آئیے سال نامہ ترتیب دیں
ہمیں گزرے سال کے تمام واقعات اور تجربات اور مشاہدات کا احاطہ کرنا چاہیے۔
شاید آپ لوگوں کو یاد ہوگا۔ کِسی کالم یا مضمون میں ذِکر کیا تھا کہ ایک زمانے میں، میں کتابیں چوری کیا کرتا تھا۔ بچپن کے زمانے میں۔ جب جیب خرچ چار اور آٹھ آنے مِلتا تھا اور کوثر لائبریری سے مِلنے والی کتاب کا کرایہ بھی چار آنے ہوتا تھا۔
چوری کی ان گنت اقسام ہوتی ہیں۔ کتابیں چوری کرنے سے لے کر پیسے چُرانے تک۔ دِل کے چوروں سے لے کر کام چوروں تک۔ کِسی بھی چوری کو نہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور نہ اچھا کہا جاتا ہے۔ ہر معاشرے میں، معاشرے کے ہر طبقے میں ہر طرح کی چوری کو بُرا اور منفی مانا اور گِردانا جاتا ہے۔ ماسوائے ایک چوری کے۔
عُمرچور لوگ ہر جگہ تعریف و تحسین کے کلمات سے نوازے جاتے ہیں اور ہر مقام پر ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر عُمر چور خواتین ہر محفل میں سراہی جاتی ہیں۔ عُمر چوری، وہ واحد چوری ہے جِس کے مرتکب سراُٹھاکر فخر و شان سے زندگی گزارتے ہیں۔ یہ مقام اور مرتبہ دِل کے چوروں کو بھی میسّر نہیں آتا کہ اکثر اوقات دِل کے چور، دِل لگی میں اپنا ہی دِل ہار بیٹھتے ہیں اور پھر تمام عُمر پریشان حال پھِرتے ہیں۔
ہر چور کے دِل میں چور ہوتا ہے، کیوںکہ اُسے کِسی نہ کِسی شکل میں عِلم ہوتا ہے کہ کبھی نہ کبھی اُس کی چوری پکڑی ضرور جائے گی۔ آج نہیں تو کل۔ یہاں نہیں تو وہاں۔ یہ خوف، یہ خدشہ ہر طرح کے چوروں کے ذہنوں میں ہمہ وقت رہتا ہے، لیکن عُمرچور خواتین و حضرات اِس خوف اور خدشے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ بظاہر اُن کا چہرہ اور بدن اُن کی حقیقی جِسمانی عُمر کی عکّاسی نہیں بھی کرتا، تب بھی ہر وقت اُن کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ سامنے والے اُن کی اِس چوری کو کہیں پکڑ نہ لیں۔
ایسے لوگ عام طور پر اپنی عُمر چُھپاتے ہیں۔ اور اپنی تاریخ پیدائش کو اکثر مخفی رکھتے ہیں اور ہر اُس بات، اُس کام ، اُس جگہ، اُس موقع سے کنّی کتراتے ہیں، جس پر اُنہیں ذرا سا بھی شُبہ ہو کہ اُس بات اُس کام کی وجہ سے یا اُس جگہ یا اُس موقع پر اُنہیں لامحالہ سچّی بات کہنی اور بتانی پڑجائے گی۔
سچّی بات کہنے اور سُننے اور برداشت کرنے کی قیمت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ ہم سب اپنی خامیوں، کمیوں اور کم زوریوں پر، پردہ ڈال رکھنے کے عادی ہوتے ہیں، کیوںکہ ہمیں بچپن سے جو تربیت دی جاتی ہے، اُس کا اہم جُز یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی بھی اپنی کم زوریوں کو کِسی کے سامنے نہ لاؤ۔ اِس ڈر سے ہم خود بھی اپنی کم زوریوں کا سامنا نہیں کرپاتے اور اُن کو اپنے سامنے لا کر اُن کو دور کرنے اور اُن کا مقابلہ کرنے کی بجائے، اُنہیں اپنے لاشعور کے اسٹور میں Dump کرتے رہتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ پھر اُن کے ڈھیر تلے دبے ہمارے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔
اور ہم اپنی کمیوں، کجیوں اور خامیوں کے غلام بن جاتے ہیں، جو ہمیں بہت عزیز اور پیاری لگنے لگتی ہیں۔ اپنی کم زوریوں کا اعتراف کرنا دِل گردے کا کام ہوتا ہے۔ اپنی کم زوریوں کو قبول کرکے، اُن کو گلے لگا کر، آہستہ آہستہ اُن سے پیچھا چھُڑانا بڑی ہمّت، بڑے حوصلے کا متقاضی ہوتا ہے۔
لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم وقتاً فوقتاً اپنے لاشعور کے اسٹور کی صفائی کرتے رہیں۔ روزانہ ممکن نہ ہو تو ہر ہفتے۔ ہر ہفتے نہ سہی، ہر مہینے، ہر ماہ بھی مشکل ہو تو کم از کم سال میں ایک بار اور ایسا کرنے کے لیے سب سے بہترین دِن ہماری سال گرہ کا دِن ہوتا ہے یا سال کا آخری دِن ہوتا ہے۔ جب ہماری عُمر کا ایک سال اور ختم ہوتا ہے اور نیا سال ہمارے استقبال کے لیے ہماری زندگی کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
ایسے موقع پر ہمیں سال نامہ ترتیب دینا چاہیے۔ گزرے سال کے تمام واقعات اور تجربات اور مشاہدات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ اپنی غلطیوں، اپنی کوتاہیوں، اپنی کم زوریوں اپنی کجیوں، اپنی کمیوں، اپنی خامیوں، اپنی بے پرواہیوں، اپنی نادانیوں، اپنی بے وقوفیوں کی گٹّھری کو کھینچ تان کے اپنے اندر سے باہر لاکر اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور ہر سال کے اختتام پر کم از کم کِسی ایک کمی کو اپنے وجود کا خون پینے سے روک دینا چاہیے۔ کسی ایک کم زوری کو اپنی شخصیت سے نکال کر باہر پھینکنا چاہیے۔ کِسی ایک غلطی کا اعتراف کرکے اُس کے بوجھ کو سر سے اُتار دینا چاہیے۔ کِسی ایک خامی کو چھان بین کرکے دور کرلینا چاہیے۔ کِسی ایک نادانی پر دِل کھول کر ہنس لینا چاہیے۔ کِسی ایک بے وقوفی کی تلافی کرلینا چاہیے۔ کِسی ایک کوتاہی پر اپنے آپ کو معاف کردینا چاہیے۔
ہر سال کے اختتام پر یا اپنی عُمر کے ایک سال کے گزرنے پر اگر ہم خوداحتسابی کے عمل سے خود کو گزارنے کی عادت اپنالیں گے تو ہم نئے سال شعور ی کوششوں میں لگ جائیں گے کہ کِس طرح ہم اپنی کتابوں کی چوری کی عادت کو Rectify کرسکتے ہیں۔ کِسی طرح دِلوں کی چوری میں احتیاط برت سکتے ہیں۔ کِسی طرح اپنے دِل کے چور کو پکڑ کر اُسے Side line کرسکتے ہیں۔
ہمارا ہر سال نامہ اگر اِس نہج، اِس انداز میں ترتیب پانے لگے تو ہمارا بوجھ ازخود کم ہونے لگے گا اور جب بوجھ کم ہوگا تو ہماری آگے بڑھنے کی رفتار خودبخود بڑھنے لگے گی۔ ماہانہ یا سالانہ خوداحتسابی کا عمل فرد کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ معاشرے اور قوم اور مُلک کے لیے بھی مثبت نتائج کا باعث بنتا ہے۔ بشرطیکہ ہم سب اپنے آپ سے یہ وعدہ لے لیں کہ ہم کو کم از کم ہر سال کے اختتام پر یا اپنی سال گرہ کے دِن، کم از کم اُس ایک دِن ذرّہ برابر جھوٹ نہیں بولنا ہے۔ نہ اپنے آپ سے، نہ کِسی اور سے۔ پوری دیانت داری اور سچاّئی سے اپنے آپ کو اپنے سامنے ٹانگ دینا ہے اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو چیرپھاڑ دینا ہے۔ اپنے آپ کے بخیے ادھیڑ دینے ہیں اور اپنے اندر سے ہی اپنی ایک نئی ذات، نئی شخصیت ، نئی نفسیات کا پیکر تراشنا ہے۔
اپنے ہاتھوں اپنا ہی پوسٹ مارٹم کرنا اور وہ بھی ہر سال کرنا، دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اور وہ بھی اُس دِن کرنا جو ہمارا جنم دِن ہو، یا نئے سال کا پہلا دِن ہو، یا رواں سال کا آخری دِن ہو۔ کتنا تکلیف دہ عمل ہے۔ نیا سال ہو یا سال گرہ، ہر شخص خوشی اور مسّرت میں ڈوبا ہوتا ہے۔ خوشی اور مسرّت کی جستجو کررہا ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اپنی ذات کے بُتوں کو توڑ کر کِسی نئی صورت کو اُبھارنا، کِسی کے لیے بھی آسان نہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہم سب کے عِلم میں ہے کہ زندگی میں کِسی بھی طرح کی کام یابی، آسانی سے نہیں حاصل ہوتی، مگر ایک دوسری حقیقت جِس سے ہم واقف ہونے کے باوجود نظریں چُراتے ہیں اور اس سے عدم توجہی برتتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اپنے سروں پر منوں ٹنوں خامیوں، کجیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کا ڈھیر اُٹھا کر ہم کبھی بھی زندگی کے کِسی بھی میدان میں کام یابی نہیں حاصل کرسکتے۔
چار دِن بھی گھر میں جھاڑو پونچھا نہ ہو تو چاروں طرف مٹی کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ کر ہماری طبیعت اوبھ جاتی ہے۔ میلے کپڑوں اور گندے برتنوں کا انبار جمع ہوتا رہے تو ہمارا جی مالش کرنے لگتا ہے، لیکن ہم 24 گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دِن، مہینے کے 30 دِن اور سال کے 365 دِنوں تک اپنے اپنے جھوٹ، اپنے اپنے دِل کے چوروں اور اپنی اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے جھاڑ جھنکار کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمیں کچھ پتا نہیں چلتا کہ سال گزرے کے بعد بھی ہم زندگی میں دو قدم آگے بڑھنا تو درکنار، چار قدم اور پیچھے ہوگئے ہیں۔
یاد رکھیے لاشعور میں جمع کچرا، ہمارے شعور کی توانائی سلب کرلیتا ہے۔ ہماری توجہ، ہمارے ارتکاز کو دُھندلا دیتا ہے۔ ہمارے فیصلے اور دُرست وقت پر درست فیصلے کی صلاحیت کو مُرجھادیتا ہے۔ ہمارے Vision اور ہماری Wisdom اور ہماری Imagination کی قوّت اور روشنی کو ملیا میٹ کردیتا ہے اور ہم ہر سال کے خاتمے پر حالات کے اور بگڑے اور خراب ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے دوسروں کی غلطیوں اور کم زوریوں کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔
انفرادی سطح پر بھی ہم بدحال رہتے ہیں اور اجتماعی اور معاشرتی سطح پر بھی ہر سال کا اختتام ہمیں نڈھال کرتا چلا جاتا ہے۔ ہماری چوریاں، ہمارے جھوٹ، ہماری غلطیاں، ہماری کجیاں، ہماری بے وقوفیاں، ہمیں انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی ہر سطح پر ذہنی اور نفسیاتی مریض بنارہی ہیں۔ ہماری برداشت ختم ہوچکی ہے۔ غصّے اور نفرت سے ہماری آنکھوں میں لالی اور ہونٹوں پر گالی گھول دی ہے۔
حرص، ہوس اور لالچ نے حلال اور حرام کا فرق مِٹا دیا ہے۔ جذباتیت اور جلدبازی کے کیکڑوں نے صبروشکر کی نرم ملائم گھاس اجاڑ دی ہے اور ہر سال نامے کی آخری تاریخ کو ترتیب و تدوین دی جانے والی سابق سال کی تاریخ میں انفرادی اور قومی زوال اور پراگندگی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے سیلاب کی داستان رقم ہورہی ہے۔
ہم سب اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ رُک کر، ٹھہر کر آئینہ دیکھنا تو بھول چکے ہیں۔ یہ محاورہ تو ہم سب نے پڑھا اور سُنا ہی ہوگا۔
It's Better To be Late than Never ''کبھی نہ ہونے سے دیر سے ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔ دیر آید درست آید۔'' آئینے رواں سال کے آخری دِن، نئے سال کے پہلے دِن عزم نو کے ساتھ کُدال اُٹھائیں اور اپنے اوپر جمے بے حسِی کے Shell کو توڑ ڈالیں۔ اپنا احتساب خود کریں۔ اپنی خامیاں خود دور کریں۔ اپنے جھوٹوں، اپنی چوریوں کا خود اعتراف کریں۔
اپنی اِصلاح آپ کے Goal کو آج کے سال نامے کے ساتھ مربوط کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔ سچّی خوشیوں سے بھرپور زندگی۔ نئی حقیقی اور سچّی زندگی کی بنیاد رکھیں۔ اور اپنی ذات، اپنے معاشرے، اپنی قوم، اپنے مُلک کو ایک نیا، پائندہ اور مستحکم آغاز دیں۔ جو آج بھی ہم نے ایسا نہ کیا تو اِس سال کی طرح اگلا سال بھی ایسا ہی گزر جائے گا اور اگلا سال نامہ، ہمارا اعمال نامہ آج سے زیادہ بھاری، آج سے زیادہ تکلیف دہ، آج سے زیادہ دشوار ثابت ہوگا۔
ایک کتاب ایک گھنٹے میں ختم ہوجاتی تھی۔ تین کتابوں سے کم پر دِل بھرتا نہیں تھا، تو ایک کتاب رجسٹر پر لِکھواکر اور دو عدد انٹی میں دبا کر آجایا کرتا تھا۔ اگلے دِن خاموشی سے وہ واپس ریک میں رکھ کر، دوسری دو نئی کتابیں اِسی طرح لے آتا تھا۔
چوری کی ان گنت اقسام ہوتی ہیں۔ کتابیں چوری کرنے سے لے کر پیسے چُرانے تک۔ دِل کے چوروں سے لے کر کام چوروں تک۔ کِسی بھی چوری کو نہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور نہ اچھا کہا جاتا ہے۔ ہر معاشرے میں، معاشرے کے ہر طبقے میں ہر طرح کی چوری کو بُرا اور منفی مانا اور گِردانا جاتا ہے۔ ماسوائے ایک چوری کے۔
عُمرچور لوگ ہر جگہ تعریف و تحسین کے کلمات سے نوازے جاتے ہیں اور ہر مقام پر ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ خاص طور پر عُمر چور خواتین ہر محفل میں سراہی جاتی ہیں۔ عُمر چوری، وہ واحد چوری ہے جِس کے مرتکب سراُٹھاکر فخر و شان سے زندگی گزارتے ہیں۔ یہ مقام اور مرتبہ دِل کے چوروں کو بھی میسّر نہیں آتا کہ اکثر اوقات دِل کے چور، دِل لگی میں اپنا ہی دِل ہار بیٹھتے ہیں اور پھر تمام عُمر پریشان حال پھِرتے ہیں۔
ہر چور کے دِل میں چور ہوتا ہے، کیوںکہ اُسے کِسی نہ کِسی شکل میں عِلم ہوتا ہے کہ کبھی نہ کبھی اُس کی چوری پکڑی ضرور جائے گی۔ آج نہیں تو کل۔ یہاں نہیں تو وہاں۔ یہ خوف، یہ خدشہ ہر طرح کے چوروں کے ذہنوں میں ہمہ وقت رہتا ہے، لیکن عُمرچور خواتین و حضرات اِس خوف اور خدشے کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ بظاہر اُن کا چہرہ اور بدن اُن کی حقیقی جِسمانی عُمر کی عکّاسی نہیں بھی کرتا، تب بھی ہر وقت اُن کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ سامنے والے اُن کی اِس چوری کو کہیں پکڑ نہ لیں۔
ایسے لوگ عام طور پر اپنی عُمر چُھپاتے ہیں۔ اور اپنی تاریخ پیدائش کو اکثر مخفی رکھتے ہیں اور ہر اُس بات، اُس کام ، اُس جگہ، اُس موقع سے کنّی کتراتے ہیں، جس پر اُنہیں ذرا سا بھی شُبہ ہو کہ اُس بات اُس کام کی وجہ سے یا اُس جگہ یا اُس موقع پر اُنہیں لامحالہ سچّی بات کہنی اور بتانی پڑجائے گی۔
سچّی بات کہنے اور سُننے اور برداشت کرنے کی قیمت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ ہم سب اپنی خامیوں، کمیوں اور کم زوریوں پر، پردہ ڈال رکھنے کے عادی ہوتے ہیں، کیوںکہ ہمیں بچپن سے جو تربیت دی جاتی ہے، اُس کا اہم جُز یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی بھی اپنی کم زوریوں کو کِسی کے سامنے نہ لاؤ۔ اِس ڈر سے ہم خود بھی اپنی کم زوریوں کا سامنا نہیں کرپاتے اور اُن کو اپنے سامنے لا کر اُن کو دور کرنے اور اُن کا مقابلہ کرنے کی بجائے، اُنہیں اپنے لاشعور کے اسٹور میں Dump کرتے رہتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ پھر اُن کے ڈھیر تلے دبے ہمارے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔
اور ہم اپنی کمیوں، کجیوں اور خامیوں کے غلام بن جاتے ہیں، جو ہمیں بہت عزیز اور پیاری لگنے لگتی ہیں۔ اپنی کم زوریوں کا اعتراف کرنا دِل گردے کا کام ہوتا ہے۔ اپنی کم زوریوں کو قبول کرکے، اُن کو گلے لگا کر، آہستہ آہستہ اُن سے پیچھا چھُڑانا بڑی ہمّت، بڑے حوصلے کا متقاضی ہوتا ہے۔
لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم وقتاً فوقتاً اپنے لاشعور کے اسٹور کی صفائی کرتے رہیں۔ روزانہ ممکن نہ ہو تو ہر ہفتے۔ ہر ہفتے نہ سہی، ہر مہینے، ہر ماہ بھی مشکل ہو تو کم از کم سال میں ایک بار اور ایسا کرنے کے لیے سب سے بہترین دِن ہماری سال گرہ کا دِن ہوتا ہے یا سال کا آخری دِن ہوتا ہے۔ جب ہماری عُمر کا ایک سال اور ختم ہوتا ہے اور نیا سال ہمارے استقبال کے لیے ہماری زندگی کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
ایسے موقع پر ہمیں سال نامہ ترتیب دینا چاہیے۔ گزرے سال کے تمام واقعات اور تجربات اور مشاہدات کا احاطہ کرنا چاہیے۔ اپنی غلطیوں، اپنی کوتاہیوں، اپنی کم زوریوں اپنی کجیوں، اپنی کمیوں، اپنی خامیوں، اپنی بے پرواہیوں، اپنی نادانیوں، اپنی بے وقوفیوں کی گٹّھری کو کھینچ تان کے اپنے اندر سے باہر لاکر اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور ہر سال کے اختتام پر کم از کم کِسی ایک کمی کو اپنے وجود کا خون پینے سے روک دینا چاہیے۔ کسی ایک کم زوری کو اپنی شخصیت سے نکال کر باہر پھینکنا چاہیے۔ کِسی ایک غلطی کا اعتراف کرکے اُس کے بوجھ کو سر سے اُتار دینا چاہیے۔ کِسی ایک خامی کو چھان بین کرکے دور کرلینا چاہیے۔ کِسی ایک نادانی پر دِل کھول کر ہنس لینا چاہیے۔ کِسی ایک بے وقوفی کی تلافی کرلینا چاہیے۔ کِسی ایک کوتاہی پر اپنے آپ کو معاف کردینا چاہیے۔
ہر سال کے اختتام پر یا اپنی عُمر کے ایک سال کے گزرنے پر اگر ہم خوداحتسابی کے عمل سے خود کو گزارنے کی عادت اپنالیں گے تو ہم نئے سال شعور ی کوششوں میں لگ جائیں گے کہ کِس طرح ہم اپنی کتابوں کی چوری کی عادت کو Rectify کرسکتے ہیں۔ کِسی طرح دِلوں کی چوری میں احتیاط برت سکتے ہیں۔ کِسی طرح اپنے دِل کے چور کو پکڑ کر اُسے Side line کرسکتے ہیں۔
ہمارا ہر سال نامہ اگر اِس نہج، اِس انداز میں ترتیب پانے لگے تو ہمارا بوجھ ازخود کم ہونے لگے گا اور جب بوجھ کم ہوگا تو ہماری آگے بڑھنے کی رفتار خودبخود بڑھنے لگے گی۔ ماہانہ یا سالانہ خوداحتسابی کا عمل فرد کے لیے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔ معاشرے اور قوم اور مُلک کے لیے بھی مثبت نتائج کا باعث بنتا ہے۔ بشرطیکہ ہم سب اپنے آپ سے یہ وعدہ لے لیں کہ ہم کو کم از کم ہر سال کے اختتام پر یا اپنی سال گرہ کے دِن، کم از کم اُس ایک دِن ذرّہ برابر جھوٹ نہیں بولنا ہے۔ نہ اپنے آپ سے، نہ کِسی اور سے۔ پوری دیانت داری اور سچاّئی سے اپنے آپ کو اپنے سامنے ٹانگ دینا ہے اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو چیرپھاڑ دینا ہے۔ اپنے آپ کے بخیے ادھیڑ دینے ہیں اور اپنے اندر سے ہی اپنی ایک نئی ذات، نئی شخصیت ، نئی نفسیات کا پیکر تراشنا ہے۔
اپنے ہاتھوں اپنا ہی پوسٹ مارٹم کرنا اور وہ بھی ہر سال کرنا، دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اور وہ بھی اُس دِن کرنا جو ہمارا جنم دِن ہو، یا نئے سال کا پہلا دِن ہو، یا رواں سال کا آخری دِن ہو۔ کتنا تکلیف دہ عمل ہے۔ نیا سال ہو یا سال گرہ، ہر شخص خوشی اور مسّرت میں ڈوبا ہوتا ہے۔ خوشی اور مسرّت کی جستجو کررہا ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اپنی ذات کے بُتوں کو توڑ کر کِسی نئی صورت کو اُبھارنا، کِسی کے لیے بھی آسان نہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہم سب کے عِلم میں ہے کہ زندگی میں کِسی بھی طرح کی کام یابی، آسانی سے نہیں حاصل ہوتی، مگر ایک دوسری حقیقت جِس سے ہم واقف ہونے کے باوجود نظریں چُراتے ہیں اور اس سے عدم توجہی برتتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اپنے سروں پر منوں ٹنوں خامیوں، کجیوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کا ڈھیر اُٹھا کر ہم کبھی بھی زندگی کے کِسی بھی میدان میں کام یابی نہیں حاصل کرسکتے۔
چار دِن بھی گھر میں جھاڑو پونچھا نہ ہو تو چاروں طرف مٹی کوڑے کے ڈھیر کو دیکھ کر ہماری طبیعت اوبھ جاتی ہے۔ میلے کپڑوں اور گندے برتنوں کا انبار جمع ہوتا رہے تو ہمارا جی مالش کرنے لگتا ہے، لیکن ہم 24 گھنٹے، ہفتے کے ساتوں دِن، مہینے کے 30 دِن اور سال کے 365 دِنوں تک اپنے اپنے جھوٹ، اپنے اپنے دِل کے چوروں اور اپنی اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کے جھاڑ جھنکار کے ساتھ رہتے ہیں اور ہمیں کچھ پتا نہیں چلتا کہ سال گزرے کے بعد بھی ہم زندگی میں دو قدم آگے بڑھنا تو درکنار، چار قدم اور پیچھے ہوگئے ہیں۔
یاد رکھیے لاشعور میں جمع کچرا، ہمارے شعور کی توانائی سلب کرلیتا ہے۔ ہماری توجہ، ہمارے ارتکاز کو دُھندلا دیتا ہے۔ ہمارے فیصلے اور دُرست وقت پر درست فیصلے کی صلاحیت کو مُرجھادیتا ہے۔ ہمارے Vision اور ہماری Wisdom اور ہماری Imagination کی قوّت اور روشنی کو ملیا میٹ کردیتا ہے اور ہم ہر سال کے خاتمے پر حالات کے اور بگڑے اور خراب ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے دوسروں کی غلطیوں اور کم زوریوں کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔
انفرادی سطح پر بھی ہم بدحال رہتے ہیں اور اجتماعی اور معاشرتی سطح پر بھی ہر سال کا اختتام ہمیں نڈھال کرتا چلا جاتا ہے۔ ہماری چوریاں، ہمارے جھوٹ، ہماری غلطیاں، ہماری کجیاں، ہماری بے وقوفیاں، ہمیں انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی ہر سطح پر ذہنی اور نفسیاتی مریض بنارہی ہیں۔ ہماری برداشت ختم ہوچکی ہے۔ غصّے اور نفرت سے ہماری آنکھوں میں لالی اور ہونٹوں پر گالی گھول دی ہے۔
حرص، ہوس اور لالچ نے حلال اور حرام کا فرق مِٹا دیا ہے۔ جذباتیت اور جلدبازی کے کیکڑوں نے صبروشکر کی نرم ملائم گھاس اجاڑ دی ہے اور ہر سال نامے کی آخری تاریخ کو ترتیب و تدوین دی جانے والی سابق سال کی تاریخ میں انفرادی اور قومی زوال اور پراگندگی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے سیلاب کی داستان رقم ہورہی ہے۔
ہم سب اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ رُک کر، ٹھہر کر آئینہ دیکھنا تو بھول چکے ہیں۔ یہ محاورہ تو ہم سب نے پڑھا اور سُنا ہی ہوگا۔
It's Better To be Late than Never ''کبھی نہ ہونے سے دیر سے ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔ دیر آید درست آید۔'' آئینے رواں سال کے آخری دِن، نئے سال کے پہلے دِن عزم نو کے ساتھ کُدال اُٹھائیں اور اپنے اوپر جمے بے حسِی کے Shell کو توڑ ڈالیں۔ اپنا احتساب خود کریں۔ اپنی خامیاں خود دور کریں۔ اپنے جھوٹوں، اپنی چوریوں کا خود اعتراف کریں۔
اپنی اِصلاح آپ کے Goal کو آج کے سال نامے کے ساتھ مربوط کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔ سچّی خوشیوں سے بھرپور زندگی۔ نئی حقیقی اور سچّی زندگی کی بنیاد رکھیں۔ اور اپنی ذات، اپنے معاشرے، اپنی قوم، اپنے مُلک کو ایک نیا، پائندہ اور مستحکم آغاز دیں۔ جو آج بھی ہم نے ایسا نہ کیا تو اِس سال کی طرح اگلا سال بھی ایسا ہی گزر جائے گا اور اگلا سال نامہ، ہمارا اعمال نامہ آج سے زیادہ بھاری، آج سے زیادہ تکلیف دہ، آج سے زیادہ دشوار ثابت ہوگا۔