ان ہاتھوں کا امتحان نہ لو…
کراچی کو گزشتہ کئی برسوں سے ایک سازش کے تحت آگ و خون میں نہلایا جا رہا ہے۔
اُس سڑک پر گاڑی موڑتے ہی فضا میں بسی بارود کی بو سے سانس لینا دشوار ہو گیا تھا۔ گاڑی رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی تھی۔ وحشت کا یہ عالم تھا جیسے پُل صراط پر چلنے کے لیے کمر بستہ ہوں۔ آس پاس کی عمارتیں بہت دور سے ہی سیاہ نظر آنا شروع ہو گئی تھیں۔ بچوں کی چیخ و پکار سے دل دہل رہا تھا، نوجوان لڑکیاں ننگے پیر ننگے سر آہ وزاری کرتی نظر آئیں۔ کوئی کسی لاش کے سرہانے چپ چاپ بیٹھا ہے، تو کوئی اپنے خوبصورت آشیانے کو خاک ہوتا دیکھ کر دھاڑیں مار رہا ہے۔
ایک نوجوان اپنی شریک حیات کی لاش ہاتھوں میں اُٹھائے یہاں وہاں بھاگ رہا ہے کہ اسے دیکھو! شاید یہ بچ جائے، شاید یہ سانس لینے لگے۔ لیکن نہیں اُس کی سانس تو بند ہو چکی تھی۔ ایک لمحے کے لیے خیال آیا کہ قیامت ایسی ہی ہو گی۔
نہ یہ فلسطین ہے، نہ غزہ، نہ شام، افغانستان اور عراق بھی نہیں۔ یہ مملکتِ خداداد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے عباس ٹائون میں برپا ہونے والی قیامت کا منظر ہے۔ بظاہر یہ آزاد فضاء ہے۔ کوئی دشمن دور دور تک نظر ہی نہیں آتا، لیکن روز لوگ مارے جاتے ہیں جیسے چپ چاپ طاعون کی بیماری لوگوں کو کھا رہی ہو۔
کراچی کو گزشتہ کئی برسوں سے ایک سازش کے تحت آگ و خون میں نہلایا جا رہا ہے۔ یہاں کے معصوم عوام کو، جن میں خواتین، بزرگ، نوجوان، حتیٰ کہ معصوم و شیر خوار بچے تک شامل ہیں، بے دری سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس نوعیت کا تازہ واقعہ رواں ماہ میں ہوا، ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع عباس ٹاؤن بم دھماکے سے لرز اُٹھا، جس میں 50 سے زاید افراد منٹو ں میں لقمۂ اجل بن گئے اور 150کے قریب شدید زخمی ہوئے۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ قریبی عمارتوں میں بھی آگ لگ گئی اور دکانوں سمیت دیگر املا ک کو نقصان پہنچا۔ دہشت گردی کے اس واقعے کے متاثرین اس بات پر بھی مشتعل تھے کہ کوئی حکومتی نمایندہ ان کی مدد تو کجا تعزیت تک کے لیے نہیں آیا۔
بہرحال، سانحہ عباس ٹاؤن کے بعد بھی حسب روایت حکومت نے ایک بار پھر متاثرین کی مالی مدد کا وعدہ اور اعلانات کیے۔ دہشت گردی کے منڈلاتے بادلوں نے سندھ او ر خصوصاً کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہمارے سیاست داں اور حکمراں سیاست بازی کے چکروں ہی سے نکل نہیں پا رہے۔ متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے وہ ایک دوسرے پر الزامات لگاکر بری الذمہ ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ ایسے ناسازگار حالات میں اس طرح کی بیان بازی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو مرنے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے حکومت کی جانب سے امداد کا اعلان تو کیا جاتا ہے، لیکن عموماً امداد کی رقم ان کو نہیں مل پاتی۔ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ اپنے اطراف بہت سے الم ناک اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ جانی و مالی نقصان تو اپنی جگہ، لیکن ایسے روح فرسا واقعے کے اثرات سے متاثرین کا باہر آنا تادیر ممکن نہیں ہوتا، اور کبھی تو ان اثرات میں سلگتے عمر بیت جاتی ہے۔
دہشت گردی دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو، اس کی روک تھام اور اس کا سدباب خالصتاً ریاست کی بنیادی اور اولین ذمے داری ہو تی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اور روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے واقعات کے اسباب کا تعین کر نا بھی ریاست کی ذمے داری ہے۔ دہشت گردی کے واقعے کے بعد اس سے متاثر ہو نے والے افراد کو فوری طور پر اس کے اثرات سے نکالنے کے لیے ہر حکومت متاثرین کا مالی نقصان پورا کرنے اور امداد اعلان کر تی ہے، مگر یہ امداد ملے گی یا نہیں اور ملے گی تو کب تک؟ اس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔
زیادہ پرانی بات نہیں جب کراچی کے علاقے پی آئی ڈی سی کے قریب واقع سی آئی ڈی سینٹر کی عمارت میں زور دار دھماکا ہوا، جس میں پولیس اہل کاروں سمیت کئی افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ دھماکے سے پوری عمارت زمین بوس ہو گئی، جب کہ آس پاس کی عمارتوں اور خصوصاً سی آئی ڈی سینٹر عمارت کے بالکل سامنے واقع مدینہ بستی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ حسب روایت حکومت نے نہ صرف اس واقعے میں زخمی اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے امداد کا اعلان کیا، بلکہ مدینہ بستی کے زمین بوس ہو نے والے مکانات کی مکمل تعمیر کا وعدہ بھی کیا اور وزیر اعلٰی سندھ قائم علی شاہ نے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے ساتھ دھماکے کی جگہ کا دورہ کیا اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کو مکمل امداد کی کی یقین دہانی کرائی۔
سی آئی ڈی کے سانحے کے بعد حکومتِ سندھ کی جانب سے جاں بحق ہونے والے ایف سی اور پولیس اہل کاروں کے لواحقین کے لیے بیس بیس لاکھ روپے فی کس اور پلاٹ دینے جب کہ اس سانحے میں زندگی سے محروم ہوجانے والے شہریوں کے لواحقین کے لیے پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ شدید زخمی ہونے والوں کو پچاس پچاس ہزار روپے فی کس اور گرنے والے گھروں کی تعمیر کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا گیا، لیکن کیا شہریوں کے لواحقین اور مالی نقصان اٹھانے والوں کو حکومتی امداد ملی؟ یہ تو ایک واقعہ ہے ایسے کئی واقعات ہیں جن میں دہشت گردی کا شکار یا کسی تباہی سے متاثر ہونے والے عام افراد کے لیے حکومتی امداد کا اعلان تو کیا گیا، لیکن عموماً ایسا ہوا نہیں۔
دہشت گردی کے واقعات ہوں یا بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں ہونے والی قیامت خیز آتش زدگی اور تباہی اور ہلاکت کے دیگر سانحے، ان میں متاثرین اپنوں کو کھو دینے کے ساتھ بعض اوقات اپنے معاشی وسیلے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے سانحات میں گھر کی کفالت کرنے والا جان سے گزر جائے تو متاثرہ گھرانے پر غم کا پہاڑ ٹوٹنے کے ساتھ اسے معاشی مسائل کا طوفان بھی آ گھیرتا ہے۔ ایسے میں متاثرین کو امداد سے محروم رکھنا یا انھیں امداد کے لیے ترسانا خود ایک ظلم ہے۔ اس نوعیت کی امداد احسان نہیں، انسانی زندگی کا مداوا نہیں، یہ ریاست کی عدم کارکردگی کا ہرجانہ ہے۔
اگر ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے تو کم از کم متاثرین کی اشک شوئی اور ان کے مالی نقصان کے ازالے سے تو گریز اور اس میں تاخیر نہ کریں۔ روز اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے پاکستانیوں کے ہاتھ شل ہو چکے ہیں، ایسے میں ان کے ہاتھوں کو امداد سے بھی محروم یا اس کا منتظر رکھ کر حکمراں ان ہاتھوں کا امتحان کیوں لیتے ہیں؟