طاقت کا نشہ

ایک مخصوص گروہ جب چاہتا ہے دھرنوں کی کال دے دیتا ہے۔ شہر بند ہوجاتے ہیں۔ ہر جگہ آگ لگادی جاتی ہے۔


Raees Fatima January 07, 2018
[email protected]

لوگ چڑچڑے اور بدمزاج کیوں ہوتے جا رہے ہیں، گالم گلوچ، غصہ، ہاتھا پائی، مرنے مارنے پر تل جانا۔ یہ سب کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے اسلام سے قبل کا زمانہ دوبارہ آرہا ہے، وہی گروہ بندیاں، کہیں بکری چرانے پہ جھگڑا تو کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ مار کٹائی اور لڑائی۔ اس حد تک کہ بڑھتے بڑھتے قبیلوں کی جنگ میں بدل جائے۔

لوگ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، قوت برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے، کہیں گھریلو جھگڑے ہیں اور طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کہیں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے رابطوں کا فقدان ہے۔ دفاتر میں پروفیشنل جیلسی کے ساتھ ساتھ گروہی سیاست بھی ہے۔ ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن لوگ ڈاکٹرز کے پاس جانے کے بجائے سیلف میڈیکیشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ دراصل ان تمام وجوہات کی جڑ ''بے یقینی'' کی کیفیت ہے۔ پتا نہیں کل کیا ہوگا، ہماری زمین ہماری رہے گی بھی یا نہیں؟

مہنگائی کا طوفان، دواؤں کے مہنگا ہونے سے علاج کا نہ کروانا، حکمرانوں کی ضد اور بے جا انا ''میں نہ مانوں'' کی تکرار نے نفرت اور بڑھادی ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، بے روزگاری کے عفریت نے ہر عمر کے لوگوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ عوام کے مسائل کون حل کرے؟

عوام کے نام پر فرشتے ووٹ ڈالتے ہیں اور اقتدار کی دلہن کو جمہوریت کا بیش قیمت لباس پہنا کر رخصت کردیتے ہیں۔ کیونکہ اقتدار کی دلہن بیاہ کر لانے کے لیے کروڑوں روپے، سرکاری مشینری اور میڈیا ہاؤسز کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ سیانے حساب کتاب لگا کر بتاتے ہیں کہ صرف ایک حلقے کے انتخاب پر 6 کروڑ سے ایک ارب تک خرچ ہوتا ہے، تب جا کر جیت مقدر ہوتی ہے۔ ہر آدمی الیکشن لڑ بھی نہیں سکتا، اس کے لیے ایک خاص قسم کی عیاری، مکاری اور بے ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب الیکشن ''پیسہ پھینک تماشا دیکھ'' کا ڈرٹی گیم بن جائے تو اہل اور دیانت دار لوگ کس طرح اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صادق اور امین ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب بے ایمانی سے کمائی گئی دولت پہ فخر کیا جاتا ہے، ذرائع آمدن پوچھنے والوں کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نئے زمانے کے فرعون اپنے مخالفین کو شیروں کے آگے ڈالنے کے بجائے عرصۂ حیات تنگ کردیتے ہیں۔

کوئی اہل، صاحب حیثیت، تعلیم یافتہ انسان پاکستان میں محض اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنا پر انتخاب نہیں لڑ سکتا اور اگر دوست احباب میں یا محلے والوں میں وہ اپنی شرافت اور دیانت کی وجہ سے انتخاب میں جیت بھی جائے تو اسے کسی بھی محکمے میں کام نہیں کرنے دیا جائے گا، فنڈز نہیں دیے جائیں گے، دوسرے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن کے بعد اسے لامحالہ کسی نہ کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی پڑے گی، بصورت دیگر خوار ہوتا پھرے گا اور صرف ڈیسک بجا کر اپنی جیت کی خوشی منا کر ایک دن نفسیاتی مریض بن جائے گا۔

ذرا سوچیے جب ایک حلقے کے الیکشن پر ڈیڑھ ارب تک خرچ ہوتا ہو تو من پسند وزارت ملنے کے بعد پہلے تو وہ اپنے ڈیڑھ ارب وصول کرے گا جو باآسانی پہلے دو سال یا بعض حالات میں صرف ایک سال میں ہی مع سود واپس مل جائیں گے۔ ایسے میں عوامی مسائل کے بارے میں بھلا کون سوچے گا اور کیوں سوچے گا؟ الیکشن لڑنا ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے اور سرمایہ کاری کا اصول ہی منافع کمانا ہے۔ ایک بے سہارا اور یتیم قوم ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار نہ ہوگی تو کیا امن و آشتی کے گیت گائے گی۔

ایک مخصوص گروہ جب چاہتا ہے دھرنوں کی کال دے دیتا ہے۔ شہر بند ہوجاتے ہیں۔ ہر جگہ آگ لگادی جاتی ہے۔ آخر حکومت ہے کہاں؟ جہاں ہے اور جیسی ہے سب جانتے ہیں۔ جہاں یہ حال ہو کہ مرکز نگاہ صرف اپنی ذات ہو وہاں کسی معذرت یا مذاکرات کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ معذرت کرنا ہمارے علمائے کرام اور سیاستدانوں نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ پھل دار درخت ہمیشہ اپنے پھلوں کے بوجھ سے زمین کی طرف جھکا رہتا ہے۔ جب کہ ٹنڈ منڈ سوکھے درخت منہ اٹھائے آسمان کو تکا کرتے ہیں۔

احتجاج، ہڑتالیں اور جلسے جلوس قوموں کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن اس طرح نہیں کہ جب جس کا جی چاہا مرکزی شاہراہوں کو بند کرکے بیٹھ گئے، کوئی جنازے لے کر بیٹھ گیا، کسی نے خودسوزی کی دھمکی دی۔ بھوک ہڑتالیں بھی تاریخ کا حصہ رہی ہیں جو کسی نیک اور کارآمد مقصد کے لیے کی جاتی رہی ہیں۔ یہ نہیں کہ دہشت گردوں اور خطرناک قیدیوں کو چھڑانے کے لیے دھمکیاں دیں، مطالبات رکھے اور قیدی چھڑوالیے۔

گزشتہ ماہ اسلام آباد اور پنڈی کو یرغمال بنانے والوں میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ انھوں نے کراچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر سلسلہ پنجاب کے شہروں تک بڑھ گیا۔ یہ تھی حکومت کی رِٹ اور نااہلی کہ مخالفین کی قوت کا اندازہ نہ لگایا جاسکا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہار کر جھک مار کر خود ہی چلے جائیں گے۔ لیکن یہ حکومت کی کج روی اور ناسمجھی تھی۔ یہاں ایک تو مذہب کا معاملہ تھا وہ بھی انتہائی نازک اور حساس۔ بھلا ختم نبوت پر کوئی بھی مسلمان کیونکر جذباتی نہ ہوگا۔

اس لیے وہ دھرنا جو ایک گروہ نے شروع کیا تھا اس میں عام آدمی بھی اپنی خوشی سے شامل ہوگیا، ہر آدمی کو حکومت کے خلاف اپنے جذبات نکالنے کا موقعہ مل گیا۔ اس لیے کہ ختم نبوت کا معاملہ سب کا اجتماعی معاملہ تھا۔ لوگوں نے شہروں کو سناٹوں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ وجہ وہی کہ ایک تو معاملہ نازک اور دوسرے حکومت کی نااہلی ہر کونے کھدرے سے عیاں ہے۔ لوگوں کو موقع ملا انھوں نے ازخود کاروبار بند کیا، گلیاں و بازار ویران ہوگئے۔ لوگوں کو پریشانیاں اٹھانا پڑیں، کوئی سفر پہ نہ جاسکا، کوئی اسپتال نہ پہنچ سکا۔ راستے ہی میں دم توڑ گیا۔

لیکن حکومت طاقت کے نشے میں چور اندھی ہو رہی ہے۔ اسے کیا، انھیں کون سا بچوں کے لیے دودھ ڈبل روٹی لینے بازار جانا پڑتا ہے۔ دواؤں کے لیے اسپتالوں میں چکر لگانے پڑتے ہیں۔ آخر یہ سب ہوتا ہی کیوں ہے۔ حکومت اسمبلی میں ایسا بل کیوں نہیں پاس کرواتی یا قانون کیوں نہیں بناتی کہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ سیاسی و مذہبی معاملات پر حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کسی مرکزی شاہراہ کو یا راستوں کو بند کرنا خلاف قانون ہے۔ شہروں کے داخلی راستوں پر کوئی احتجاج نہیں کرسکتا۔

بڑے شہروں میں کچھ میدان مختص کردیے جائیں جہاں احتجاجی اپنے کیمپ لگا سکتے ہیں۔ آئے دن کے ہنگاموں نے ویسے ہی معیشت کو کمزور کر دیا ہے، پھر روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والوں اور مزدوروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے۔ لیکن پرواہ کس کو ہے۔ سارا میڈیا، سارے اخبارات حکمرانوں کی لڑائی، دنگا فساد اور ان کی روزمرہ کی مصروفیات تک محدود ہیں۔ میڈیا ہاؤسز اور ٹاک شوز سجانے والوں کو بھی عوامی مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

جہاں یہ رویہ ہو کہ اذان کے احترام میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تقریر کرتے کرتے خود خاموش ہوگئے۔۔۔۔ اور یہاں یاد دلانا پڑا کہ اذان ہو رہی ہے تقریر روک دیں۔ اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے۔ فیض آباد کا دھرنا تو ختم ہوگیا۔ نہ حکومت نے اپنی نااہلی اور بچگانہ سوچ پر عوام سے معافی مانگی نہ علمائے کرام نے۔ کہ ان کے دھرنے نے نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ عام آدمی بھی بری طرح متاثر ہوا۔ معذرت ہمیشہ اعلیٰ ظرف لوگ کیا کرتے ہیں۔ کیونکہ باظرف لوگ جانتے ہیں کہ معذرت کرنے سے انسان کا قد اور بلند ہوجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں