میری گم شدہ محبت
برف سے زیادہ سرد سنگی کتبے کوچھوا، پتھر کو کھود کر اس پرسیاہی سے جو کچھ تحریر کیا گیا تھا وہ اب نظر نہیں آ رہا تھا۔
میرے گاؤں بھدر کی وہ دھند بھری شام، چار قدم کے فاصلے پر کچھ سجھائی نہ دیتا تھا- فضا بھی دھندلی تھی اور اس پر مستزاد آنکھیں دھندلی ہو رہی تھیں۔ میں اس وقت وہاں کھڑی تھی جہاں کوئی بھی کسی فکر میں نہ تھا کہ اتنی دھند کیوں ہے... وہاں سکون سے ابدی نیند سوئے ہوئے لوگ، سردی اور گرمی کے احساس سے بے نیاز ہیں۔
پورا قبرستان دھند کی وجہ سے غروب آفتاب سے پہلے ہی تاریکی میں ڈوبا ہو تھا۔ ایسے میں کون تھا جو اپنے کمبل یا رضائی سے نکل کر قبرستان کی طرف آتا، میں اس تنہائی سے مسمرائز ہو کر اپنے ابا جی کی آخری آرام گاہ کے سرہانے جا کھڑی ہوئی، ارد گرد میرے دادا، دادی، تایا، تائی، چچا... سب پیارے پیارے لوگ جو اب تہہ خاک جا سوئے ہیں۔ میں نے زمین پر بیٹھ کر اس مٹی سے اپنے تعلق کو جڑتے ہوئے محسوس کیا، میرے ارد گرد یاد کی تیز خوشبو پھیل گئی۔
برف سے زیادہ سرد سنگی کتبے کوچھوا، پتھر کو کھود کر اس پرسیاہی سے جو کچھ تحریر کیا گیا تھا وہ اب نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کتبے کے سیاہ مٹ جانے والے الفاظ پر انگلیاں پھیریں، اس نام کو بریل کی طرح پڑھا جو میرے وجود کی شناخت ہے۔ وہ نام جو عمر بھر میرے دل و دماغ سے نہیں مٹ سکتا، چار سال میں ہی کتبے سے مٹ گیا ہے۔
'' تویہ ہے انسان کی اصل جگہ اور اس کا انجام، دو گز زمین اور نو گز سفید کپڑے کا کفن!'' میں نے مٹی پر ہاتھ پھیرا، جس میں تازہ گلابوں کی مہک رچی ہوئی تھی، ''اور ہم کس گمان میں ہیں؟؟ کوئی جاتا ہے تولگتا ہے کہ جانے والے کے بنا سانس بھی نہ لے پائیں گے، جی نہ پائیں گے مگر!!'' جی بھی رہے ہیں اور چند برسوں میں جانیوالوں کو بھلا بھی دیتی ہیں، ان کی یادوں کے دیے ماند پڑ جاتے ہیں۔ یہی زندگی ہے، یہی حقیقت ... نہ کوئی مرنیوالے کے ساتھ مرتا ہے، نہ اپنے اعما ل کے علاوہ کوئی آخرت کا ساتھی ہے۔
'' ایک پھٹکی لہو نکتہ ء آغاز اور خاک کا بستر انجام!! حق ہاہ۔'' اس کے بیچ کا چالیس، پچاس، ساتھ ، ستر یا اسی نوے سال کا عرصہ تو پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے مگر یہ مختصر عرصہ انسان کو کتنے گنجلک رشتوں ناطوں اور تعلقات کی ڈور میں باندھ جاتا ہے۔ ایک چھوٹی سی کونپل کی طرح پیدا ہونے والا ناتواں وجود کیسے قدرت کی مدد سے اپنے والدین کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں اور رشتے پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس کے والدین کے علاوہ بہن بھائی، باقی رشتے دار، دوست، استاد، قرابت دار، محلے دار، برادری، قبیلہ، باس، ماتحت... پھر وہ نئے رشتوں کے بندھن میں بندھتا ہے اس حوالے سے او ر اس کے وجود سے کئی اور رشتے جنم لیتے ہیں جن کی وہ پہچا ن بنتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ننھی کونپل جیسا پیدا ہونے والا ناتواں وجود، جس کی ایک پودے کی طرح پرواخت ہوئی، وہ ایک تناور اور سایہ دار درخت کی طرح بن جاتا ہے... بالکل ویسا ہی جیسے کہ میرے ابا جی تھے۔
وفات کے وقت ان کی عمر چھیاسی برس اور ڈیڑھ ماہ تھی، ان کی شفقت کا سایہ اتناگھنا تھا کہ خاندان میں اور خاندان سے باہر کے پچاسوں لوگ ان کو ابا جی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ایک طویل جدوجہد والی زندگی گزاری اور اپنے بہن بھائیوں کو کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ان کی قوت برداشت ایسی تھی کہ میں ان کی اولاد ہو کر اس پر رشک کرتی ہوں، سادہ مزاج، نہ جھوٹ بولتے اور نہ کسی اور کا کہا ہوا جھوٹ برداشت کرتے تھے۔
زمانہ کہاں کا کہاں پہنچ گیا مگرا ن کے اندر کا سادہ انسان وہیں رہا جہاں سے وہ چلا تھا۔ کبھی اپنی اصل سے ناطہ نہ توڑا اور ان کی یہی اچھی بات ہے کہ ہمارے وجود بھی اسی مٹی کی طرف کھنچتے ہیں جہاں سے ان کا خمیر اٹھا تھا۔ اپنی ماں کے انتہائی مودب اور فرمانبردار بیٹے، انتہائی قدر دان شوہر، بہنوں کا بے حدا حترام کرنیوالے، بھائیوں کے ساتھ شفقت سے بات کرنیوالے۔
لباس پہننے میں سادگی اور خوراک کھانے میں انتہائی اعتدال سے کام لیتے تھے، کسی بھی طرح سے زیاں کو نا پسند کرتے تھے اور ہم سب کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔ کھانا کھانے کے دوران زیادہ برتنوں کے استعمال کو بھی اصراف کہتے تھے اور کہتے کہ جس نے برتن دھونا ہوتے ہیں اس کی مشقت بڑھ جاتی ہے۔ ان کا مطالعہ انتہائی وسیع تھا اور ہم سب بہن بھائیوں کو کتب بینی کی عادت وراثت میں ان سے ملی۔ قوت بیان غضب کی تھی اور حافظہ ایسا کہ اس پر سب رشک کریں۔
نصف صدی پہلے کا کوئی واقعہ بھی سناتے تو اس میں مقامات، لوگوں کے ناموں اور ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی ایک ایک حرفی تفصیل ان کو از بر ہوتی، ایک ہی واقعے کو بار بار بھی سناتے تو کہیں جھول ہوتا نہ واقعات کے پیش کرنے کے انداز میں کوئی مبالغہ یا رنگ آمیزی۔وعدے اور وقت کی پابندی ان کے دو ایسے شعار تھے کہ جن کی زمانہ آج بھی مثال دیتا ہے۔ کسی چھوٹے سے بچے سے وعدہ کرتے یا کسی بڑے سے، اپنے سے یا غیر سے، ان کے لیے وہ وعدہ قابل تکریم ہوتا اور ہمیشہ اپنے وعدے کی پاسداری کرتے۔
شادی بیاہوں پر وقت کی پابندی کو نہ ملحوظ رکھنے کا جو وتیرہ بن گیا ہے اس پر وہ بہت چڑتے اور اسے مہمانوں کی تذلیل تصور کرتے کہ انھیں جس وقت پر مدعو کیا جائے اس وقت پر تقریب شروع نہ کی جائے یا وہ مہمان جو دیے گئے وقت پر نہ پہنچیں ، وہ گویا میزبان کی عزت یا احترا م نہیں کرتے۔ اپنے بچوں کی شادیوں پر بھی وہ وقت کی پابندی کی اتنی سختی کرتے کہ کہتے جو وقت پر تیار نہیں ہوگا وہ بارات میں بھی نہیں جائے گا، چاہے تو گھر پر آرام کرے یا اپنا کوئی اور بندوبست کر لے۔
وہ بغض، حسد، منافقت اور جھوٹ سے دور رہتے اور ان ہی اوصاف نے انھیں سب کی نظروں میں محترم رکھا۔ اتنا بڑا حوصلہ اور اتنا عالی ظرف میں نے کسی اور کا آج تک نہیں دیکھا۔ میں ہمیشہ یہ دعا کرتی ہوںکہ میرا اللہ مجھے اپنے ابا جی جیسا ایثار، حوصلہ، فہم اور قناعت عطا فرمائے، وہ دولت، جس نے انھیں کبھی ایسی خواہشات نہیں پالنے دیں کہ جن کے حاصل نہ ہونے سے وہ خود کو کم مایہ سمجھتے۔ گھر سے باہر کے لوگ، مجرمان اور ان کے ماتحت ان کے نام سے کانپتے تھے مگرگھر اور خاندان اور دوست احباب میں وہ سراپا شفقت تھے۔
ہر باپ کی طرح تربیت کے چند معاملات میں وہ اپنی اولاد پر سختی کرتے تھے، جو اصول انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے وضع کیے تھے ان کا احترام ہم سب کے لیے لازم تھا۔ انھوںنے ہماری ہر خواہش کو اپنی ضروریات پر فوقیت دی اور اس کے بدلے میں ہر باپ کی طرح ہم سے صرف یہ چاہا کہ ہم محنت کو اپنا شعار بنائیں، اپنے لیے کسی منزل کا تعین کریں اور دینی اور دنیاوہ لحاظ سے اچھے اور کامیاب انسان بنیں۔
اپنی تمام اولادوں سے وہ بہت قریب تھے، ہم سب بھی، بالخصوص ان کی بیٹیاں ان کی آنکھوں کے تارے۔ ان کے انداز گفتگوا ور انداز تحریر کو میں بہت مس کرتی ہوں، ان کے خطوط میرے پاس اس سرمائے کی طرح ہیں کہ جس سے قیمتی اور کوئی اثاثہ میرے پاس نہیں ہے، ان کے خطوط سے مجھے ان کی گفتگو کی خوشبو آتی ہے۔ جس زمانے میں فون اس قدر عام نہیں ہوئے تھے، خاندان کے ہر فرد کو وہ بہت باقاعدگی سے خطوط لکھتے اور یہ سوچ کر کہ جواب دینے والا سستی نہ کرے یا س کے پاس لفافہ نہ ہونے کا بہانہ ہو، اپنا پتہ لکھ کر خالی جوابی لفافہ ہمیشہ خط کے ہمراہ بھیجتے تھے۔
دوسروں کے لیے اتنے چھوٹے سے معاملے میں خیال رکھنے کی عادت کی مثال بتاتی ہے کہ وہ دوسروں کی سہولت کے لیے کس قدر باریکی سے سوچتے تھے۔چودہ سو اکسٹھ دن، ان میں سے ایک دن بھی ایسا نہیں جس روز میں نے ان کو سوچا نہ ہو۔ دنیا کانظام ہی ایسا ہے کہ ہر گزرنیوالا دن خاک کی ایک تہہ ماضی پر ڈالتا چلا جاتا ہے، جو وقت گزر گیا وہ اس پانی کی طرح ہے جو بہہ جاتا ہے تو واپس نہیں لایا جا سکتا۔ ہم جو ابھی تک جی رہے ہیں اور زمین پر پوری آن بان سے چلتے ہیں، ہماری اوقات کیا ہے اور کیا سوچ ہے ہماری، سوچتے ہیں کہ ہم تو زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے، ہمیں کیا ہونا ہے، ہمیں کون سا مر جانا ہے یا کم از کم اتنی جلدی تو نہیں مرنا۔
یہ بھی جانتے ہیں مگر بھولے رہنا چاہتے ہیں کہ فرشتہ اجل ہم سب کی تاک میں ہے اور اس نے ہمیں ہمارے مقررہ وقت پر آ لینا ہے، بغیر کسی مہلت کے، بغیر چند لمحے کی تاخیر کے... پھر بھی کئی برس آگے کی باتیں سوچتے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ایک دن ہمیں بھی اس فانی دنیا کواسی طرح چھوڑ جانا ہے مگر اس سوچ کے ساتھ خوشی کا یہ احساس جڑا ہے کہ ایک دن ہم پھر اپنے پیارے بچھڑے ہوؤں سے مل پائیں گے۔ اللہ تعالی ان سب کی آخرت کی منزلیں آسان کرے اور ہمیں ان کی اچھی عادات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!