بلوچستان سیاسی بحران قومی مفاد کو ترجیح دی جائے
یہ بات صائب ہے کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے
ANKARA:
بلوچستان میں منحرف حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی و جمہوری طریقہ کار ہے لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک بھر میں بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور حالیہ عالمی منظرنامہ کے تناظر میں لایعنی افواہوں کا بازار گرم ہے جس کی فوری طور پر سرکوبی کی جانی چاہیے۔
دوسری تحریک عدم اعتماد سامنے آنے کے بعد بلوچستان میں وزرا اور مشران کے مستعفی ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے، اب تک 3 وزرا اور 3 مشیر مستعفی ہوچکے ہیں، وزرا کے مستعفی ہونے کے باوجود بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا فی الحال یہ واضح نہیں لیکن متعلقین کے مدنظر یہ بات لازمی رہنا چاہیے کہ ملک عدم استحکام کا مزید شکار نہ ہو۔
بدقسمتی سے آئندہ عام انتخابات سے محض پانچ ماہ قبل یہ صورتحال ایسے صوبے میں سامنے آرہی ہے جہاں امن وامان کی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے، ملک بھر میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ٹھوس آپریشنز کے ذریعے کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں بلوچستان میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جب کہ مختلف ملک دشمن عناصر خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں پیش پیش ہے، شرپسند پڑوسی ایسے ہی کمزور مواقع کی تلاش میں ہے جب کہ حالیہ امریکی صدر کی جانب سے بھی جو سچویشن بنادی گئی ہے اس میں ملک کو کئی مشکلات درپیش ہیں۔
ایسے میں لازم ہے کہ آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کیے جائیں اور موجودہ ملکی حالات اور سیاسی تناظر میں فیصلے لیے جائیں۔ تمام اداروں کو ملک کے دفاع سمیت تمام معاملات پر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے سابق صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی کا یہ بیان افواہوں کو دور کرنے میں معاون ہے کہ ہم سسٹم کو ڈی اسٹیبلائزڈ نہیں کررہے، وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، یہ ہمارا قانونی و آئینی استحقاق ہے۔
یہ بات صائب ہے کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے، جمہوری پروسیس اگر قانونی طریقے سے ہو رہا ہے تو اسے افواہوں کی نذر نہ کریں، فریقین کے پاس اگر تحریک کی مخالفت یا حمایت میں مناسب ووٹ ہیں تو انھیں قانونی طریقے سے یہ عمل مکمل کرنے دینا چاہیے۔ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جائے، ملک کی سالمیت سب سے بالاتر ہے۔
بلوچستان میں منحرف حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سیاسی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی و جمہوری طریقہ کار ہے لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک بھر میں بلوچستان کی سیاسی صورتحال اور حالیہ عالمی منظرنامہ کے تناظر میں لایعنی افواہوں کا بازار گرم ہے جس کی فوری طور پر سرکوبی کی جانی چاہیے۔
دوسری تحریک عدم اعتماد سامنے آنے کے بعد بلوچستان میں وزرا اور مشران کے مستعفی ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے، اب تک 3 وزرا اور 3 مشیر مستعفی ہوچکے ہیں، وزرا کے مستعفی ہونے کے باوجود بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا فی الحال یہ واضح نہیں لیکن متعلقین کے مدنظر یہ بات لازمی رہنا چاہیے کہ ملک عدم استحکام کا مزید شکار نہ ہو۔
بدقسمتی سے آئندہ عام انتخابات سے محض پانچ ماہ قبل یہ صورتحال ایسے صوبے میں سامنے آرہی ہے جہاں امن وامان کی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے، ملک بھر میں جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ٹھوس آپریشنز کے ذریعے کامیابیاں حاصل کی ہیں وہیں بلوچستان میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جب کہ مختلف ملک دشمن عناصر خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں پیش پیش ہے، شرپسند پڑوسی ایسے ہی کمزور مواقع کی تلاش میں ہے جب کہ حالیہ امریکی صدر کی جانب سے بھی جو سچویشن بنادی گئی ہے اس میں ملک کو کئی مشکلات درپیش ہیں۔
ایسے میں لازم ہے کہ آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کیے جائیں اور موجودہ ملکی حالات اور سیاسی تناظر میں فیصلے لیے جائیں۔ تمام اداروں کو ملک کے دفاع سمیت تمام معاملات پر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے سابق صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی کا یہ بیان افواہوں کو دور کرنے میں معاون ہے کہ ہم سسٹم کو ڈی اسٹیبلائزڈ نہیں کررہے، وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، یہ ہمارا قانونی و آئینی استحقاق ہے۔
یہ بات صائب ہے کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں ہے، جمہوری پروسیس اگر قانونی طریقے سے ہو رہا ہے تو اسے افواہوں کی نذر نہ کریں، فریقین کے پاس اگر تحریک کی مخالفت یا حمایت میں مناسب ووٹ ہیں تو انھیں قانونی طریقے سے یہ عمل مکمل کرنے دینا چاہیے۔ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دی جائے، ملک کی سالمیت سب سے بالاتر ہے۔