کچھ توجہ صحت کی طرف بھی

بزرگ بھی تو سایہ دار درختوں کی مانند ہوتے ہیں۔ لیکن اب کہاں؟

کالم لکھنے سے پہلے میری طبیعت بہت نڈھال ہورہی تھی، آنکھیں غنودگی سے بند ہوئی جارہی تھیں اور تھکان بے حد محسوس کررہی تھی، دراصل یہ گزشتہ پندرہ بیس دن پہلے کی غیر معمولی مصروفیات کی وجہ سے تھا، عام حالات میں چار سال پہلے جب یہ کیفیت ہوتی تھی تو میں جھٹ پٹ کافی بنا کے پی لیتی تھی، انڈا ابال کر کھالیتی تھی، کیونکہ عموماً میرا بلڈ پریشر کم رہتا تھا، لیکن اب معاملہ برعکس ہے، خدا جانے کیوں اب ہائی بلڈ پریشر رہنے لگا ہے، جب کہ غذا میں بھی احتیاط رکھتی ہوں، میرے معالجین ڈاکٹر حفیظ احمد اور ڈاکٹر احسان الحق اس کی وجہ میرا غیر معمولی حساس ہونا بتاتے ہیں۔

بہرحال کالم بھی لکھنا ضروری تھا اور طبیعت میں خاصی گراوٹ تھی۔ میں نے فوراً ہی ڈاکٹر احسان کو فون کیا اور انھیں اپنی تکلیف بتائی اور پوچھا کہ فوری طور پر اس کیفیت سے نجات کے لیے کیا کروں؟انھوں نے دھیمے اور تسلی دینے والے لہجے میں مشورہ دیا کہ اس وقت گھر میں جو بھی میٹھی چیز ہو وہ فوراً کھالیں اورایک پینا ڈول بھی لے لیں، کیونکہ میرا شوگر لیول کم ہوگیا ہے، فوری توانائی کے لیے انھوں نے گڑ اور تل کھانے کوکہا، میں نے فوراً اس پر عمل کیا اور پندرہ منٹ میں کالم لکھنے بیٹھ گئی، ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دیتی ہوئی۔

تب میں نے سوچا کہ ڈاکٹر صاحب سے جب جب بھی ہم دونوں میاں بیوی کی ملاقات ہوتی ہے وہ بے شمار گھریلو نسخوں سے نوازتے ہیں اور ہربل علاج پر زور دیتے ہیں، اسلام آباد جانے سے پہلے ایک ملاقات میں انھوںنے عمومی صحت کے حوالے سے چند مفید باتیں بتائی تھیں، میں نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے قارئین کی نذرکردوں، کہ ہم لوگ مجموعی طور پر کئی لحاظ سے گھاٹے میں ہیں اور ہم سے زیادہ ہمارے بچے مسلسل نقصان کی طرف بلا سوچے سمجھے بڑھ رہے ہیں، پہلا نقصان تو یہ کہ اب گھروں میں بزرگوں کا گھنا سایہ نہیں ہے جو دھوپ سے اور گرمی سے اپنے بچوں کو بچا سکے۔

بزرگ بھی تو سایہ دار درختوں کی مانند ہوتے ہیں۔ لیکن اب کہاں؟ اب تو ان درختوں کو جلد سے جلد جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکنے کی تیاریاں اور خواہشیں ہر طرف بکھری پڑی ہیں، دوسری بدقسمتی یہ کہ ہم لوگ اپنی صحت کی جانب سے سخت لاپرواہ ہوچکے ہیں، ہر کام کے لیے وقت ہے، لیکن اگر نہیں ہے تو اپنی صحت سے آگاہی کے لیے۔ اسی لیے جس اسپتال یا کلینک میں جائیں وہاں مریضوں کا رش دیکھ کر خوف آتا ہے، چوتھی اذیت ناک صورتحال یہ کہ ہم اپنے بچوں کی صحت کی طرف سے بھی بہت لاپرواہ ہوگئے ہیں، وہ جی بھر کے جنک فوڈ اور کولا مشروبات پیٹ میں انڈیلتے رہتے ہیں اور کسی کو فکر ہی نہیں۔ ہر طرف ایک ہاہا کار مچی ہے،ریستوران ناپید ہوگئے اور فاسٹ فوڈ کلچر نے کسی بلاکی طرح شہروں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔

صحت مند رہنے کے لیے کیا کھایاجائے اور کن چیزوں سے پرہیز کیاجائے، یہ بات اب کوئی معنی نہیں رکھتی، بس اشتہارات سے متاثر ہوکر اور بھیڑچال کی بدولت روایتی صحت بخش کھانے غائب کردیے گئے ۔ اب کراچی یا لاہور میں آپ کو ماضی کی طرح وہ ریستوران شاید ہی کہیں مل پائیں جہاں آلو گوشت، قورمہ، بھنا ہوا قیمہ، کوفتے، سبزیاں اور روایتی میٹھی ڈش مل سکیں، وہ لوگ جن کے حلق سے سوکھے کھانے نہیں اترتے وہ فاسٹ فوڈز کو دیکھ کر پریشان ہوکر یاد کرتے ہیں اپنے ان کھانوں کو جو صرف گھروں میں دستیاب ہوسکتے ہیں لیکن مصیبت یہ کہ گھروں میں بھی بچے فاسٹ فوڈ ہی مانگتے ہیں ان کا پیٹ ہی نہیں بھرتا جب تک فیملی سائزکولڈرنک، فرنچ فرائز، برگر اور بروسٹ نہ ہو...!!

پنیر، مایونیز، چکنائی اور دیگر مضر صحت اجزاء سے بھرپور یہ کھانے جب بچوں اور بڑوں کے معدوں میں جاتے ہیں تو بہت سے عوارض کا سبب بنتے ہیں۔جس سے موٹاپا،بدہضمی،آنتوں کی سوزش اور جگر کی بیماریاں عام ہیں،گھروں میںکھانا پکانے کا رواج بھی کم ہوتا جا رہا ہے، اس لیے جی چاہتاہے کہ ڈاکٹر احسان الحق کے چند مشورے آپ تک پہنچادوں۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اپنے کھانوں میں سفید تل، کچا کھوپرا، گڑ اور کالی مسور(ملکہ مسور)کی دال کو ضرور شامل کیجیے۔ طریقہ کھانے کا کوئی بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔


البتہ ان کے نزدیک زیادہ بہتر یہ ہے کہ سردیوں کے موسم میں تل کے لڈو اور گڑ یا تل گڑ کے لڈو ضرور کھائیں، البتہ گرمیوں میں روزانہ ایک چھوٹی سی ڈلی گڑ کی اور آدھا چائے کا چمچہ تل چاہیں تو ملاکر کھالیں، یا گھر میں جو سالن یا دال یا سبزی پکی ہو ایک چھوٹا چمچہ تلوں کا اس میں ڈال دیں یا حسب خواہش اپنی پلیٹ میں ڈال لیں، کچا کھوپرا روزانہ کم ازکم ایک قاش ضرور کھائیں، ملکہ مسور کی دال توانائی کا سرچشمہ ہے، جس طرح جی چاہے پکائیں اور کھائیں لیکن اگر کسی کو یہ دال زیادہ نہیں من بھاتی تو ایک بڑا چمچہ دال کا نمک مرچ ڈال کر خوب پکائیں اور دال کو پھینک کر اس کا شوربہ پی لیں۔ اسی طرح کھانے کے ساتھ کھیرا، گاجر، ٹماٹر اور ہری پیاز اور نیبو کی سلاد ضرور ہونی چاہیے۔

شکرقندی بھی مختلف وٹامنز سے بھرپور ہے، اس کو ابال کر کھائیں یا پکاکر ہر طرح فائدہ مند اور بے حد مفید ہے، شکر قندی پہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے گھر میں شکر قندی بھوبل میں دباکر تیار کی جاتی تھی، سوئی گیس آنے کے باوجود بھی میری والدہ کوئلوں کی انگیٹھی پہ روٹی خود پکاتی تھیں اور اس کے بھوبل میں شکر قندیاںدبا دی جاتی تھیں، گھنٹے دو گھنٹے بعد جب آہستہ آہستہ ان کی خوشبو پھوٹنے لگتی تھی تو انھیں نکال لیاجاتا تھا اور گرم گرم کھایاجاتا تھا۔ یہ سب دادی کی نگرانی میں ہوتا تھا، اپنی دادی کو میں نے کبھی کام کرتے نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ اپنے رنگین پایوں والے نواڑی پلنگ پر بیٹھی رہتی تھیں، صوفے پہ بیٹھنا انھیں قطعی ناپسند تھا ، میری والدہ ہر کام ان سے پوچھ کر اور ان کی مرضی کے مطابق کرتی تھیں، میری والدہ کی زندگی تک کوئلوں کی انگیٹھی ہمارے گھر کا حصہ رہی۔

ہاں تو میں بتارہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کا ایک مشورہ یہ بھی تھا کہ بھاڑ کے بھنے ہوئے کالے چنے چھلکوں کے ساتھ ضرور کھائے جائیں یہ بھی طاقت کا منبع ہیں اس کے علاوہ ہاضمے کی درستی اور معدے کی اصلاح کے لیے مختلف پھلوں کی چاٹ بناکر اور نیبو کا رس ڈال کر کھائی جائے، کھجور غیر معمولی طورپر توانائی بحال کرتی ہے دو چار کھجوریں ناشتے میں یا اس کے بعد کھانے سے جسمانی کمزوری نہیں ہوتی اور کسی وٹامن کی ضرورت نہیں پڑتی، ساتھ ہی انھوںنے شملہ مرچ اور ہری پیاز کو کھانوں میں استعمال کرنے کا مشورہ دیا، شملہ مرچ تو سلاد کے ساتھ بھی بہت اچھی لگتی ہے۔

البتہ ہری پیاز کی آل کو باریک باریک کاٹ کر آپ سلاد میں بھی شامل کرسکتے ہیں اور مختلف سبزیوں کے ساتھ بھی ملاکر پکاسکتے ہیں، البتہ چقندر کو انھوںنے کچا کھانے سے منع کیا ہے۔ ہاں اس کو گوشت یا سبزی کے ساتھ پکا کرکھانا زیادہ مفید ہے اس کے علاوہ انھوںنے روز مرہ کے معمولات میں سونف کو شامل کرنے کا بھی مشورہ دیا، یعنی کھانے کی میز پرگڑ، تل کے ساتھ سونف بھی ہمیشہ ایک پیالی میں رکھی ہونی چاہیے چلتے پھرتے اس کا بھی ایک ایک چمچہ دن بھر میں ایک دو بار ڈال لینا چاہیے اور چلتے چلتے آخری بات یہ کہ کھانے میں روزانہ املی اور پودینے کی چٹنی ضرور شامل ہونی چاہیے۔

مرچ کوئی سی بھی ڈال لیں ہری یا لال یہ آپ پر منحصر ہے، ذائقہ دونوں ہی کا اچھا ہوتاہے ساتھ ہی تازہ پودینے کی پتیاں کھانے کے دوران چباکر کھانے سے نہ صرف ہاضمہ اچھا رہتاہے، بھوک خوب کھل کر لگتی ہے بلکہ منہ کی بدبو بھی دور ہوجاتی ہے، ڈاکٹر صاحب جو نسخے اور غذائی احتیاط بتاتے ہیں ان سے میں تو بچپن سے واقف ہوں۔ اس لیے ان کی اہمیت سے بھی واقف ہوں، شاید اس لیے کہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی پروردہ ہوں، جہاں بزرگوں کی باتوں پہ عمل کرنا اور ان کا حکم ماننا تہذیب کی علامت تھی کیونکہ یہ خاندانی ورثہ تھا۔

تہذیبی ورثہ نسل درنسل منتقل ہوتاہے ہم نے اپنی ماں کو دادی کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا، وہ جو کہہ دیتی تھیں وہ میرے والدین کے لیے حرف آخر ہوتا تھا ہم بہن بھائیوں تک بھی یہی ورثہ پہنچا، میں باوجود اپنی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مصروف رہنے کے دیکھتی تھی کہ میری ماں کن کن گھریلو نسخوں سے اپنے پوتا، پوتی کا علاج کرتی تھیں، ہماری فیملی کی ہیلتھ قابل رشک تھی کیونکہ بہت ہی کم اتفاق ہوتا تھا ڈاکٹروں تک جانے کا۔ دادی اور امی غذا کا اتنا خیال رکھتی تھیں کہ کوئی بھی سوائے موسمی بخار یا نزلہ زکام کے کبھی کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا، یہ سب میرے لاشعور میں تھا میں نے اپنے بیٹے کو بھی تیز دوائوں سے دور رکھا اور کھانسی، نزلہ زکام یا پیٹ کے امراض کے لیے ہمیشہ وہی نسخے استعمال کیے جو مجھے دادی اور ماں سے منتقل ہوئے تھے اور یہ ورثہ میں نے بڑی محنت سے اپنے بیٹے اور بہو کو منتقل کردیا ہے تاکہ اگلی نسلیں صحت مند اور تندرست رہیں۔
Load Next Story