حساب چکتا کرنے کے لیے

اگر معاملہ صرف امریکی امداد کا ہے تو پھر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔


انیس منصوری January 07, 2018
[email protected]

میں نے سمجھا کہ پورے ملک کی سڑکوں پر مشتعل نوجوان گھوڑے پر بیٹھ کر امریکا کے خلاف نعرے لگا رہے ہوں گے۔ میں کم عقل یہ سمجھا کہ ہاتھوں میں تلوار لیے ہم آسمان کی طرف دیکھ کر ڈرون کا انتظار کررہے ہوں گے۔ مجھے کوئی ناسمجھ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ کچھ لوگوں کو تیر چلانے کا بھی شوق ہے، وہ بھی ہاتھوں میں کمان لے کر نکلیں گے کہ امریکا تیری ایسی کی تیسی۔

کچھ شوقین لوگوں کی غیرت بھی جاگ جائے گی، وہ اپنی الماریوں سے کاغذی شیر نکال کر میدان میں کھڑے ہوں گے اور ٹرمپ کو لعنت بھیجتے ہوئے اپنے شیر سے ڈرانے لگیں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، نہ مکھی اڑی اور نہ ہی مچھر نہ کاٹا۔ ہم تو ہاتھوں میں رجسٹر لے کر کھڑے ہوگئے، آؤ، آؤ، آکر سارا حساب کتاب چیک کرلو، ہم جیسا ایماندار کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

کچھ ٹی وی کے شیر اور سوشل میڈیا کی شاہین چلا چلا کر کہہ رہی ہے، بھاڑ میں جائے تمھاری امداد، ہم کیا تمھاری امداد پر پلتے ہیں۔ واقعی بات تو سچ ہے کہ ہم امداد پر نہیں پلتے۔ اگر امریکا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے 33 ارب ڈالر ہمیں 17 سال میں دیے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس نے ہم 20 کروڑ عوام کو ایک دن کے بس 3 روپے دیے۔ یہ بھی کوئی بھیک ہے۔ ہم اتنے تو سگریٹ کے دھویں اور پان کی پچکاری میں اڑا دیتے ہیں۔ ہمیں کیا کنگلا سمجھا ہوا ہے۔

ہمیں کون سی قبر میں لے جانی تھی تمھاری 15.5 ارب ڈالر کی اقتصادی امداد۔ ہم کیا مرگئے تھے جب 1979ء میں پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو جواز بنا کر تمھارے ''شہنشاہ'' جمی کارٹر نے ہماری امداد بند کردی تھی۔ تم نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ بس اب ہم صرف پاکستانیوں کو خوراک کے علاوہ کچھ نہیں دیں گے۔

ایک سال بھی نہیں لگا تھا جب تمھیں ہم نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اور ہم نے تمھارے لیے اپنی محبتوں کے دروازے کھول دیے۔ جب تمھارے پیسوں سے ہم گھوڑے پر بیٹھ کر سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں، معاف کیجیے گا جب ہم قیمہ بنا کر کڑاہی میں کھا سکتے ہیں تو تم کیا بیچتے ہو ہمارے سامنے۔ ویسے جب ہم اتنے بڑے فقیر لوگ ہیں کہ دال روٹی پر گزارا کرسکتے ہیں تو آخر یہ ہر جگہ امداد کا شور کیوں مچا ہوا ہے۔ جب معاملہ امداد کا نہیں اور ہم ننگے پاؤں بھی امریکا کو توڑ سکتے ہیں تو واویلا کیوں مچایا ہوا ہے؟

یہ تیر کمان والے تو کہتے ہیں کہ ان کو گھر بھیجنے کا انتظام تم نے ہی کرایا تھا، اور ''نو ستارے'' لے کر تم نے ہی جگمگائے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ساری امداد بند نہیں کی تھی بلکہ ''حور'' کا رخ موڑ دیا تھا۔ اور وہ پیسے پھر تیر والوں کے بجائے ستاروں والے کو ملنے لگے تھے۔ ابھی بھی لوگوں کو یہ ڈر نہیں ہے کہ تم امداد بند کردو گے تو ہم قورمہ اور بوٹی نہیں کھا سکیں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ تم یہ بھیک ان لوگوں کو دو گے جو پیٹ بھرنے کے بعد ساری غلاظت ہماری طرف پھینکیں گے۔ لیکن ہم بھی بہت پکے ہیں۔ 1979ء میں تم نے امداد بند کی اور ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ تمھیں امداد کھولنا پڑی۔ ابھی بھی کچھ لوگوں کے پاس 1980ء سے لے کر 1990ء تک کے رجسٹر پڑے ہوئے ہیں، جب پانچ ارب ڈالر کی رقم آئی تھی اور ہم نے نعرہ تکبیر لگا کر اپنے نوجوانوں کو افغانستان فتح کرنے بھیجا تھا۔ان سنجیدہ باتوں میں ایک بات تو بتانا بھول ہی گیا۔

ایک بہت مشہور ترمیم آئی تھی، جسے پریسلر ترمیم کہا جاتا ہے۔ یہ ترمیم اسی گوری ناک والے تین لوگوں نے پیش کی تھی جو پاکستان کے گال سے گال ملانا چاہتے تھے۔ اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ پاکستان کو کوئی ہتھیار اور امداد نہ دی جائے جب تک صدر صاحب کو اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ پاکستان کوئی اٹیمی ہتھیار نہیں بنارہا۔

حیرت انگیز بات یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب امریکی ڈالر کی جھنکار میں پاکستانی نوجوان خود کو افغانستان کے پہاڑوں پر قربان کررہے تھے، یعنی 1985ء۔ جب تک ہم اپنے نوجوانوں کے سینے افغانستان بھیجتے رہے تب تک تو سب اچھا تھا اور جب تک سوویت یونین افغانستان میں رہا، ہر طرف بہار رہی۔ لیکن جیسے ہی ہم نے ایک سپر طاقت کو بھگا دیا، دوسرا خود بخود بھاگ گیا۔ یعنی میرے بھائی امریکا نے اگلے سال ہی 1990ء میں پریسلر ترمیم کو استعمال کرتے ہوئے ہماری امداد روک دی۔ جارج ڈبلیو بش اس وقت مسند پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے کو ہمارے یہاں جمہوریت تھی، لیکن امداد بند ہوگئی۔ تو کیا ہم مرگئے؟

جب تک 9/11 نہیں ہوا، ڈالر کی جھنکار ہم تک نہیں آئی۔ یعنی 10 سال میں ہمیں جو ڈالر گننے کو ملے وہ صرف 50 کروڑ تھے۔ یعنی ضیاء کی آمریت میں ڈالر کی بارشیں ہورہی تھیں اور پھر جمہوری دور میں ڈالر کا قحط پڑگیا اور پھر جب افغانستان کا معاملہ شروع ہوا تو ڈالر کا سونامی آ گیا۔ قصہ مختصر، چھوٹی سی بات کہنا چاہ رہا ہوں کہ میرے بھائی امریکی ڈالر آتے جاتے رہتے ہیں، اس کا تعلق نہ ہی جمہوریت سے ہے اور نہ آمریت سے۔ جب 1990ء میں بند کی تو اس کا تعلق کسی طور پر بھی پریسلر ترمیم یا ہماری ایٹمی صلاحیت سے نہیں تھا۔

جب ان کا دل چاہتا ہے وہ آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور جب کام پڑتا ہے تو بارش شروع ہوجاتی ہے۔ ابھی بھی معاملہ حقانی نیٹ ورک کا نہیں لگتا۔ساری کہانی کو کہنے کے بعد موٹی موٹی گالیوں کے ساتھ تین سوالات رکھ لیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا پاکستان سے کیا چاہ رہا ہے؟

دوسرا یہ کہ کیا امریکا پاکستان کے بغیر افغانستان میں چل سکتا ہے؟ تیسرا یہ کہ پاکستان کیا امریکا کی ناراضی کے ساتھ دوڑ سکتا ہے؟گھوڑے سے نیچے اتر کر تلوار کو نیام میں سنبھال کر رکھتے ہیں۔ یہ تو بہت صاف ہے کہ معاملہ اپنے چہرے کو کیمرے کے سامنے لانے کے لیے حقانی نیٹ ورک کا ہے۔ لیکن اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ کیا یہ معاملہ ہمارے چین کی طرف جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ معاملہ مشرق وسطی میں ہمیں نہ کودنے کی وجہ سے ہے؟

کڑی کو کڑی سے جوڑیے۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی بڑے مسئلے اور طاقتیں ہیں اس میں افغانستان کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ لیکن یہ اس نہج پر نہیں ہے کہ تعلقات کو اس سطح پر لایا جایا۔ پراکسی کا سلسلسہ تو جاری ہے۔ اور حامد کرزئی سے لاکھ نفرت سہی مگر یہ بات تو اس کی ماننی پڑے گی کہ افغانستان میں داعش کے پیچھے امریکا ہے۔ ایک طرف داعش ہے اور دوسری طرف طالبان۔مگر کیا پاکستان کا راستہ استعمال کیے بغیر وہ افغانستان جاسکتا ہے؟ کیا امریکا کو ایران مکمل راستہ دے دے گا؟

بہت سارا کام ایران کی بندرگاہ سے ہورہا ہے۔ لیکن ایران میں حالیہ مظاہروں کے بعد کیا ایران امریکا کو آسانی فراہم کرے گا؟آسان سی بات سمجھتے ہیں۔ جب افغانستان میں دو سپر پاور کی لڑائی تھی تو ہم استعمال ہوئے۔ کیا ہم اس سطح پر آچکے ہیں کہ افغانستان میں ہماری لڑائی امریکا سے ہورہی ہے، یا پھر ہم پھر کچھ طاقتوں کے درمیان پھنس رہے ہیں؟ اس کے بعد کا سارا کام آپ خود کیجیے اور سوچیں۔ میں تیسرے نکتے پر آتا ہوں کہ کیا ہم امریکا کے بغیر چل سکتے ہیں؟

ہاں۔ اگر معاملہ صرف امریکی امداد کا ہے تو پھر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر امریکا کے دباؤ اور گیم کا ہے تو معاملہ سمجھ آسکتا ہے۔ معاشی طور پر ہم اپنے بجٹ کا خسارہ امداد سے ہی پورا کرتے ہیں اور یہ امداد جہاں جہاں سے آتی ہے وہاں امریکا کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ جو ہمارے یہاں رہتا ہے کہ کوئی پرتشدد کارروائی شروع ہوسکتی ہے، حکومتوں کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگ ابھی سے بلوچستان میں ہونے والی تبدیلی پر ستارے ملانے لگ گئے ہیں۔ بھائی، کچھ نہیں ہورہا، انجوائے کرو، ہمارے پاس ابھی بہت سے رجسٹر ہیں حساب چکتا کرنے کے لیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں