امریکا کے ’’مودی‘‘ کی بوکھلاہٹ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف پالیسی بیان نے منتشر پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا ہے۔
پاکستان کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا لہجہ دن بدن ترش ہوتا جارہا ہے اور ہر روز اپنے سینے میں چھپے بغض کا اظہار وہ کسی نئے تلخ بیان کے ساتھ کررہے ہیں۔ پاکستان گزشتہ 16 سال سے امریکا کی جنگ اپنے ملک میں لڑ رہا ہے، جس کی پاکستان کو بہت مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔
پاکستان کو امریکی جنگ میں کودنے کی وجہ سے نہ صرف 150ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، بلکہ تقریباً 70 ہزار پاکستانیوں کی جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑا اور پورا ملک غیر محفوظ ہوگیا، مگر اس کے باوجود امریکا کے مودی ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی خدمات کو تحسین کرنے کے بجائے تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا ہے اور پاکستان کو دھوکے باز اور جھوٹا قرار دیا ہے، جو پوری پاکستانی قوم کی توہین ہے۔ نئے سال کے آغاز پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشی کرتے ہوئے دھمکی آمیز ٹویٹ پیغام جاری کیا کہ امریکا نے 15 سال میں 33 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے کر بے وقوفی کی ہے، مگر اب پاکستان کو کوئی امداد نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا، پاکستان امریکی حکام کو بے وقوف سمجھتا ہے۔
اس کے بعد امریکا نے پاکستان سے ہر قسم کا سیکیورٹی تعاون معطل کرنے کا اعلان کردیا، جس کے تحت پاکستان کو فوجی سازو سامان اور مالی امداد فراہم نہیں کی جائے گی۔ اب پاکستان کو نہ تو فوجی سازو سامان دیا جائے گا اور نہ سیکیورٹی کی مد میں فنڈ فراہم کیا جائے گا۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے امریکی صدر کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے زمینی حقائق کے منافی اور پاکستان کی قربانیوں کی نفی قرار دیا ہے اور کہا کہ پاکستان نے پندرہ سال میں جو قربانیاں دی ہیں، ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔
پاکستان کو ایک سو تیس ارب ڈالر کا نقصان معاشی طور پر ہوا، جب کہ 70 ہزار سے زائد سویلین اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران نے جانیں دیں۔ ٹرمپ کا 33 ارب ڈالر امداد کا دعویٰ بھی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ زیادہ تر رقم امریکا نے اتحادی سپورٹ فنڈ کے تحت دی اور اس کے لیے پاکستان کی سہولیات استعمال کی گئیں، اس میں سے بھی دو ارب ڈالر ابھی امریکا نے دینے ہیں۔ اعلیٰ سول و فوجی قیادت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف ٹویٹ پر متوازن ردعمل کا اظہار کیا، جو قابل تحسین ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف پالیسی بیان نے منتشر پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے قومی یکجہتی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے فوری طور پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کانفرنس بلا کر اپنی خارجہ پالیسی کو زیربحث لاکر اہم فیصلے کیے جائیں، تاکہ ملک کو امریکی غلامی میں جانے سے بچانے کے لیے ساری قوم ایک پیج پر آجائے۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقے برسوں سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ یہ جنگ امریکا کی ہے، جس میں امریکا کا ساتھ دینا کسی طور بھی نقصان سے خالی نہیں ہے۔
امریکا کسی بھی ملک کو استعمال کر کے ٹشو کی طرح پھینک دیتا ہے۔ امریکا کی جنگ میں پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے اور اب ایک بار پھر امریکا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ پاکستانی قوم برسوں سے امریکا کی جنگ سے نکلنا چاہتی ہے اور اب امریکی جنگ کی بھٹی میں مزید جلنا نہیں چاہتی۔ پاکستان، امریکا کی ضرورت ہے، نہ کہ امریکا پاکستان کی ضرورت ہے۔ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض کرنا ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کا امریکی امداد خصوصاً فوجی امداد پر انحصار بہت کم ہوا ہے جس کی وجہ چین سے دفاعی شعبے میں بڑھتا ہوا تعاون ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے مزید راستے بھی کھلے ہیں۔ پاکستان امریکی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین کی جانب سے ملک میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر منتخب ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کر لیا تھا۔
ان کے صدر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو اب تک متعدد بار دھمکیاں دے کر اس سے ڈومور کے تقاضے کیے جاچکے ہیں۔ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اپنی نئی قومی سلامتی پالیسی جاری کرتے ہوئے بھی پاکستان کو یاد دہانی کرائی کہ وہ امریکا کی مدد کرنے کا پابند ہے، کیونکہ وہ ہر سال واشنگٹن سے بڑی رقم وصول کرتا ہے۔
ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد بعض حلقوں کا خیال تھا کہ وہ بطور صدر امریکا اپنے انتہاء پسندی پر مبنی منشور کو عملی جامہ نہیں پہنائیں گے، مگر انھوں نے ایسی تمام توقعات کے برعکس اپنے انتخابی منشور کو واشنگٹن انتظامیہ کی پالیسیوں کا حصہ بنا کر اس پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا۔
اس منشور کی بنیاد پر واشنگٹن انتظامیہ نے اپنی تمام توجہ پاکستان پر فوکس کردی، جس سے اہانت آمیز لہجے میں ڈومور کے تقاضوں کا آغاز ہوا، جب کہ ٹرمپ نے امریکا کی نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے خود پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لب ولہجہ اختیار کیا اور بھارت کو افغانستان میں امن کی بحالی کا کردار سونپتے ہوئے پاکستان کو باور کرایا کہ اسے دی جانے والی امداد اور اس کا امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا اسٹیٹس محفوظ ٹھکانوں میں موجود دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے مشروط ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹرمپ اس خطہ میں اپنے حلیف بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ اسی کا لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ امریکا کی بوکھلاہٹ کی ایک وجہ سی پیک منصوبہ بھی ہے۔ امریکا سے پاکستان کا سی پیک منصوبہ برداشت نہیں ہورہا۔ بھارت کو خوش کرنے کے لیے امریکا نے ہر طرح سے سی پیک کی مخالفت کی، مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے امریکی وزیر دفاع یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان متنازعہ علاقے میں سی پیک منصوبہ شروع کیے ہوئے ہے۔
امریکا کا یہ بیان بھی بالکل بے بنیاد تھا، کیونکہ جس علاقے کو ایشو بناکر امریکا نے مخالفت کی تھی، وہ علاقہ آزادی کے دن سے پاکستان کا حصہ ہے اور چین اور پاکستان کے حکام نے سی پیک کے خلاف امریکی وزیر دفاع کے بیان کو یکسر مستردکیا تھا اور دونوں ملکوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ یہ معاشی تعاون کاعلاقائی منصوبہ ہے، جوکسی تیسرے فریق کے خلاف نہیںاور نہ ہی اس منصوبے کاکسی علاقائی تنازع سے کوئی تعلق ہے۔ در اصل سی پیک پاکستان اور خطے کے ممالک کی ترقی کا اہم منصوبہ ہے اور بھارت، پاکستان کو اور امریکا ، چین کو سی پیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔