ہم کہاں کھڑے ہیں بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں

یوں کہئے کہ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ’’پیڑا‘‘ ہوتا ہے جسے لگانے کے لیے کسی تندور کی تلاش میں رہتا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq March 20, 2013
[email protected]

ایک عرصہ ہوا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے نہ سوال اٹھایا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں یا بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں، چوں کہ آج کل کالم نگاران کرام اور اینکران عظام دوسرے ضروری معاملات میں زیادہ بزی ہیں اس لیے ہم ہی ان سوالات کو اٹھانے بلکہ دہرانے کی سعی کرتے ہیں اور چوں کہ ہمیں خود پر اور اتنے پاکستانیوں پر مکمل بھروسہ ہے اس لیے یہ سعی بھی پہلے کی طرح لاحاصل ہی جائے گی لیکن عادت بھی تو کوئی چیز ہے اور پھر پاکستانی ہونے کے ناتے ہم چپ بھی تو نہیں رہ سکتے، یک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔

وہ ایک شخص ریل میں سفر کر رہا تھا اس کے پیچھے والی سیٹ پر دو سردار جی بیٹھے ہوئے گپ شپ کر رہے تھے۔ ایک سردار جی نے پوچھا، سردار جی آپ کہاں کے ہیں دوسرے نے کہا امرتسر ... اس پر پہلے والے نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کمال ہے میں بھی امرتسر کا ہوں، ویسے آپ رہتے کہاں ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ گولڈن ٹیمپل کے قریب... ارے دوسرا چلایا میں بھی گولڈن ٹیمپل ہی کے پاس رہتا ہوں، محلہ کون سا ہے۔ جواب ملا، ارے کمال ہے اسی محلے میں تو میں بھی رہتا ہوں ...گلی کون سی ہے؟ دوسرے نے بتایا پھولوں والی گلی ... اس پر دوسرا اچھلتے ہوئے بولا اسی گلی میں تو میرا بھی گھر ہے، اچھا یہ بتاؤ مکان کون سا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، مکان نمبر 12 جس میں ایک بڑا سا شیشم کا پیڑ ہے۔

اب دوسرا سردار اچھلا، بولا ہاتھ ملا گرو میں بھی اسی مکان میں رہتا ہوں۔ اگلی سیٹ والے مسافر سے رہا نہیں گیا بولا کیا زمانہ آگیا ہے لوگ ایک ہی شہر ایک ہی محلے ایک ہی گلی اور ایک ہی مکان میں رہتے ہیں ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ ایک سردار جی نے پلٹ کر کہا بھائی کیوں نہیں جانتے ہم دونوں تو بھائی ہیں ویسے ہی ٹائم پاس کے لیے گپ شپ کر رہے تھے۔

یہ جو ہم کہاں کھڑے ہیں بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں ... جیسے سوالات ہیں ان کا بھی سب کو جواب معلوم ہے اور جانتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں بیٹھے ہیں یا لیٹے ہیں، لیکن کچھ نہ کچھ کہتے رہنے اور بولتے رہنے کے لیے بھی کوئی موضوع چاہیے ہوتا ہے، ویسے بھی پاکستانیوں میں خدا نے بولنے، بولتے رہنے اور بولتے ہی رہنے کی بے پناہ صلاحیتیں بھری ہیں کیوں کہ لہو گرم رکھنے کا اس سے بہترین کم خرچ اور بالانشین طریقہ آج تک دریافت نہیں ہوا، چناں چہ عوام بول رہے ہیں خواص بول رہے ہیں علماء بول رہے ہیں فضلا بول رہے ہیں اور لیڈر تو بولنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور ''بولنے'' ہی کا دیا کھاتے ہیں۔

جہاں تک سننے والوں کا تعلق ہے تو ہمیں گونگوں کی پوری تعداد کا علم نہیں ہے لیکن جتنے بھی ہیں وہی صرف سننے والے ہیں وہ بھی اگر بہرے نہ ہوں، گویا پورے ملک میں دو چار سو ہی لوگ ایسے ہوں گے جو صرف سننے والے ہوں گے باقی ایں خانہ ھمہ آفتاب است بلکہ ھمہ زباں است، اب ایسے میں ظاہر ہے کہ ''بولنا'' بھی ہار مان لیتا ہے آخر بولنے کی بھی حد ہوتی ہے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بولنے والے سوالات پر اتر آتے ہیں۔

یوں کہئے کہ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ''پیڑا'' ہوتا ہے جسے لگانے کے لیے کسی تندور کی تلاش میں رہتا ہے مثلاً ... ہم کہاں کھڑے ہیں ہم کہاں جا رہے ہیں ہم کہاں بیٹھے ہیں ... ہم میں برداشت کیوں نہیں ہے، ہم میں عقل کیوں نہیں ہے، ہم میں یہ کیوں نہیں ہم میں وہ کیوں نہیں حتیٰ کہ کچھ تو یہاں تک کہہ ڈالتے ہیں کہ ہم میں ہم کیوں نہیں ہیں اور یہاں پر ان تمام سوالات کی ''ماں'' جلوہ گر ہو جاتی ہے یعنی یہ کہ یہ ''ہم'' آخر کون ہیں ؟ یا ہے؟، اس ہم کی تلاش میں ہم نے تحقیق کے بہت گھوڑے دوڑائے کھوجی لگائے، جاسوس چھوڑے لیکن کہیں اس کا کوئی سراغ نہیں ملا، جنگ نامہ حضرت امام حسین ؓ میں ایک شعر ہے جس کا اصل لطف تو پشتو میں آتا ہے لیکن مفہوم اردو میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے، لکھا ہے

د یزید چرتہ معلومہ نہ شوہ پتہ

ڈیرتکل ورپسے اوشو پورتہ خکتہ

ترجمہ : یزید کا کہیں پتہ نہیں چلا حالاں کہ ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی گئی اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے۔ اس ہم کی ''تلاش'' بھی کسی طرح بارآور نہ ہو سکی ہماری ساری کوششیں

تھک تھک کر ہر مقام پر دو چار ''گر گئیں''

تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں

''ہم'' کو کہیں تلاش نہ کیا جا سکا سوچا یہ بھی کوئی ''عنقا'' قسم کی چیز ہے جس کا نام تو ہے لیکن وجود نہیں ہے یعنی ''بو'' ہے اور آدم نہیں ہے، پھر حسب معمول ہر طرف سے مایوس ہو کر پیر و مرشد کا سہارا لیا تو قائل ہونا پڑا کہ حضرت غالب کتنے بڑے پیش گو تھے وہ پہلے ہی جانتے تھے کہ کسی زمانے میں یہ ناہنجار ''ہم'' کچھ ایسا ہی فتنہ کرے گا چناں چہ فرما گئے کہ

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جیسے غالب نے ''ہم'' کے پردے میں اپنے ''ہم'' کا ذکر کیا ہے کیوں کہ واقعاتی طور پر ایسا ہو نہیں سکتا کوئی اپنے بارے میں کیسے کہہ سکتا ہے کہ مجھے اپنے ویر اباؤٹ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں کیوں کہ نہ تو غالب کی کبھی یادداشت گم ہوئی تھی جو وہ یہ سوال کرتے اور نہ ہی کسی نے ان کو اغواء کر کے آنکھوں پر پٹی باندھی تھی اور کسی اجنبی جگہ یرغمال رکھا ہوا تھا۔ اصل میں یہ شعر غالب نے اپنے لیے کہا ہی نہیں ہے بلکہ آیندہ آنے والے زمانے کی ایک جھلک دکھائی ہے ۔ ان کے اکثر اشعار پیش گوئیاں ہی ہیں مثلا سیاسی لیڈروں اور فلمی ستاروں کے بارے میں بھی وہ پیشن گوئی کر چکے ہیں کہ

ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا

کچھ خاص قسم کے صحافیوں کے بارے میں فرما چکے ہیں کہ

مگر لکھوائے کوئی ان کو خط تو ہم سے لکھوائے

ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

کچھ شارحین کا کہنا ہے کہ اس شعر میں کتابت کی غلطی ہوئی ہے ''کان'' اصل میں ''کاندھا'' ہے اور قلم سے مراد ''فلم'' یا کیمرہ ہے کچھ اور لوگوں کے بارے میں کہا ہے

بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

چناں چہ یہ ''ہم'' بھی دراصل ایک پیشن گوئی ہے کہ ایک زمانے میں لوگ بچے کو بغل میں دبا کر شہر شہر ڈھنڈورا پیٹتے پھریں گے کہ بچہ کہاں ہے اور ہم کہہ کہہ کر ''ہم'' کو ڈھونڈیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں