22 تمغے حاصل کئے، پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار اتھلیٹکس4 400xمیں سونے کا تمغہ جیتا، خواتین ریسلرز نے عالمی سطح پر پہلی بار شرکت کو 7 تمغوں کے ساتھ یاد گار بنایا، ساؤتھ ایشین کراٹے چیمپئن شپ میں پاکستان نے 6 گولڈ سمیت 25میڈل جیتے،ایشین فیڈریشن ہاکی کپ میں پاکستان نے سلور میڈل اپنے نام کیا، رشنا خان نے غیر ملکی ہاکی لیگ کھیلنے والی پہلی خاتون کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا، ایشیا پیسفک پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی خواتین نے 15 گولڈ میڈل جیتے،ٹوئنکل سہیل، سیبل سہیل اور سنیہا غفور کی کارکردگی شاندار رہی،عائشہ زمان پاکستان کی پہلی سائیکلنگ کوچ بنیں۔