دامن میں جھانکنے کا اسے مشورہ نہ دو

جہاں تک خامیوں، خرابیوں کی بات ہے تو وہ تمام ریاستی اداروں میں ہیں اور ان سب قابل اصلاح ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انصاف کسی بھی سماج یا معاشرے کی بقا اور فلاح کا ضامن ہوتا ہے۔ انصاف ہی وہ واحد میڈیم ہے جس سے انسانی معاشرے میں سدھار، بہتری اور توازن برقرار رہتا ہے، جہاں کہیں بھی دوسروں کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے یا ظلم و زیادتی کی جاتی ہے تو انصاف یا قانون ہی وہ موثر اور طاقتور ذریعہ ہوتا ہے جو ظالموں کا ہاتھ روکتا اور مظلوموں کی دادرسی کرتا ہے۔ معاشرے سے انصاف اٹھ جائے تو وہ معاشرہ تنزل، انحطاط اور زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔

سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطحوں پر بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، جو ملک، معاشرے اور رعایا سبھی کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ہمارے وطن عزیز میں سب سے بڑا مسئلہ انصاف کا نہ ہونا ہے۔ اول تو یہاں حق سچ کا رواج ہی ناپید ہے، اختیار بااثر اور طاقتوروں کے پاس ہے، عام اور مظلوم کو اول تو انصاف سرے سے ملتا ہی نہیں اور اگر مل بھی جائے تو برسوں دہائیوں کے انتظار کے بعد بے پناہ سرمایہ خرچ کرنے کے بعد۔ مالک مکان اور کرائے دار کا معاملہ ہو، جائیداد کی تقسیم ہو، خاندانی جھگڑے ہوں یا میاں بیوی کی لڑائی اور علیحدگی کا معاملہ اس معاملے میں بھی عرصے لگ جاتے ہیں۔

وکیلوں کی فیس یا عدلیہ تک اپنی فریاد پہنچانے کے لیے لاکھوں، کروڑوں روپے فیس کا مطالبہ کیا جاتا ہے، لیکن انصاف نہیں ملتا۔ انصاف کے نام پر ملتی ہے تو تاریخ، تاریخ، تاریخ یا پیشی کے بعد پیشی۔ الغرض ہمارا عدالتی نظام سالہا سال کی فیسیں اور سالہا سال بلکہ عشروں کی مقدمہ بازی مانگتا ہے، جو غریب تو کیا امیروں تک کو انصاف کی تمنا میں بے گھر کردیتا ہے۔

کراچی میں حال ہی میں نوجوان شاہ زیب کے قتل کے مقدمے کی طرف نگاہ کریں، پانچ سال قبل ہونے والے اس قتل کا مقدمہ دولت کی طاقت اور قانون کی کمزوری کی عکاسی کرتا نظر آئے گا۔ یہ مقدمہ یا اس کا فیصلہ ہر عام انسان کے لیے حیرانی اور پریشانی کا باعث ہے اور اس مقدمے سے ہمارے معاشرے کا یہ المیہ کھل کر سامنے آگیا کہ بااثر فرد کتنے ہی بڑے جرم کرلیں، وہ ملزم سے مجرم بھی بن جائیں تب بھی ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔

شاہ زیب قتل کیس کے فیصلے نے ہمارے حکومتی اور عدالتی نظام دونوں کی کمزوری، خامی کو پوری دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ سیاسی فیصلے ہوں یا سماجی معاملات، گزشتہ ایک سال میں ہماری عدلیہ جتنی متنازعہ ہوئی ہے اتنی شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بڑی چشم کشا بات کہی ہے کہ جو جج دباؤ میں آجائے اسے پیرا لیگل اسٹاف میں بھی نہیں رکھنا چاہیے۔

انصاف کا پورا نظام دیکھیں اور لوگوں کے تجربات اور ان کے ساتھ ہونے والی قانونی زیادتیوں کی جان کاری کریں تو یہ دلخراش حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہمارا قانونی نظام مظلوموں اور حق داروں کو انصاف دینے کے لیے نہیں بلکہ ظالموں کا ساتھ دینے اور ان کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے کے لیے بنا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ملک کا ہر بے نوا شہری اس شعر کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے:

ممکن ہے ہم کلام ہو خود سے امیر شہر

دامن میں جھانکنے کا اسے مشورہ نہ دو


یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عدلیہ کا حقیقی کام انصاف کی فراہمی اور ممکنہ آئینی بحران کا تدارک کرنا ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں ہماری سوچ حقیقت سے دور ہے، ہم اسے ایک ایسی طاقت سمجھتے ہیں جو قومی دولت کی نگہبانی سے لے کر جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوؤں تک کی سرکوبی سمیت ہر کام کرسکتی ہے اور اس سوچ نے بد عنوانی کے خلاف لڑائی جیتنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنادیا ہے۔ بلاشبہ عدلیہ کو سیاست کی آلودہ دلدل میں دھکیلا جارہا ہے اور اس دلدل میں کسی کا دامن اجلا نہیں، یہاں اس پر لگنے والے داغ بمشکل ہی اترتے ہیں۔ بے رحم سیاست کی سنگلاخ وادی میں ساکھ، مرتبہ، عزت اور احترام کا ہر آبگینہ چٹخ جاتا ہے۔

افسوس ہمارے ہاں عدلیہ خطرناک حد تک پارلیمنٹ کے مقابلے پر کھڑی دکھائی دیتی ہیں، دنیا بھر میں جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں اور ہمارے ہاں تقریروں کے ذریعے بولتے ہیں، دنیا بھر کے رفاہی ادارے اپنے مشورے بند کمروں میں دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سرعام ملک چلانے کے طریقے بتائے جاتے ہیں اور وہ جو اپنے خاندان کے مسائل تک حل نہیں کرپاتے وہ حکومت کو گورننس کے گر سکھاتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے عہد میں سچے لوگوں کی تذلیل کی جارہی ہے اور غلط اور جھوٹے لوگوں کی تکریم ہورہی ہے۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست دانوں نے اپنا دیرینہ رول ادا کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کو الجھادیا ہے، اس اصطبل کی صفائی قانون کے جھاڑوں سے نہیں ہونی تھی اور پھر ہمارے پاکستان میں کسی ''صفائی'' کی کوئی مثال بھی تو نہیں ہے۔ ہاں صفایا ہوتا بار بار دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ ملک میں بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور اس کی جڑیں بڑی مضبوط اور بہت گہری ہیں۔

یہ منظم ہے، یہ زمین بینکنگ کے نظام، سمندر پار اکاؤنٹس، کمپنیوں، صوابدیدی اختیارات، خفیہ فنڈ، تعمیراتی ٹھیکوں اور رئیل اسٹیٹ کے تال میل کے ساتھ پھیلتی پھولتی ہے اور لوٹ مار کرنیوالے ان طاقتور ہاتھوں کو روکنے کے لیے موثر قانون موجود نہیں ہے۔ بدعنوانی کی بہت سی تہیں ہمارے ملک میں ہیں۔ اس کے لیے نظام میں بہت سے رخنے موجود ہیں، اس کی روک تھام میں بہت سی خامیاں آڑے آتی ہیں، ایک سراب سے گزرنے کے بعد دوسرا سراب ہماری نگاہوں کو جکڑلیتا ہے۔ افراد پر توجہ ہے لیکن اصل معاملہ نگاہوں سے اوجھل ہے۔

جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت کیا تھا؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والا فیصلہ کیا تھا؟ منتخب اسمبلیاں توڑنے کو جائز قرار دینے کے فیصلے کیا تھے؟ نہایت ادب اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تاریخ کے ترازو میں عدلیہ نے انصاف کے پلڑوں کو متوازن نہیں رکھا، بلکہ ہمارے قانون کے رکھوالوں کا جھکاؤ ہمیشہ طاقتوروں کی طرف رہا۔ عوام اور حق کے فیصلے اگر ہوئے بھی ہیں تو بہت ہی کم۔

یہ حقیقت ہے کہ پورے معاشرے کو عدالت بنانے سے انصاف نہیں انارکی پیدا ہوتی ہے، عدالت صرف چار دیواری تک محدود ہوتی ہے اور جج صرف عدالت کے اندر کا منصف۔ پورا معاشرہ چلانا اس کے فرائض میں ہرگز شامل نہیں، تاہم یہ اچھی بات ہے کہ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کی طرف دیکھا جائے اور مستقبل کو ہی اچھا ہونا چاہیے کیونکہ دوسری صورت میں ماضی کے تحفظات مایوسی کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آجاتے ہیں اور پھر اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اقوام کا رتبہ اسی وقت بلند ہوتا ہے جب افعال ان کی گواہی دیتے نظر آئیں۔ ہمارے ارباب اختیار اور ہم سبھی کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمارے اقوال کو بلند رتبہ اقوال کا درجہ حاصل رہے۔

جہاں تک خامیوں، خرابیوں کی بات ہے تو وہ تمام ریاستی اداروں میں ہیں اور ان سب قابل اصلاح ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ اور دیگر جج صاحبان خود عدلیہ میں بھی مقدمات میں تاخیر، جھوٹی گواہی، وکلا اور فریقین کے تاخیری حربوں، غیر ضروری حکم امتناعی کے نتیجے میں ہونے والی حق تلفیوں، نچلی عدالتوں میں موجود کرپشن اور اس کی خرابیوں کی اصلاح کی ضرورت کا اظہار آئے دن کرتے رہتے ہیں۔

ہر ذی شعور اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کا ایک پیج یا ایک پلیٹ فارم پر ہونا صحت مند معاشرے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور مہذب دنیا میں بہت سی روشن مثالیں تاریخ کے اوراق پر موجود ہیں، ہمارے قاضی وقت کو بھی معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان اوراق کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ یہی وقت کا فوری تقاضا ہے۔
Load Next Story