ٹرمپ اسٹرٹیجی سے نمٹنے کی آزمائش

پاک امریکا انسداد دہشت گردی تعاون کا فائدہ سب سے زیادہ امریکا اور عالمی برادری کو ہوا

پاک امریکا انسداد دہشت گردی تعاون کا فائدہ سب سے زیادہ امریکا اور عالمی برادری کو ہوا . فوٹو: فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کے خلاف رد عمل کے کئی داخلی اور خارجی چشمے پھوٹ پڑے ہیں۔ دنیا کی سپر پاور سے دھوپ چھاؤں جیسے پرانے اتحاد و ناگزیر تعلق اور آج ترک تعلق کے شدید عوامی اور سیاسی دباؤ نے حکمرانوں کو مشکل امتحان میں ڈالا ہے، سیاسی تجزیوں کے فکر انگیز بہاؤ کے ساتھ کئی سلگتے سوالات نے سیاست دوراں ، قومی نفسیات اور اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،اس لیے کہ پہلی بار پاک امریکا تعلقات کے ماضی اور حال کے تناظر میں ایک ''شو ڈاؤن'' ہوا ہے جس میں پاکستان اور ٹرمپ انتظامیہ کو پیدا شدہ صورتحال کا تاریخ ساز حل بھی تلاش کرنا ہے۔

جنگ یا دباؤ کسی مسئلہ کا حل نہیں، اور ڈرون حملوں کے اندیشے اور خطرات سے گریز کا تعلق بھی کثیر جہتی سفارتی کوششوں اور امن ومکالمہ کی غیر معمولی پیش رفت کی مرہون منت ہوگی، اور دوطرفہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ اور شاہد خاقان عباسی کی ٹیموں کو اس ناگہانی گرداب سے نکلنا ہے جو انکل سام کی جدید استعماریت کی شکل میں پاکستان پر نازل ہوئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے امداد اور سیکیورٹی معاونت روکنے کے فیصلہ کے آگے پیچھے کئی پیچیدگیوں کا صحرا کھلا ہوا ہے اور عجیب سا لگتا ہے کہ ایک سوختہ سامان افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کی خاطر جس میں پاکستان کا اپنا گھر کئی بار جلا، دہشتگردی اور ڈرون حملوں میں ہزاروں شہریوں، فوجی جوانوں، ایف سی، لیویز ، رینجرز اور پولیس اہلکاروں نے جانیں نچھاور کیں ، بھاری معاشی نقصان نے ملکی معیشت کی چولیں ہلادیں، جب کہ دو قریبی اتحادیوں میں ''غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم'' ایسی اندوہ ناک مقابلہ کی آج تشویشناک صورت پیدا ہوئی ہے۔

مگر یہ ضرور ہوا کہ امریکا کی روایتی طوطا چشمی ، گیدڑ بھبھکیوں ، دھمکیوں اور اقتصادی زک پہنچانے کی کوششیں کھل کر اہل پاکستان کے سامنے آئی ہیں، تزویراتی غلطیاں ہماری حکومتوں نے بھی کی ہیں، قرض کی مئے پینے کی لت بھی بری نکلی، لیکن امریکیوں نے تو پہاڑ جیسی لغزشوں اور دانستہ اقدامات سے عالمی امن کو خطرہ میں ڈالا اور دہشتگردی کی جنگ کے خلاف عملی شرکت اور فرنٹ لائن پاکستان کے اہم کردار کو نظر انداز کرکے خطے کو آتش فشاں بنا دیا ہے۔

اب یہ تاریخی مکافات عمل کا امریکی چیپٹر ہے جس سے پاکستان کی سیاسی و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو عالمی برادری کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ دنیا اس حقیقت سے واقف ہوجائے کہ امریکا کی جاری بے سمت جنگ کو نتیجہ خیز بنانے میں پاکستان کا کردار کلیدی سب سے اہم تھا مگر ٹرمپ انتظامیہ نے مسلسل ہزیمت کا ملبہ ناحق پاکستان پر گرانے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس کی سب سے بھاری قیمت پاکستان نے چکائی ہے۔


افغان جنگ پاکستان کی جنگ نہ تھی مگر خطے کے امن اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے نائن الیون کے عذاب اور جرم بے گناہی کی سزا پائی جس کا صلہ صرف بہتان طرازی،الزام تراشی اور گھناؤنے لہجے میں ملا ، قدر افزائی کے بجائے امریکا جنگ جوئی جیسی ہولناک صورتحال پیدا کرنے پر کمربستہ ہے ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹرجنرل میجر جنرل آصف غفور نے بجا طور پر کہا کہ عزت کی قیمت پر امداد نہیں چاہیے۔تاہم پاکستان کی فوجی امداد روکنے اور سیکیورٹی تعاون معطل کرنے کی کارروائیوں کے منفی اثرات پر خود امریکی میڈیا اور سیاسی و سفارتی حلقے لب کشائی پر مجبور ہوئے ہیں۔

پاکستان نے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے مرضی کی ڈیڈ لائنز، یکطرفہ اعلانات اور اہداف کی مستقل تبدیلی سے مشترکہ مفادات کے حصول میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ جمعہ کو دفتر خارجہ کے ترجمان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ زیادہ تر اپنے پیسے سے لڑی ہے، گزشتہ 15 سال میں اس جنگ پر پاکستان کے 120 ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں، آئندہ بھی خطے میں امن اور اپنے شہریوں کے جان و مال کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، دہشت گردی کے خلاف پاک امریکا اتحاد درحقیقت امریکی قومی سلامتی کے مقاصد پورے کرتا ہے۔

پاک امریکا انسداد دہشت گردی تعاون کا فائدہ سب سے زیادہ امریکا اور عالمی برادری کو ہوا، سیکیورٹی تعاون کے معاملات پر امریکا کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔ ترجمان نے امریکا کی جانب سے پاکستان کا نام واچ لسٹ میں ڈالنے کے امریکی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں، مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی مرتب کردہ فہرست دہرے معیار پر مبنی ہے، امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی امداد روکنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔

اس لیے صائب اسٹرٹیجی یہی ہے کہ ٹرمپ اسٹرٹیجی کا مقابلہ عقل وتدبر اور جوش کے بجائے ہوشمندی سے کیا جائے، پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوئی امریکی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک پاکستانی قوم متحد ہے جب کہ گھرکو ٹھیک کرنے کی ضرورت کا احساس دلانے کی کوشش کوئی جرم نہیں، داخلی استحکام اولین ترجیح ہونا چاہیے،اسی طرح امریکی گیم کی گہری اور درست تفہیم بھی ضروری ہے۔

 
Load Next Story