2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں 9 فیصد اضافہ ہوا
9 خودکش حملوں سمیت 37 بم دھماکوں میں 54 افراد جاں بحق اور 164 زخمی ہوئے
دہشت گردی کے حوالے سے 2017ء بھی بلوچستان کے باسیوں کے لئے کچھ اچھا نہیں رہا جب کہ گزشتہ برس کے آخری 6 ماہ کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات سے ہلاکتوں میں 69فیصد تک اضافہ ہوا۔
صرف ایک ماہ میں دہشت گردی کے 48 واقعات ہوئے ہیں، سب سے زیادہ ہلاکتیں اکتوبر کے مہینے میں ہوئیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں پچھلے سال کی نسبت نو فیصد اضافہ جبکہ ہلاکتوں میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی۔2017ء میں 1906افراد کو سزائیں ہوئیں جن میں چار افراد کو سزائے موت اور 20 کو عمر قید ہوئی۔ دہشت گردی اور دیگر واقعات میں ہزارہ کمیونٹی، آبادکار اور سکیورٹی ادارے زیادہ متاثر ہوئے ۔
2017ء میں 9 خودکش حملوں سمیت 37 بم دھماکوں میں 54 افراد جاں بحق اور 164 زخمی ہوئے ہیں۔ سال کے پہلے چھ ماہ میں بلوچستان میں 102 دہشتگرد حملوں میں 98 افراد جاں بحق اور 179 افراد زخمی ہوئے۔ جولائی سے 29 دسمبر تک 109دہشتگرد حملوں میں 166 افراد جاں بحق اور 394 افراد زخمی ہوئے۔ ایک ماہ میں سب سے زیادہ 48 دہشتگردی کے واقعات اگست میں پیش آئے جن میں 28افراد جاں بحق اور55 زخمی ہوئے جبکہ سب سے زیادہ 40 ہلاکتیں اکتوبر کے مہینے میں ہوئیں۔ اس کے بعد مئی، جون، اگست، نومبر اور دسمبر میں بالترتیب 39، 28، 28،38 اور23 افراد دہشت گرد حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر 95 حملے کئے گئے، جن میں 110اہلکار جاں بحق اور205 زخمی ہوئے۔ 2016ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر104 حملوں میں 167 اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس طرح گزشتہ سے پیوستہ سال کی نسبت گزشتہ برس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہلاکتوں میں 34 فیصد تک کمی آئی ہے۔
2017ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ 63 حملے ایف سی پر ہوئے، جن میں 27 ایف سی اہلکار جاں بحق اور 83زخمی ہوئے۔ایف سی پنجگور رائفلز کے لیفٹیننٹ کرنل بھی فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے۔ پولیس پر 18 حملے ہوئے جن میں 52 پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ 83 اہلکار زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ 21 اہلکاروں کی موت جون میں دو دہشتگرد حملوں میں ہوئی۔
اس سال بلوچستان میں ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکشن حامد شکیل، ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ، ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کوئٹہ محمد الیاس ،ڈی ایس پی عمر الرحمان، سی ٹی ڈی انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی سمیت اعلیٰ پولیس آفیسران بھی دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ چار دہشت گرد حملوں میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت انیس اہلکار جاں بحق اور 35 زخمی ہوئے۔
اسی طرح دس حملوں میں لیویز کے 12 اہلکار لقمہ اجل بنے اور6 زخمی ہوئے۔ پولیس کے لئے سب سے بھاری سال 2016ء کا تھا جس میں 48 حملوں میں پولیس کے 125 جوان جاں بحق اور 203 زخمی ہوئے جبکہ 2017ء میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں میں 58فیصد تک کمی آئی ہے۔ اسی طرح ایف سی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں بھی 12فیصد تک کمی آئی ہے۔ گزشتہ برس آبادکاروں (سیٹلرز) پرحملوں کے پانچ واقعات پیش آئے جن میں7افراد جاں بحق اور10زخمی ہوئے جبکہ ہزارہ قبیلے کے افراد پر 8 حملے ہوئے جن میں 15 افراد جاں بحق اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔
اگرچہ 2013ء کی نسبت سال 2017ء میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ہلاکتوں میں 93فیصد کمی آئی ہے۔ 2013ء میں خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہزارہ قبیلے کے 231افراد جاں بحق اور 445زخمی ہوئے تھے۔تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ 2016ء کی نسبت 2017ء میں ایک بار پھر ہزارہ برادری پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پیوستہ کی نسبت گزشتہ برس نہ صرف تین حملے اضافی ہوئے بلکہ ہلاکتیں بھی دوگنا ہوگئیں۔ دیسی ساختہ بم دھماکوں میں 2015ء کی نسبت 37فیصد تک کمی آئی ہے۔
2015ء میں 162 بم دھماکے ہوئے تھے۔ 2013ء میں یہ تعداد 435 اور 2009ء میں تو 582تھی۔ محکمہ داخلہ کے مطابق گزشتہ سال بارودی سرنگ دھماکوں کے 67 واقعات میں 18 افراد جاں بحق اور 109 افراد زخمی ہوئے۔ دستی بم کے 30 حملوں میں 2 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہوئے۔ مختلف شہروں میں 38 راکٹ بھی داغے گئے جن میں ایک شخص جاں بحق اور 9افراد زخمی ہوئے۔ سڑک کنارے نصب 8 بم دھماکوں میں 4 افراد جاں بحق اور7افراد زخمی ہوئے۔
دہشت گردی کے دیگر 8 واقعات میں 48 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ ان میں مسیحی برادری کے چرچ پر حملے میں جاں بحق ہونیوالے نو افراد اور تربت میں کالعدم تنظیم کے ہاتھوں قتل ہونے والے بیس مزدور بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں کُل نو خودکش حملے ہوئے، جن میں چھ حملے صرف کوئٹہ میں ہوئے۔ باقی تین خودکش حملے چمن میں ایس ایس پی ساجد مہمند،جھل مگسی میں درگاہ فتح پور اور مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری پر ہوئے۔
کوئٹہ میں چمن ہاؤسنگ اسکیم میں ڈی آئی جی حامد شکیل، سریاب میں ایف سی کمانڈنٹ کرنل اشتیاق ،پشین اسٹاپ پر پاک فوج کے ٹرک، گلستان روڈ پر آئی جی آفس اور سبی روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر اور زرغون روڈ پر میتھوڈیسٹ چرچ پر خودکش حملے ہوئے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق سرکاری تنصیبات پر حملوں میں گزشتہ سالوں کی نسبت کمی آئی ہے۔ ستمبر میں ٹرین پر ایک حملہ کیا گیا جس میں چھ افراد زخمی ہوئے۔ریلوے پٹڑی کو دھماکے سے اڑانے کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ کیسکو کی تنصیبات پر سات حملوں میں دو افراد زخمی ہوئے جبکہ ٹاورز کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑانے کے چھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ بلوچستان میں اس دہائی کا سب سے خونریز سال 2013ء تھا، جس میں دہشت گرد حملوں میں 530 افراد لقمہ اجل بنے اور1162 زخمی ہوئے۔
2013ء اور 2017ء کا موازانہ کیا جائے تو دہشتگرد حملوں میں ہلاکتوں میں 50فیصد تک کمی آئی ہے۔ 2007ء کے بعد دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی 2015ء میں دیکھی گئی تھی، جب پورے سال میں صرف 202 افراد جاں بحق اور 310 زخمی ہوئے تھے۔ 2016ء میں اس تعداد میں دوبارہ اضافہ ہوا اور 276دہشتگرد حملوں میں 331 افراد جاں بحق اور 670 افراد زخمی ہوئے۔ ڈپٹی انسپکٹر پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے مطابق ضلع کوئٹہ کی حدود میں کل 3592کیس رجسٹرڈ کئے گئے، جن میں سے 2799 کا چالان جمع کروایا گیا۔
ماضی کے 2844کیسز کے بھی چالان جمع کئے گئے، اس کے علاوہ 793مقدمات میں تحقیقات جاری ہیں ۔ ان کے مطابق پولیس نے 2017ء میں کل 5643چالان بھی کروائے جن میں 12180افراد کو نامزد کیا گیا، 4823 افراد کو سزائیں ہوئیں ،1435افراد نے سمجھوتہ کیا، 1136افراد کو بری کیا گیا جبکہ 3515افراد کے کیس زیر سماعت ہیں۔ 2017ء میں قتل کے مقدمات میں کمی واقع ہوئی جبکہ لڑائی اور جھگڑے کے 11کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اغواء برائے تاوان کے 4مقدمات ہوئے جوکہ 2012میں 59تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع کوئٹہ کے حدود میں سال 2017 میں 2935 کلو گرام چرس ،2.28کلو گرام ہیروئن ،208گرام افیون ،15گرام کرسٹال اور 10گرام شیشہ برآمد کرکے 432مقدمات درج کئے گئے جن میں 186افراد کو سزائیں 3کیسز میں افراد کو بری جبکہ 242کیس زیر سماعت ہیں۔ ان کے مطابق پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے 16مختلف مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے جن میں سے کئی اہم دہشتگردوں کو سزائیں ہوئیں۔
صرف ایک ماہ میں دہشت گردی کے 48 واقعات ہوئے ہیں، سب سے زیادہ ہلاکتیں اکتوبر کے مہینے میں ہوئیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں پچھلے سال کی نسبت نو فیصد اضافہ جبکہ ہلاکتوں میں بیس فیصد کمی واقع ہوئی۔2017ء میں 1906افراد کو سزائیں ہوئیں جن میں چار افراد کو سزائے موت اور 20 کو عمر قید ہوئی۔ دہشت گردی اور دیگر واقعات میں ہزارہ کمیونٹی، آبادکار اور سکیورٹی ادارے زیادہ متاثر ہوئے ۔
2017ء میں 9 خودکش حملوں سمیت 37 بم دھماکوں میں 54 افراد جاں بحق اور 164 زخمی ہوئے ہیں۔ سال کے پہلے چھ ماہ میں بلوچستان میں 102 دہشتگرد حملوں میں 98 افراد جاں بحق اور 179 افراد زخمی ہوئے۔ جولائی سے 29 دسمبر تک 109دہشتگرد حملوں میں 166 افراد جاں بحق اور 394 افراد زخمی ہوئے۔ ایک ماہ میں سب سے زیادہ 48 دہشتگردی کے واقعات اگست میں پیش آئے جن میں 28افراد جاں بحق اور55 زخمی ہوئے جبکہ سب سے زیادہ 40 ہلاکتیں اکتوبر کے مہینے میں ہوئیں۔ اس کے بعد مئی، جون، اگست، نومبر اور دسمبر میں بالترتیب 39، 28، 28،38 اور23 افراد دہشت گرد حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2017ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر 95 حملے کئے گئے، جن میں 110اہلکار جاں بحق اور205 زخمی ہوئے۔ 2016ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر104 حملوں میں 167 اہلکار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس طرح گزشتہ سے پیوستہ سال کی نسبت گزشتہ برس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہلاکتوں میں 34 فیصد تک کمی آئی ہے۔
2017ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سب سے زیادہ 63 حملے ایف سی پر ہوئے، جن میں 27 ایف سی اہلکار جاں بحق اور 83زخمی ہوئے۔ایف سی پنجگور رائفلز کے لیفٹیننٹ کرنل بھی فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے۔ پولیس پر 18 حملے ہوئے جن میں 52 پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ 83 اہلکار زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ 21 اہلکاروں کی موت جون میں دو دہشتگرد حملوں میں ہوئی۔
اس سال بلوچستان میں ڈی آئی جی ٹیلی کمیونیکشن حامد شکیل، ایس ایس پی قلعہ عبداللہ ساجد خان مہمند، ایس پی قائد آباد کوئٹہ مبارک شاہ، ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کوئٹہ محمد الیاس ،ڈی ایس پی عمر الرحمان، سی ٹی ڈی انسپکٹر عبدالسلام بنگلزئی سمیت اعلیٰ پولیس آفیسران بھی دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ چار دہشت گرد حملوں میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت انیس اہلکار جاں بحق اور 35 زخمی ہوئے۔
اسی طرح دس حملوں میں لیویز کے 12 اہلکار لقمہ اجل بنے اور6 زخمی ہوئے۔ پولیس کے لئے سب سے بھاری سال 2016ء کا تھا جس میں 48 حملوں میں پولیس کے 125 جوان جاں بحق اور 203 زخمی ہوئے جبکہ 2017ء میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں میں 58فیصد تک کمی آئی ہے۔ اسی طرح ایف سی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں بھی 12فیصد تک کمی آئی ہے۔ گزشتہ برس آبادکاروں (سیٹلرز) پرحملوں کے پانچ واقعات پیش آئے جن میں7افراد جاں بحق اور10زخمی ہوئے جبکہ ہزارہ قبیلے کے افراد پر 8 حملے ہوئے جن میں 15 افراد جاں بحق اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔
اگرچہ 2013ء کی نسبت سال 2017ء میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ہلاکتوں میں 93فیصد کمی آئی ہے۔ 2013ء میں خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ہزارہ قبیلے کے 231افراد جاں بحق اور 445زخمی ہوئے تھے۔تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ 2016ء کی نسبت 2017ء میں ایک بار پھر ہزارہ برادری پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پیوستہ کی نسبت گزشتہ برس نہ صرف تین حملے اضافی ہوئے بلکہ ہلاکتیں بھی دوگنا ہوگئیں۔ دیسی ساختہ بم دھماکوں میں 2015ء کی نسبت 37فیصد تک کمی آئی ہے۔
2015ء میں 162 بم دھماکے ہوئے تھے۔ 2013ء میں یہ تعداد 435 اور 2009ء میں تو 582تھی۔ محکمہ داخلہ کے مطابق گزشتہ سال بارودی سرنگ دھماکوں کے 67 واقعات میں 18 افراد جاں بحق اور 109 افراد زخمی ہوئے۔ دستی بم کے 30 حملوں میں 2 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہوئے۔ مختلف شہروں میں 38 راکٹ بھی داغے گئے جن میں ایک شخص جاں بحق اور 9افراد زخمی ہوئے۔ سڑک کنارے نصب 8 بم دھماکوں میں 4 افراد جاں بحق اور7افراد زخمی ہوئے۔
دہشت گردی کے دیگر 8 واقعات میں 48 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ ان میں مسیحی برادری کے چرچ پر حملے میں جاں بحق ہونیوالے نو افراد اور تربت میں کالعدم تنظیم کے ہاتھوں قتل ہونے والے بیس مزدور بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں کُل نو خودکش حملے ہوئے، جن میں چھ حملے صرف کوئٹہ میں ہوئے۔ باقی تین خودکش حملے چمن میں ایس ایس پی ساجد مہمند،جھل مگسی میں درگاہ فتح پور اور مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری پر ہوئے۔
کوئٹہ میں چمن ہاؤسنگ اسکیم میں ڈی آئی جی حامد شکیل، سریاب میں ایف سی کمانڈنٹ کرنل اشتیاق ،پشین اسٹاپ پر پاک فوج کے ٹرک، گلستان روڈ پر آئی جی آفس اور سبی روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک پر اور زرغون روڈ پر میتھوڈیسٹ چرچ پر خودکش حملے ہوئے۔
محکمہ داخلہ کے مطابق سرکاری تنصیبات پر حملوں میں گزشتہ سالوں کی نسبت کمی آئی ہے۔ ستمبر میں ٹرین پر ایک حملہ کیا گیا جس میں چھ افراد زخمی ہوئے۔ریلوے پٹڑی کو دھماکے سے اڑانے کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔ کیسکو کی تنصیبات پر سات حملوں میں دو افراد زخمی ہوئے جبکہ ٹاورز کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑانے کے چھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ بلوچستان میں اس دہائی کا سب سے خونریز سال 2013ء تھا، جس میں دہشت گرد حملوں میں 530 افراد لقمہ اجل بنے اور1162 زخمی ہوئے۔
2013ء اور 2017ء کا موازانہ کیا جائے تو دہشتگرد حملوں میں ہلاکتوں میں 50فیصد تک کمی آئی ہے۔ 2007ء کے بعد دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی 2015ء میں دیکھی گئی تھی، جب پورے سال میں صرف 202 افراد جاں بحق اور 310 زخمی ہوئے تھے۔ 2016ء میں اس تعداد میں دوبارہ اضافہ ہوا اور 276دہشتگرد حملوں میں 331 افراد جاں بحق اور 670 افراد زخمی ہوئے۔ ڈپٹی انسپکٹر پولیس کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے مطابق ضلع کوئٹہ کی حدود میں کل 3592کیس رجسٹرڈ کئے گئے، جن میں سے 2799 کا چالان جمع کروایا گیا۔
ماضی کے 2844کیسز کے بھی چالان جمع کئے گئے، اس کے علاوہ 793مقدمات میں تحقیقات جاری ہیں ۔ ان کے مطابق پولیس نے 2017ء میں کل 5643چالان بھی کروائے جن میں 12180افراد کو نامزد کیا گیا، 4823 افراد کو سزائیں ہوئیں ،1435افراد نے سمجھوتہ کیا، 1136افراد کو بری کیا گیا جبکہ 3515افراد کے کیس زیر سماعت ہیں۔ 2017ء میں قتل کے مقدمات میں کمی واقع ہوئی جبکہ لڑائی اور جھگڑے کے 11کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اغواء برائے تاوان کے 4مقدمات ہوئے جوکہ 2012میں 59تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع کوئٹہ کے حدود میں سال 2017 میں 2935 کلو گرام چرس ،2.28کلو گرام ہیروئن ،208گرام افیون ،15گرام کرسٹال اور 10گرام شیشہ برآمد کرکے 432مقدمات درج کئے گئے جن میں 186افراد کو سزائیں 3کیسز میں افراد کو بری جبکہ 242کیس زیر سماعت ہیں۔ ان کے مطابق پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے 16مختلف مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے گئے جن میں سے کئی اہم دہشتگردوں کو سزائیں ہوئیں۔