اردو کے گلشن میں ’’میڈیائی اُلوؤں‘‘ کا بسیرا

درست زبان کی ترویج و اشاعت بھلے واجب قرض نہ ہو، مگر ملک اور زبان سے محبت کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا فرض ضرورہے


خرم علی راؤ January 10, 2018
درست زبان کی ترویج و اشاعت بھلے واجب قرض نہ ہو، مگر ملک اور زبان سے محبت کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا فرض ضرورہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

KARACHI: برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی ہے
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا

یوں تو اس شعر کے تحت بہت سارے موضوعات پر کلام کیا جا سکتا ہے مگر زیر نظر تحریر میں گلشن میں وارد شدہ ایک نسبتاً نئے الو کا تذکرہ ہے، اور وہ ہے ہمارا پیارا راج دلارا ''اردو الیکٹرونک میڈیا۔'' اس میڈیا کےلیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ فتح تو کرلیا مگر ان فتوحات کے نشے میں ہمارا میڈیا اردو زبان پر جس بری طرح ''مہربان'' ہوا ہے اس کے بارے میں بقول رئیس امروہوی مرحوم یہی کہا جاسکتا ہے:

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے


زبان، اور وہ بھی اردو جیسی خوبصورت و مرصع، مقفیٰ و مسجع، تمکین و تاثیر سے بھرپور الفاظ کا غیر محدود خزانہ رکھنے والی زبان کا جس طرح ہمارا میڈیا (جسے فروغِ اردو کا سب سے بڑا مجاہد ہونا چاہیے تھا) بیڑہ غرق کررہا ہے، وہ اس مصرعے کے ذریعے بخوبی بیان کیا جاسکتا ہے کہ:

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے


میں کوئی باریک قسم کی غلطیوں کا ذکر نہیں کر رہا۔ یہاں مٹھائی کو مٹھیائی اوربھگوڑے کو بگوڑے لکھا اور سنا تو میں نے خود ہے؛ اور یہ میں کسی ڈرامے یا تفریحی پروگرام کی بات نہیں کررہا بلکہ خبروں اور ٹکرِز (tickers) کا بتا رہا ہوں۔ یہ دیگ کے صرف دو دانے ہیں، پوری دیگ ابھی باقی ہے۔ یقین رکھیے کہ بحیثیت پروف ریڈر اور ترجمہ نگار میں اغلاط کی ایک فہرست چینلز کے ناموں کے ساتھ مرتب کر سکتا ہوں۔ کئی محترم ادباء اور فضلاء نے میڈیا کی اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی مگر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، مجال ہے جو ہمارے میڈیائی اردو دانوں کے کانوں پر کوئی جوں بھی رینگی ہو۔

الحمدللہ ہمارے چینلز ساری دنیا میں دیکھے جاتے ہیں اور زبان کسی بھی تہذیب و ثقافت کا سب سے بڑا مظہر ہوتی ہے۔ تو جب ہم اس طرح کی بگڑی ہوئی زبان، غلط تلفظ شدہ الفاظ و آواز، انگریزی الفاظ کی ناروا آمیزش اور لفظوں کے بے محل استعمال پر مبنی اپنی زبان دنیا کے سامنے پیش کریں گے تو ہماری تہذیب و ثقافت کا کیا تاثر مرتب ہوگا، یہ مجھ جیسا ایک اوسط عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے۔

یہ تو عوام کا حال ہے، اب تو خواص بھی صاحبِ علم، صاحب قلم کی جگہ اہلِ علم، اہلِ قلم، ناراضی کی جگہ ناراضگی، ہراساں کو حراساں لکھنے پڑھنے میں فرق نہیں کرتے۔ ایک کثیرالاشاعت روزنامے کی 18 نومبر کی اشاعت میں ایک ہی خبر میں ہراساں اور حراساں دونوں موجود ہیں، شاید اس لیے کہ قاری کو جو پسند آئے اسے منتخب کرلے۔ اس طرح کی اغلاط کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

بلاشبہ اردو الیکٹرونک میڈیا کا اثر ہمہ گیر ہے، یہ کم خواندہ بلکہ ناخواندہ افراد میں بھی شعوری و عقلی بیداری کے اعتبار سے بہتری پیدا کررہا ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی چینلز دیکھے جاتے ہیں اور عوام تک بہت سی ایسی چیزیں بہ آسانی پہنچ جاتی ہیں جن کا ہم کچھ عرصہ پہلے تک تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، پر زبان کے بگاڑ اور لکھنے بولنے میں بے احتیاطی سے زبان میں جو جھول پیدا ہو رہا ہے، اس پر نہ صرف غور و فکر کی بلکہ عملی اقدامات کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے پڑوس میں سنسکرت جیسی مردہ زبان کو زندہ کرنے اور اس کی ترویج و اشاعت میں ان کا پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا جتنی کوششیں کررہا ہے وہ سب کے سامنے ہیں۔ ان کی کو ششیں اس حد تک کامیاب بھی ہوتی نظرآرہی ہیں کہ ہمارے یہاں بھی ان کے ڈراموں، شوز اور فلموں کے اثر سے روز مرہ کی بول چال میں ہندی الفاظ کا استعمال نظر آنے اور سنائی دینے لگا ہے۔ پھر فروغِ اردو کےلیے ہمارے میڈیا کی جانب سے سنجیدہ کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟

اب حل کیا ہو؟

یہ کوئی مشکل نہیں۔ جس طرح پی ٹی وی پر ماہر اصلاحِ زبان اور چیف اسکرپٹ ایڈیٹر ہوا کرتے تھے اورشاید اب بھی ہوتے ہوں، اسی طرح ہر چینل جہاں دوسرے شعبہ جات میں دل کھول کر خرچے کررہا ہے اسی طرح اصلاح زبان و بیان کےلیے بھی ماہرین کو رکھا جاسکتا ہے۔ ان ماہرین کی تنخواہیں چینلز کے دوسرے اخراجات کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مثل ہوں گی، مگر اردو کی خدمت کے اعتبار سے نہ صرف یہ ایک بہترین کوشش و کاوش ہوگی بلکہ کسی حد تک قومی زبان کا کچھ قرض بھی اتارا جا سکے گا۔

یا پھر زبان و ادب کے ماہرین کی مشاورت سے کوئی اور بہتر لائحہ عمل بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے میڈیا کو کم از کم اردو کی حد تک تو فیض صاحب کے اس شعر کی عملی تفسیر ہونا چاہیے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے،
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

بلاشبہ یہ درست زبان کی ترویج و اشاعت کوئی واجب قرض تو نہیں مگر ملک اور زبان سے محبت کے اعتبار سے ایک چھوٹا موٹا فرض ضرور ہے۔ تو گزارش ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ سے باہر آئیے اور کچھ توجہ ادھر بھی دیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |