عالمی اردو کانفرنس اور اہل نظر
آج کے نصاب میں علامہ اقبال کی فکر انگیز اور اسلامی شان و شوکت سے مرصع شاعری کو خیرباد کردیا گیا ہے۔
دسمبر کا مہینہ جاتے جاتے بہت سی یادوں کو تازہ کردیتا ہے، بینظیر بھٹو، پروین شاکر، منیر نیازی، مرزا اسد اللہ خان غالب اور بانی پاکستان قائداعظم کی پیدائش ساتھ میں کرسمس۔ قائداعظم کی بصیرت نے ایک آزاد مملکت پاکستان کی شکل میں دی۔ 27 دسمبر بینظیر بھٹو کی یادوں اور خاص طور پر اس دن کی یاد تازہ کردیتا ہے جب پاکستان کے دشمن موقع سے فائدہ اٹھا کر قتل و غارت شروع کردیتے ہیں۔ 27 دسمبر کو بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ ایک طرف محترمہ کا قتل دوسری طرف بربریت کی تاریخ کو رقم کرنے والے دہشتگرد۔
دسمبر کے مہینے میں خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر اپنی شاعری اور یادوں کی خوشبو کو محفل شعر و ادب کے کوچوں میں بکھیر کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئیں، اسی ماہ میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا، ہر سال کی طرح بیرونی اور اندرون پاکستان سے قلم کار تشریف لائے اور اپنی صلاحیتوں اور فن کی رونمائی کی۔ کتابوں کی رونمائی بھی کی گئی۔ صدر آرٹس کونسل احمد شاہ کی تنظیمی صلاحیتوں کا ہر شخص معترف تھا، اتنے بڑے پیمانے پر کانفرنس کرنا معمولی بات نہیں۔ کانفرنس کے بعد انجمن ترقی اردو کی طرف ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ کھانے کے بعد باہر سے آئے ہوئے شعرا اور ادیبوں سے ملاقات ہوئی اور شعرا و شاعرات نے اپنا کلام پیش کیا۔
جس دن سے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں یہ کانفرنس شروع ہوئی، اسی دن سے فاطمہ قمر کے پیغامات آنے شروع ہوگئے۔ ان کا شکوہ تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی کانفرنس میں ایک نشست بھی نفاذ اردو کے حوالے سے نہیں رکھی گئی۔ واضح رہے کہ فاطمہ قمر کا تعلق ''پاکستان قومی زبان تحریک'' سے ہے اور وہ نفاذ اردو کے لیے مسلسل کوشش کر رہی ہیں کہ پاکستان میں قومی زبان کا راج ہو کہ اردو زبان کا حق ہے اور یہ حق بانی پاکستان قائداعظم نے ودیعت کیا ہے۔
پوری دنیا میں لوگ اپنی زبان بولتے اور فخر کرتے ہیں، لیکن ہمارے ہی ملک میں ہر شخص انگریزی بولنا فخر کی بات سمجھتا ہے اور اردو بولنے والوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے۔ یقیناً یہ اس کا احساس کمتری ہے۔ دسمبر کی آخری تاریخوں میں صدر آزاد کشمیر مسعود خان بھی پاکستان تشریف لائے تھے، انھوں نے کراچی یونیورسٹی میں طلبا سے انگریزی میں خطاب کیا، جب کہ وہ اردو میں بھی لیکچر دے سکتے تھے، دراصل غلطی کراچی یونیورسٹی کے منتظمین اور صاحب اختیار حضرات کی ہے کہ وہ آنے والے معزز مہمانوں کو اردو میں خطبہ دینے کی تلقین نہیں کرتے ہیں۔
اچھا پیغام اور اچھی بات، مادر علمی سے شروع ہونی چاہیے، لیکن افسوس کہ تعلیمی اور خصوصاً پرائیویٹ او۔اے لیول اسکولوں نے انگریزی زبان کو پروان چڑھایا اور اردو کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ انگریزی سیکھنا جرم نہیں ہے لیکن اپنی زبان کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
اس 5 روزہ کانفرنس میں علم و ادب، شعر و سخن، صحافت، تنقید، تراجم، فلم و موسیقی پر پروگرام ہوئے، لیکن ایک پروگرام ''ہمارا سماج اور پاکستانی زبانیں'' کے حوالے سے رکھا گیا تھا۔ اسی پروگرام میں علمی بابا تاج کا مضمون مادری زبان کی اہمیت شامل تھا۔ انھوں نے قومی زبان کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا، قراردادیں بھی پیش کی گئیں، ایک قرارداد اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حوالے سے تھی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ''اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کیا ہے اور وزیراعظم نے بھی اس کا اعلان کیا ہے لیکن ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے اور پرائمری تعلیم کے حصول کو مادری زبان میں ممکن بنایا جائے''۔
قرارداد کی آخری سطر سے ہمیں اختلاف ہے۔ نفاذ اردو کے لیے اس سے بہتر اور اچھا پروگرام ہوسکتا تھا۔ کراچی میں تحریک نفاذ اردو کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر مبین اختر تحریک کے صدر ایڈووکیٹ نسیم احمد شاہ نے بہت کوششیں کیں کہ پاکستان میں اردو جوکہ قومی زبان ہے اسے سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ تحریک نفاذ اردو کا قیام فروری 2005ء کو عمل میں آیا تھا، بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، دفتر سے لے کر کورٹ تک اور کورٹ سے ٹی وی چینل تک کاوشیں جاری رہیں۔
میں خود بحیثیت نائب صدر تحریک نفاذ اردو میں شامل رہ کر کوشاں ہوں کہ پاکستان میں اردو کو اس کا مقام اور تمام اداروں میں ضروری امور اردو ہی میں انجام دیے جائیں، پاکستان کی بڑی اور اعلیٰ شخصیات، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سلیم الزماں صدیقی، جامعہ عثمانیہ سے فارغ التحصیل طلبا نے اردو میڈیم کے ہی ذریعے تعلیم حاصل کی۔ کانفرنس کے شرکا نے بھی اپنے خیالات کا پرچار کیا۔
زاہدہ حنا نے کہا کہ احمد شاہ میلہ لوٹنے کے ماہر ہیں، ادب کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ خون سے سرحدیں کھینچی جاتی ہیں، ادب اس میں سے بھی راستہ بناتا ہے۔ پیرزادہ سلمان نے ندا فاضلی کے حوالے سے بہت دلچسپ اور بامعنی اشعار کا انتخاب کرکے ایک یادگار مضمون نذر سامعین کیا۔ معزز و معتبر نقاد مظہر جمیل نے ابراہیم جویو کے ساتھ گزرے ہوئے وقت اور ان کی سادگی و انکساری کا ذکر دردمندانہ انداز میں کیا۔
''قائد اعظم کا پاکستان '' کے عنوان سے جو پروگرام ترتیب دیا گیا تھا، اس اجلاس میں پاکستان اور قائداعظم کی عظمت کا اعتراف کرنے والے بھی تھے اور اختلاف کرنے میں بھی بے جھجک مقرر موجود تھے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے اپنے مضمون کی ابتدا پاکستان کے اغدار اور اس کی ایف آئی آر کٹوانے سے کی اور بے حد دلچسپ پیرائے میں حقائق اور سیاسی دہشتگردی کے واقعات کو مختصراً نمایاں کیا۔ حاضرین نے تمام مضامین بے حد پسند کیے اور دل کھول کر داد دی۔
فاطمہ قمر نے اردو عالمی کانفرنس کے دوران کئی پیغامات بذریعہ نیٹ ایسے بھیجے جو قابل نظر اور قابل ذکر ہیں اس خاص معلومات کو شامل کرنا بے حد ضروری ہے۔ بے شک یہ لمحہ فکریہ ہے بلکہ تردد اور تدبر کی آج سخت ضرورت ہے، حالات یہ ہیں کہ ہماری نصابی کتب میں تبدیلیاں ہمارے اپنے نہیں بلکہ غیر کر رہے ہیں۔ مضامین سے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علیہ السلام جیسے مقدس و متبرک الفاظ کا اخراج کردیا گیا ہے، اور شاید یہی عذاب نواز شریف کی گردن پر آگیا ہے کہ سعودی عرب میں بھی دولت کی کہانی اور ہوس زر کا قصہ طشت ازبام ہوچکا ہے۔
اب سنیں کہانی کہ سوشل اسٹڈیز کی کتاب کے مصنف Nicholas Hors Burgh ہیں، انھوں نے طلبا کو رقص و موسیقی کی طرف رغبت دلانے کے لیے ان مضامین کا انتخاب کیا ہے، جنھیں ان لوگوں نے لکھا ہے جن کا مذہب اسلام سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ پانچویں جماعت کی کتاب میں (تاریخ) محمد بن قاسم کو عرب آرمی اور سومناتھ کے مندر کو مسمار کرنے والا محمود غزنوی کو قرار دیا ہے، جب کہ کئی سو سال پہلے تیاویر کے ماننے والے جین مت نے تباہ کیا تھا اور یہ بات رامیلہ تھابیر نے عرق ریزی سے تحقیق کرکے ثابت کی ہے۔
آج کے نصاب میں علامہ اقبال کی فکر انگیز اور اسلامی شان و شوکت سے مرصع شاعری کو خیرباد کردیا گیا ہے، لاہور میں ایک اسکول ایسا بھی ہے کہ جہاں حجاب پہننے پر پابندی ہے، یہ خبر اخبار میں چھپ چکی۔ 21 دسمبر ایکسپریس میں یہ خبر بھی شایع ہوئی ہے کہ پہلی سے دسویں جماعت تک رقص و موسیقی کو نصاب میں شامل کیا جائے گا، اس بات کا اعلان وفاقی حکومت کی طرف سے ہوا ہے۔ یہ سب کچھ مغرب کے کہنے اور اس کے عوض ڈالر کی برسات کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ یہ ایک سنہرا جال ہے جس میں امت مسلمہ قید ہوچکی ہے اور سعودی عرب جیسا ملک لبرل بنتا جا رہا ہے۔