جمہوری اور غیر جمہوری تعلقات کی کہانی
جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور کابینہ کی اہمیت ہوتی ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بقول حکومت اور فوج کے درمیان نہ صرف بہتر تعلقات ہیں بلکہ بہت سے امور پر فریقین کا نکتہ نظر بھی ایک ہی ہے۔ان کے بقول جو لوگ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کا کہتے ہیں وہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے اداروں میں ٹکراؤ پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن نواز شریف کی سعودیہ سے واپسی پر جو موقف انھوں نے اختیار کیا وہ ان تعلقات میں بداعتمادی ظاہر کرتا ہے۔ نواز شریف کے بقول ان کو مجبور نہ کیا جائے وگرنہ وہ پس پردہ قوتوں کی مداخلت کی کہانی پیش کر دینگے۔
مسئلہ ان چار برسوں کا نہیں بلکہ نواز شریف جب بھی اقتدار میں تو اس میں دو پہلو نمایاں رہے۔ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں اپنے لیے راستہ تلاش اور سیاسی مخالفین کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔دوئم جب بھی وہ اقتدار کا حصہ دار بنے ان کے فوج سے ہمیشہ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا ۔اس لیے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ ہر دفعہ ٹکراؤ کیونکر پیدا ہوتا اور کیوں ان کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔
اگرچہ نواز شریف اس سارے مقدمے کو جمہوری اور قانون کی بالادستی کی بنیاد پر لڑتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں جتنی نواز شریف پیش کرتے ہیں۔ ٹکراؤ کی کیفیت کبھی یکطرفہ نہیں ہوتی۔ مسائل پیدا کرنے میں دوسروں کے علاوہ خود نواز شریف کا کتنا حصہ ہے، اس کا بھی تجزیہ ہونا چاہیے۔کیا مسئلہ نواز شریف کا جمہوری عمل کو مضبوط بنانا ہے یا اقتدار کے کھیل میں کسی کے سامنے وہ اپنے آپکو جوابدہ بنانے کی بجائے فرد واحد پر مبنی حکمرانی کے نظام کو طاقت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر دو فریق مسائل کے ذمے دار ہو سکتے ہیں ۔
سوال کو سمجھنے کے لیے ہمیں نوجوان صحافی ،کالم نگار، اینکر اور تجزیہ کار اسد اللہ خان کی کتاب ''مجھے کیوں نکالا'' )نواز شریف کے فوج سے اختلافات) پر مبنی کہانی کو سمجھنا ہو گا۔ اسد اللہ خان کو میں صحافت کے ابتدائی دنوں سے جانتا ہوں وہ مسلسل محنت، لگن، شوق اور جستجو کو بنیاد بنا کر آگے بڑھے ہیں۔ ان کی تحریر اور گفتگو کا انداز محض جذباتی نہیں بلکہ تحقیق اور منطق سے سیاسی و سماجی معاملات میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔
اس زیر نظر کتاب میں جہاں نواز شریف کی تین حکومتوں میں پیدا ہونیوالے اختلافات کی کہانیاں ہیں وہیں اسی تناظر میں انھوں نے جامع بحث بھی کی ہے۔یہ کتاب عملی طور پر پاکستان میں جاری سول اور غیر سول تعلقات کی بحث کو سمجھنے میں بھی مدد دیتی ہے کہ یہ مسئلہ کیا ہے اورکیونکر پیدا ہوا ۔اسد اللہ خان کے بقول ''جب نواز شریف پہلی بار 1990ء میں وزیر اعظم بنے تو تعلقات کا بگاڑ ان کو ورثہ میں ہی ملا تھا لیکن نواز شریف کا قصور یہ ہے سب سے زیادہ اقتدار کے مواقع ملنے کے باوجود حکمت اور تدبر کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ اس دیرینہ لڑائی کو ختم نہ کرپائے بلکہ خود ایک فریق بن گئے۔
ان کا یہ مطالعہ ایک جائزہ ہے نواز شریف کی ناقص سیاسی حکمت عملی کا، ایک مشاہدہ ہے نواز شریف کے ضدی رویے کا ۔اس کتاب میں جنرل پرویز مشرف کی اقتدار میں آنے کی خواہش اوراس مقصد کے حصول کے لیے ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا بھی تفصیلی جائز ہ لیا گیا اور نواز شریف کی جانب سے نہ اٹھائے جانے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اگر وہ اٹھاتے تو جنرل پرویز مشرف کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اسد اللہ خان جمہوریت کے حامی ہیں اورغیرجمہوری مداخلتوں کو جمہوریت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ کتاب میں کئی ایسے حوالہ جات بھی دیتے اور کئی اہم سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کے بیانات کو بھی جواز بنا کر پیش کرتے ہیں جن کے بقول بار بار کی غیر جمہوری مداخلتوں نے نہ صرف مسائل حل نہیں کیے بلکہ جمہوری عمل کو کمزور بھی کیا ہے۔
وہ اس کتاب میں سابق فوجی سربراہ جنرل جہانگیر کرامت کا موقف پیش کرتے اور جنرل ایوب خان کی کتاب کا ایک حوالہ دیتے ہیں جس میں ایوب خان لکھتے ہیں کہ ''اقتدار سنبھالنے سے پہلے ایک بات مجھے پریشان کرتی تھی،یہ تھی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ سیاست میں پڑگئی تو پھر اس کو اس سے علیحدہ کرنا مشکل ہوجائے گا ۔
اسد اللہ خان کی یہ کتاب تحقیق پر مبنی کتاب ہے اور حوالہ جات بھی جاندار ہیں اورجس انداز سے انھوں نے حالات و واقعات کو اعداد وشمار اور تاریخوں کے ساتھ پیش کیا ہے وہ معاملات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔اس کتاب میں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے ادوار کا بھی جائزہ ا اور ان محرکات اور واقعات کو بھی پیش کیا گیا ہے جو مداخلتوں کا سبب بنے تھے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ نواز شریف زیادہ مداخلتوں کا شکار ہوئے لیکن کیونکہ اقتدار بھی زیادہ ان کا تھا اورانکو ہی یہ سب کچھ دیکھنا پڑامگر یہ کہانی باقی اقتدار میں شامل افراد کو بھی دیکھنی پڑی ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اگر دونوں فریقین یعنی سول اور غیر سول ایک دوسرے کو سمجھنے، مل کر چلنے اور باہمی مشاورت کو چھوڑ کر ایک دوسرے فتح کرنے کے جنوں میں مبتلا ہوجائیں تو یقینی طور پر ٹکراؤ ہی پیدا ہوگا۔نواز شریف کا مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت تو دور خود اپنی کابینہ اور قریبی ساتھیوں سے بھی مشورہ کیے بغیر بڑے حساس کام کو خود کرنا چاہتے ہیں۔
جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور کابینہ کی اہمیت ہوتی ہے، مگر ہمارے جمہوری نظام میں ان اداروں کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہماری سیاسی اور غیر سیاسی قیادت مل بیٹھ کر سول ملٹری تعلقات کاازسر نو جائزہ لے اور کچھ نئے خدوخال وضع کرے، اگر مسئلہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کا ہے تو اس پر بھی باہمی مشاورت سے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔بہرحال اسد اللہ خان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب جمہوری پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی ہے اور نئی نسل سمیت سیاسی کارکنوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرکے اس بحث کو بہتر انداز میں سمجھنا چاہیے۔