الم ناک صورتحال
ایسے ہی حالات میں کبھی مر جانے کو اور کبھی مار دینے کو جی چاہتا ہے۔
ایسی اندوہناک صورتحال میں بھی بعض لوگ اپنی بے عملی یا بداعمالیوں کا جواز یہ کہہ کر پیش کردیتے ہیں کہ ''یہ سب غیر ملکی سازش ہے یا ہماری بربادیوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔'' یقیناً ہماری کمزوریوں سے دشمنوں نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہے ہیں لیکن کیا اس ضمن میں ہماری کوئی ذمے داری نہیں بنتی بقول شاعر:
خطاؤں پر دلائل سوجھتے ہیں
یہ میرے علم کا اک المیہ ہے
گزشتہ چند سال سے جہاں وطن عزیز میں مہنگائی کا تناسب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے تو وہیں غربت اور مہنگائی سے پریشان اور مفلوک الحال ہم وطنوں کی بڑی تعداد کے مختلف اقسام کی ذہنی و نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔
ان بیماریوں میں مبتلا افراد میں خودکشی کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے رواں برس جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غربت اور مختلف ذہنی و نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد میں خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 2013ء سے پہلے خودکشی کے چند سو واقعات سالانہ رونما ہوتے تھے۔جبکہ حالیہ برسوں کے دوران اس شرح میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں 10 سے 18 فیصد افراد نچلے درجے کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں جبکہ کراچی میں یہ تعداد 80 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں غربت کے باعث مہلک بیماریوں کا سامنا کرنے والے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو بیماریوں کے علاج کے لیے اپنی کمائی اور بچت کا زیادہ تر حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ بیماریوں کے شکنجے میں بدستور جکڑے ہوئے ہیں۔
اسی حوالے سے پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ہر مہینے ایک سو تیس پاکستانی اقدام خودکشی کرتے ہیں اور موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں جبکہ اتنے ہی اس کی کوشش کرتے ہیں۔ مخدوش معاشرتی و معاشی حالات کی وجہ سے خواتین کی بڑی تعداد نفسیاتی و دماغی امراض میں مبتلا ہے۔ بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات نے بچوں کے اندر نفسیاتی امراض میں اضافہ کردیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت بے چینی، خوف اور اضطراب کا شکار ہے۔
یہاں تک کہ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی ایک چھوٹی سی خبر بھی بعض لوگوں میں شدید قسم کی اضطرابی کیفیت پیدا کردیتی ہے نفسیاتی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چونتیس فیصد آبادی عام اعصابی امراض کا شکار ہے۔ جن میں سے اکثریت تیس سال سے کم عمر افراد کی ہے اور خودکشی کے نوے فیصد واقعات کا تعلق ڈپریشن اور مایوسی سے ہے۔
آج کے اس جدید دور میں وقت اور حالات کے پیش نظر ہر شے ارتقا کی طرف مائل ہے لیکن ہمارا معاشرہ مہنگائی، مفلسی، گرانی، افراط زر، ہیجان، عدم برداشت، جنون وحشت اور منافقانہ رویوں کے ارتقا میں پیش پیش ہے۔پاکستان میں کچھ عرصے کے بعد برآمدات قدرے بحالی کا عمل شروع ہی تھا کہ اس کے ساتھ ہی درآمدات میں تیزی سے اضافی کے باعث ڈالر کی طلب میں بھی تیزی آنا شروع ہوگئی۔ جیسے جیسے قدرے اضافے کا عمل شروع ہوا اس کے ساتھ ہی ڈالر کی طلب میں تیزی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔
اس کے ساتھ ہی روپے کا فقدان بھی بڑھنے لگا اور ڈالر پر اعتماد میں اضافے کے عمل نے ڈالر کی قدر بڑھادی اور روپے کی قدر گھٹا دی۔ لیکن ان تمام باتوں کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی نئی لہر آئی اور غریب عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہر ہوگئیں چنانچہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور عوام کو اشیائے خورد و نوش کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔ مہنگائی حد سے بڑھ جائے تو بھوک کا باعث بنتی ہے۔
''بھوک بہت سفاک ہوتی ہے۔ خالی پیٹ میں جب بھوک کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ تہذیب و تمدن کی سچی جھوٹی سب ہی دلیلوں کو جلا کر راکھ کردیتا ہے۔ تب ہی کہا جاتا ہے بھوک مٹانے کیلئے روٹی چوری کرنیوالے کا نہیں حاکم وقت کا ہاتھ قلم کیا جائے۔''
حالیہ دنوں میں جبکہ ملک بھر میں گرمی کا موسم عروج پر تھا اور درجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا تھا ایسے میں بجلی کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کو دہرے عذاب میں مبتلا کردیا تھا۔ان گنت مسائل سے نبرد آزما لوگوں میں نفسیاتی بیماریوں، چڑچڑاپن اور جلد بازی پیدا ہو رہی ہے، برداشت اور صبر موقوف ہوگیا ہے، ہر کوئی غصے اور جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ ایسے حالات ہی جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اس لیے کہ منفی طرز فکر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ماہرین عمرانیات کے مطابق جب محرومیاں، عدم تحفظ ، انتشار، معاشی ناانصافیاں، ہیجان، غصہ اور ان جیسے دیگر رویے بڑھتے جائیں تو معاشرہ انارکی کا شکار ہوکر بالآخر برباد ہوجاتا ہے۔ شاید کوئی نہیں جانتا کہ یہ صورتحال کب تبدیل ہوگی؟ کب تک بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی یہ لہر جاری رہے گی؟ کب تک معصوم لوگ بربریت کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
جس معاشرے میں بھوک، غربت اور بے حسی کا راج ہو، جہاں غریبوں کے گھروں میں چولہا جلنا عیاشی میں شمار ہو، جہاں قابل علاج بیماریوں میں مبتلا بچے اور بوڑھے علاج سے محروم ہوں، جہاں بے روزگار نوجوان اپنے گھروں میں اپنے پیاروں سے آنکھیں چرا کر شرم سے داخل ہوں کہ آج پھر انھیں کوئی روزگار نہیں ملا۔ جہاں لڑکیوں کی عمر بڑھنے سے ان کا سماجی، ثقافتی اور معاشی بوجھ پورے گھرانے کو ایک تکلیف دہ احساس میں مبتلا کردیتا ہو جب محنت کش خالی ہاتھ لوٹتے ہوں اور ان کے اہل خانہ درماندگی و نامرادی کے عذاب میں ڈوب جاتے ہوں تب جو سماجی پراگندگی پیدا ہوتی ہے وہ بربادیوں کے سوا دے ہی کیا سکتی ہے؟
ایسے ہی حالات میں کبھی مر جانے کو اور کبھی مار دینے کو جی چاہتا ہے۔ یہی وہ المناک صورتحال ہے جو نفرت اور انتقام کی نفسیات کو جنم دیتی ہے۔ یہ ان حالات کا ردعمل ہی ہوتا ہے جو نوجوانوں کو جرائم، دہشتگردی اور منشیات میں غرق کردیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ناکام اور کامیاب زندگی کا جو موازنہ کیا گیا ہے اس کے تحت اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے حقوق اللہ حقوق العباد کی ادائیگی لازم قرار دی گئی ہے۔