احسان فراموشی
اب اگر ٹرمپ تمام دہشت گردوں کو ختم کرنا ہماری ذمے داری قرار دے رہے ہیں تو پھر نیٹو اور افغان فوجی وہاں کیا کر رہے ہیں؟
2017ء کا سال اپنی تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہو چکا ہے۔ اس پورے سال دنیا بدامنی اور دہشتگردی کے نرغے میں پھنسی رہی اور تباہی و بربادی کا منظر پیش کرتی رہی۔ کسی بھی ملک سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی۔ امریکا جو پوری دنیا کا بادشاہ کہلاتا ہے سب سے زیادہ بدامنی کا شکار رہا۔ وہاں نئی قیادت نے اقتدار کیا سنبھالا پوری دنیا میں بھونچال برپا ہوگیا۔
ٹرمپ جیسے غیر سیاسی، ناتجربہ کار، کم فہم اور دولت کے پجاری کا صدر منتخب ہونا خود امریکا پر بھاری پڑ گیا۔ مسلم دشمنی ٹرمپ کی گھٹی میں سمائی ہوئی ہے، مسلم ممالک کو ڈرانے دھمکانے اور باہم لڑانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ شام اور یمن کی تباہی کے سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے تاخت و تاراج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ گزشتہ سال روس نے پھر انگڑائی لی اور اس نے اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرانے کے لیے عالمی بساط پر کئی مہرے تبدیل کیے۔
سب سے اہم کارنامہ شام کی جنگ کو ختم کرانا تھا جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی بشمول سعودیہ اسے نیست و نابود کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ داعش کے ناپاک وجود کو بھی ختم کرانے میں روس نے اہم کردار ادا کیا۔ مغرب کی روس سے پرانی دشمنی چلی آرہی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ روس نے ہمیشہ چھوٹے ملکوں اور غریب انسانوں کی مدد کی ہے اور انھیں مغرب کے استحصال سے محفوظ بنایا ہے۔ دنیائے اسلام کو داعش کی مصیبت میں گرفتار کرانے والا امریکا ہی ہیجو ثابت بھی ہوچکا ہے۔
اس عفریت نے دس سال تک مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ روس امریکی سازش کی حقیقت سے خوب واقف تھا اس نے شام کے ساتھ مل کر اس فتنے کو دفن کردیا ہے۔ ویسے اس کی سرکوبی میں عراقی فوجیوں نے بھی حصہ لیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اہم کردار روس نے ہی ادا کیا ہے۔ اب یہ فتنہ امریکی مدد سے افغانستان میں پھل پھول رہا ہے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں اس فتنے کی آبیاری کا الزام امریکا پر لگایا ہے انھوں نے اپنے ایک بیان میں باقاعدہ امریکی حکومت کی جانب سے اسے اسلحہ اور دوسری مدد فراہم کرنے کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ سال کی صرف ایک ہی خبر حوصلہ افزا کہی جاسکتی ہے کہ داعش کو کم سے کم مشرق وسطیٰ میں دفن کردیا گیا۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہاں کے کٹھ پتلی حکمراں بدستور بھارت کی گود میں بیٹھے اٹھکھیلیاں کرتے رہے۔ انھیں افغان امن سے کوئی واسطہ نہ رہا۔ امریکی فوج بھی طالبان اور داعش کے آگے زیر رہی۔ وہاں دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ کارروائیاں ہو ہی نہیں رہیں۔ کیونکہ افغان جنگ ختم ہونے سے بھارت کو نقصان ہوگا۔ ایک تو وہ پاکستان کے خلاف اپنی دہشتگردی جاری نہیں رکھ سکے گا دوسرا یہ کہ وہ وہاں اپنی تجارتی منڈی کو کھو دے گا۔ چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ جاری رہے تاکہ وہ وہاں ٹکا رہے۔
افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اس کے ہم نوا بن کر اس کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ بھارت کو افغانستان میں من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دینے سے لگتا ہے کہ امریکا جان بوجھ کر افغان حالات کو خراب رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ وہاں طویل عرصے تک اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے۔
گزشتہ سال تیسرا اہم مسئلہ شمالی کوریا کے ایٹمی دھماکوں اور بین البراعظمی میزائلوں کا بھی عالمی افق پر چھایا رہا اور اس سے پوری دنیا خوف و ہراس میں مبتلا رہی۔ شاید شمالی کوریا اتنا زیادہ جارحیت پر نہ اترتا اگر ٹرمپ اسے دھمکیاں نہ دیتے اور اس کے خلاف پابندیوں پر پابندیاں عائد نہ کراتے۔ اس طرح ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دھمکا کر پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ اب کم جونگ ان کا یہ بیان کسی طرح خطرے سے خالی نہیں ہے کہ ایٹمی حملے کا بٹن ان کی میز پر موجود ہے۔
پاکستان کے لیے بھی سال گزشتہ مسائل سے بھرپور رہا اور جب نئے سال 2018ء کے پہلے دن پوری دنیا جشن منا رہی تھی بدقسمتی سے پاکستان میں ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کی وجہ سے سراسیمگی کا عالم تھا۔ عوام سے لے کر قائدین تک سب حیران و پریشان تھے کہ آخر افغانستان کے حوالے سے امریکا بہادر کے کون سے حکم کو بجا لانے میں ہم کوتاہی کے مرتکب قرار پائے گئے؟ پتہ چلا کہ ہم نے اپنے ملک میں دہشتگردوں کی نرسریاں اور پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔
اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو امریکا تو پاکستان کو بہت پہلے ہی افغانستان کی طرح کھنڈر بنا چکا ہوتا۔ امریکا ہمارے احسانات کو نہ بھولے۔ ہم نے ہی امریکا کے حکم پر دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور سے ٹکر لینے میں ذرا ہچکچاہٹ نہیں کی تھی اور اسے افغانستان سے باہر نکال دیا تھا اور امریکا کو دنیا کی واحد سپرپاور بنادیا تھا ہم نے امریکا کے حکم پر ہی نہ چاہتے ہوئے بھی طالبان کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی اپنے کئی ہوائی اڈے اسے افغانستان کے اندر طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے مختص کردیے تھے۔
امریکا کے حکم پر ہی اپنے کئی علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشنز کرتے رہے۔ پہلے پہل تو ہماری بہت تعریفیں ہوتی رہیں، ہمیں افغان مسئلے میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا خطاب بھی دیا جاتا رہا پھر ہم سے فرمائش کی گئی کہ ہم طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئیں۔ ہم نے کسی طرح طالبان کو رام کرکے یہ بھی کردکھایا، حالانکہ طالبان ہم سے سخت ناراض تھے اور ان کے بعض گروپ ملک میں مسلسل خودکش حملے کر رہے تھے، لیکن ہماری خدمت کے صلے میں امریکا نے ہم پر الزام لگایا کہ ہم طالبان سے ملے ہوئے ہیں پھر حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا بھی ہم پر الزام لگایا گیا۔
بھلا پاکستان کیونکر ڈبل گیم کھیل سکتا ہے جب کہ افغان مسئلے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہورہا ہے۔ اسی مسئلے کی وجہ سے ہی پاکستان خطرناک قسم کی دہشتگردی میں پھنس چکا ہے۔ اب تک خودکش دھماکوں میں ہزاروں معصوم شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہماری معیشت اور صنعت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔ دنیا الٹا ہمیں دہشت گرد کہہ رہی ہے، کوئی ملک ہم سے کرکٹ تک کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ افغان مسئلہ ہمارا اپنا نہیں ہے یہ ہمارے ایک آمر کا ہمیں بخشا گیا تحفہ ہے۔
اب اگر ٹرمپ تمام دہشت گردوں کو ختم کرنا ہماری ذمے داری قرار دے رہے ہیں تو پھر نیٹو اور افغان فوجی وہاں کیا کر رہے ہیں؟ ساتھ ہی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی کیا ذمے داریاں ہیں؟ وہ صرف بھارت کی خدمت گزاری ہی کرتے رہیں گے؟ ٹرمپ کی دھمکیاں افغان مسئلے میں ان کی ناکامی کے قلق کا اظہار تو ہے ہی مگر پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور چین سے ہمارے بڑھتے ہوئے تعلقات اصل ہدف ہیں، تاہم ہم ان دونوں محاذوں پر ڈٹے رہیں گے، البتہ افغان مسئلے کے حل میں جس طرح سنجیدگی سے امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں دیتے رہیں گے۔
ٹرمپ جیسے غیر سیاسی، ناتجربہ کار، کم فہم اور دولت کے پجاری کا صدر منتخب ہونا خود امریکا پر بھاری پڑ گیا۔ مسلم دشمنی ٹرمپ کی گھٹی میں سمائی ہوئی ہے، مسلم ممالک کو ڈرانے دھمکانے اور باہم لڑانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ شام اور یمن کی تباہی کے سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے تاخت و تاراج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ گزشتہ سال روس نے پھر انگڑائی لی اور اس نے اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرانے کے لیے عالمی بساط پر کئی مہرے تبدیل کیے۔
سب سے اہم کارنامہ شام کی جنگ کو ختم کرانا تھا جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی بشمول سعودیہ اسے نیست و نابود کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ داعش کے ناپاک وجود کو بھی ختم کرانے میں روس نے اہم کردار ادا کیا۔ مغرب کی روس سے پرانی دشمنی چلی آرہی ہے وجہ صرف یہ ہے کہ روس نے ہمیشہ چھوٹے ملکوں اور غریب انسانوں کی مدد کی ہے اور انھیں مغرب کے استحصال سے محفوظ بنایا ہے۔ دنیائے اسلام کو داعش کی مصیبت میں گرفتار کرانے والا امریکا ہی ہیجو ثابت بھی ہوچکا ہے۔
اس عفریت نے دس سال تک مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ روس امریکی سازش کی حقیقت سے خوب واقف تھا اس نے شام کے ساتھ مل کر اس فتنے کو دفن کردیا ہے۔ ویسے اس کی سرکوبی میں عراقی فوجیوں نے بھی حصہ لیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اہم کردار روس نے ہی ادا کیا ہے۔ اب یہ فتنہ امریکی مدد سے افغانستان میں پھل پھول رہا ہے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں اس فتنے کی آبیاری کا الزام امریکا پر لگایا ہے انھوں نے اپنے ایک بیان میں باقاعدہ امریکی حکومت کی جانب سے اسے اسلحہ اور دوسری مدد فراہم کرنے کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ سال کی صرف ایک ہی خبر حوصلہ افزا کہی جاسکتی ہے کہ داعش کو کم سے کم مشرق وسطیٰ میں دفن کردیا گیا۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہاں کے کٹھ پتلی حکمراں بدستور بھارت کی گود میں بیٹھے اٹھکھیلیاں کرتے رہے۔ انھیں افغان امن سے کوئی واسطہ نہ رہا۔ امریکی فوج بھی طالبان اور داعش کے آگے زیر رہی۔ وہاں دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ کارروائیاں ہو ہی نہیں رہیں۔ کیونکہ افغان جنگ ختم ہونے سے بھارت کو نقصان ہوگا۔ ایک تو وہ پاکستان کے خلاف اپنی دہشتگردی جاری نہیں رکھ سکے گا دوسرا یہ کہ وہ وہاں اپنی تجارتی منڈی کو کھو دے گا۔ چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی جنگ جاری رہے تاکہ وہ وہاں ٹکا رہے۔
افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اس کے ہم نوا بن کر اس کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔ بھارت کو افغانستان میں من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دینے سے لگتا ہے کہ امریکا جان بوجھ کر افغان حالات کو خراب رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ وہاں طویل عرصے تک اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے۔
گزشتہ سال تیسرا اہم مسئلہ شمالی کوریا کے ایٹمی دھماکوں اور بین البراعظمی میزائلوں کا بھی عالمی افق پر چھایا رہا اور اس سے پوری دنیا خوف و ہراس میں مبتلا رہی۔ شاید شمالی کوریا اتنا زیادہ جارحیت پر نہ اترتا اگر ٹرمپ اسے دھمکیاں نہ دیتے اور اس کے خلاف پابندیوں پر پابندیاں عائد نہ کراتے۔ اس طرح ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دھمکا کر پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ اب کم جونگ ان کا یہ بیان کسی طرح خطرے سے خالی نہیں ہے کہ ایٹمی حملے کا بٹن ان کی میز پر موجود ہے۔
پاکستان کے لیے بھی سال گزشتہ مسائل سے بھرپور رہا اور جب نئے سال 2018ء کے پہلے دن پوری دنیا جشن منا رہی تھی بدقسمتی سے پاکستان میں ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کی وجہ سے سراسیمگی کا عالم تھا۔ عوام سے لے کر قائدین تک سب حیران و پریشان تھے کہ آخر افغانستان کے حوالے سے امریکا بہادر کے کون سے حکم کو بجا لانے میں ہم کوتاہی کے مرتکب قرار پائے گئے؟ پتہ چلا کہ ہم نے اپنے ملک میں دہشتگردوں کی نرسریاں اور پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔
اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو امریکا تو پاکستان کو بہت پہلے ہی افغانستان کی طرح کھنڈر بنا چکا ہوتا۔ امریکا ہمارے احسانات کو نہ بھولے۔ ہم نے ہی امریکا کے حکم پر دنیا کی دوسری بڑی سپرپاور سے ٹکر لینے میں ذرا ہچکچاہٹ نہیں کی تھی اور اسے افغانستان سے باہر نکال دیا تھا اور امریکا کو دنیا کی واحد سپرپاور بنادیا تھا ہم نے امریکا کے حکم پر ہی نہ چاہتے ہوئے بھی طالبان کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی اپنے کئی ہوائی اڈے اسے افغانستان کے اندر طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے مختص کردیے تھے۔
امریکا کے حکم پر ہی اپنے کئی علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشنز کرتے رہے۔ پہلے پہل تو ہماری بہت تعریفیں ہوتی رہیں، ہمیں افغان مسئلے میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا خطاب بھی دیا جاتا رہا پھر ہم سے فرمائش کی گئی کہ ہم طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئیں۔ ہم نے کسی طرح طالبان کو رام کرکے یہ بھی کردکھایا، حالانکہ طالبان ہم سے سخت ناراض تھے اور ان کے بعض گروپ ملک میں مسلسل خودکش حملے کر رہے تھے، لیکن ہماری خدمت کے صلے میں امریکا نے ہم پر الزام لگایا کہ ہم طالبان سے ملے ہوئے ہیں پھر حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا بھی ہم پر الزام لگایا گیا۔
بھلا پاکستان کیونکر ڈبل گیم کھیل سکتا ہے جب کہ افغان مسئلے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہورہا ہے۔ اسی مسئلے کی وجہ سے ہی پاکستان خطرناک قسم کی دہشتگردی میں پھنس چکا ہے۔ اب تک خودکش دھماکوں میں ہزاروں معصوم شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہماری معیشت اور صنعت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔ دنیا الٹا ہمیں دہشت گرد کہہ رہی ہے، کوئی ملک ہم سے کرکٹ تک کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ افغان مسئلہ ہمارا اپنا نہیں ہے یہ ہمارے ایک آمر کا ہمیں بخشا گیا تحفہ ہے۔
اب اگر ٹرمپ تمام دہشت گردوں کو ختم کرنا ہماری ذمے داری قرار دے رہے ہیں تو پھر نیٹو اور افغان فوجی وہاں کیا کر رہے ہیں؟ ساتھ ہی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی کیا ذمے داریاں ہیں؟ وہ صرف بھارت کی خدمت گزاری ہی کرتے رہیں گے؟ ٹرمپ کی دھمکیاں افغان مسئلے میں ان کی ناکامی کے قلق کا اظہار تو ہے ہی مگر پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور چین سے ہمارے بڑھتے ہوئے تعلقات اصل ہدف ہیں، تاہم ہم ان دونوں محاذوں پر ڈٹے رہیں گے، البتہ افغان مسئلے کے حل میں جس طرح سنجیدگی سے امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں دیتے رہیں گے۔