عالمی یوم آب … پاکستان کی سنگین صورت حال
ترقی پذیر ممالک میں بسنے والے 1.1 ارب افراد صاف پانی تک رسائی نہیں رکھتے۔
BEVERLY HILLS, CALIFORNIA:
21 مارچ 1992ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات اور ترقی (UNCED) کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں پانی کا عالمی دن منانے کی منظوری دی گئی جس کے بعد 1993ء سے ہر سال 22 مارچ کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد پینے کے صاف پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کے وسائل کے پائیدار انتظام کی حمایت کرنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال اقوام متحدہ ''آبی تعاون کا بین الاقوامی سال'' کے طور پر منا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی جانب سے 1999ء میں ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے دو بڑے خطوں میں سے ایک مسئلہ پانی کی کمیابی ہے جس کے باعث تیسری عالمی جنگ ہو سکتی ہے۔ جب کہ دوسرا بڑا مسئلہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو بتایا گیا تھا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں دنیا کے 50 ملکوں کے 200 سائنسدانوں نے حصہ لیا تھا۔
کرۂ ارض پر موجود صاف پانی کے ذخائر میں جس تیزی سے کمی ہو رہی ہے اس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی اداروں کے جائزوں کے مطابق گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا کے شہروں میں 114 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے جن کے گھروں یا نزدیک میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ جائزوں کے مطابق گندا پانی پینے والوں کی تعداد دنیا بھر میں 80 کروڑ کے لگ بھگ ہے، 1200 ملین لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے شہری روزانہ 350 سے 1000 لیٹر پانی فی کس کے حساب سے استعمال کرتے ہیں۔
دوسری جانب غریب ملکوں کے رہائشی 20 سے 70 لیٹر پانی روزانہ استعمال کرپاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بسنے والے 1.1 ارب افراد صاف پانی تک رسائی نہیں رکھتے۔ 2025ء تک دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ لوگ ان ملکوں یا ان علاقوں میں رہائش پذیر ہوں گے جہاں پانی مکمل طور پر نایاب ہو گا۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث مستقبل میں دنیا کو پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہو گا جس کے باعث افریقہ، ایشیا اور دنیا کے بعض علاقوں میں جنگیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں پانی کے حوالے سے مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں کے خطرات سے بچنے کے لیے امریکا کی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں زور دیا ہے کہ دونوں ممالک پانی کی سپلائی بڑھانے کی کوشش کرنے کے بجائے پانی کی بچت کریں۔
پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ہونے والے 17 ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی کی شرح خطرے کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پانی کی دستیابی کی فی کس شرح 5600 کیوبک میٹر تھی جو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کے ناپائیدار استعمال کی وجہ سے گھٹ کر ایک ہزار کیوبک میٹر تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ شرح 2025ء تک 800 کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی جس کے نتیجے میں خوراک سے لے کر صنعتوں اور عام آدمی کے لیے پینے کے پانی کی عدم دستیابی ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پانی کی دستیابی انتہائی ناگزیر ہے۔
ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی غذائی طلب کو مسلسل بڑھا رہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک کی صرف 18 فیصد آبادی کو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ ہم اپنے پانی کو محفوظ کرنے کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1976ء کے بعد سے اب تک ہم پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی بھی اہم آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کر سکے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے تینوں اہم اور بڑے ذخائر (تربیلا، منگلا اور چشمہ) میں پانی کی گنجائش میں 83 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
جب کہ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے تینوں بڑے ذخائر کی اصل گنجائش ایک کروڑ 75 لاکھ 50 ہزار ایکڑ فٹ تھی جو گھٹ کر ایک کروڑ 21 لاکھ 30 ہزار ایکڑ فٹ ہو چکی ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ مالیاتی رپورٹ 2012ء میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کر گئی ہے جس کے لیے نئے آبی ذخائر بنانا ضروری ہو گیا ہے ورنہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے اپنے آبی وسائل کا 90 فیصد زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریائوں کے بہائو میں مسلسل کمی آ رہی ہے جب کہ ہمارے پانی کا بڑا حصہ عمر رسیدہ اور بوسیدہ نہری نظام کی وجہ سے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال کے بارے میں وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز واشنگٹن میں جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا پروگرام کے تحقیق کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اب پاکستان کی آبادی اور زراعت کا انحصار زیادہ تر صرف ایک دریا پر ہی ہے جب کہ پانی کی کمی سے متاثر ہونے والے زرعی نظام کے اثرات رفتہ رفتہ پاکستان میں خوراک کی صورت حال کو مزید خراب کریں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمارے لیے ایسی فصلوں کی کاشت کرنا ممکن نہیں رہے گا جن میں بے تحاشا پانی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گندم (ایک کلو 1500 لیٹر) ، چاول (ایک کلو 2500 لیٹر) ایک کلو چینی (16 ہزار لیٹر پانی) اور گنا جیسی فصلیں شامل ہیں۔ جب کہ پانی کی شدید قلت کے پیش نظر اب ہمیں اپنی غذائوں میں بھی توازن پیدا کرنا ہو گا۔
ایک اندازے کے مطابق ہم تقریباً 30 لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی جھیلوں، چشموں اور ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا قدرتی آبی ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ میٹھے پانی کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں اس کو روکنے کے لیے صرف جنگلات ہیں جو نہ صر ف پانی کے قدرتی ذخائر کو صاف رکھتے ہیں بلکہ برف باری اور بارشوں کے بعد پانی کی کیفیت کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔
ملک میں آمرانہ اور غیر جمہوری حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے آبی ماہرین نے بھی اس اہم ترین مسئلے پر ملک کی چاروں وفاقی اکائیوں کو باہم دست و گریباں کیے رکھا۔ بھارت ہمارا پانی روک رہا ہے اور چاروں صوبے ایک دوسرے کا پانی چوری کر رہے ہیں جیسے تصورات کو فروغ دینے والے طبقات اور ماہرین آج تک قوم کو پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے کوئی بھی ایسا منصوبہ نہیں دے سکے جس سے اس ملک کے پانی کے مسائل حل ہوتے اور عوام اس کے فوائد سے مستفید ہوتے۔
21 مارچ 1992ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات اور ترقی (UNCED) کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں پانی کا عالمی دن منانے کی منظوری دی گئی جس کے بعد 1993ء سے ہر سال 22 مارچ کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد پینے کے صاف پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس کے وسائل کے پائیدار انتظام کی حمایت کرنا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال اقوام متحدہ ''آبی تعاون کا بین الاقوامی سال'' کے طور پر منا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی جانب سے 1999ء میں ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے دو بڑے خطوں میں سے ایک مسئلہ پانی کی کمیابی ہے جس کے باعث تیسری عالمی جنگ ہو سکتی ہے۔ جب کہ دوسرا بڑا مسئلہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کو بتایا گیا تھا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں دنیا کے 50 ملکوں کے 200 سائنسدانوں نے حصہ لیا تھا۔
کرۂ ارض پر موجود صاف پانی کے ذخائر میں جس تیزی سے کمی ہو رہی ہے اس نے دنیا بھر کی حکومتوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی اداروں کے جائزوں کے مطابق گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا کے شہروں میں 114 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے جن کے گھروں یا نزدیک میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ جائزوں کے مطابق گندا پانی پینے والوں کی تعداد دنیا بھر میں 80 کروڑ کے لگ بھگ ہے، 1200 ملین لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے شہری روزانہ 350 سے 1000 لیٹر پانی فی کس کے حساب سے استعمال کرتے ہیں۔
دوسری جانب غریب ملکوں کے رہائشی 20 سے 70 لیٹر پانی روزانہ استعمال کرپاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بسنے والے 1.1 ارب افراد صاف پانی تک رسائی نہیں رکھتے۔ 2025ء تک دنیا کے ایک ارب 80 کروڑ لوگ ان ملکوں یا ان علاقوں میں رہائش پذیر ہوں گے جہاں پانی مکمل طور پر نایاب ہو گا۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث مستقبل میں دنیا کو پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہو گا جس کے باعث افریقہ، ایشیا اور دنیا کے بعض علاقوں میں جنگیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں پانی کے حوالے سے مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں کے خطرات سے بچنے کے لیے امریکا کی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں زور دیا ہے کہ دونوں ممالک پانی کی سپلائی بڑھانے کی کوشش کرنے کے بجائے پانی کی بچت کریں۔
پاکستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ہونے والے 17 ملکوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پانی کی فی کس دستیابی کی شرح خطرے کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پانی کی دستیابی کی فی کس شرح 5600 کیوبک میٹر تھی جو تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کے ناپائیدار استعمال کی وجہ سے گھٹ کر ایک ہزار کیوبک میٹر تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے یہ شرح 2025ء تک 800 کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی جس کے نتیجے میں خوراک سے لے کر صنعتوں اور عام آدمی کے لیے پینے کے پانی کی عدم دستیابی ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پانی کی دستیابی انتہائی ناگزیر ہے۔
ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی غذائی طلب کو مسلسل بڑھا رہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک کی صرف 18 فیصد آبادی کو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ ہم اپنے پانی کو محفوظ کرنے کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1976ء کے بعد سے اب تک ہم پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی بھی اہم آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کر سکے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے تینوں اہم اور بڑے ذخائر (تربیلا، منگلا اور چشمہ) میں پانی کی گنجائش میں 83 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
جب کہ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے تینوں بڑے ذخائر کی اصل گنجائش ایک کروڑ 75 لاکھ 50 ہزار ایکڑ فٹ تھی جو گھٹ کر ایک کروڑ 21 لاکھ 30 ہزار ایکڑ فٹ ہو چکی ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ مالیاتی رپورٹ 2012ء میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کر گئی ہے جس کے لیے نئے آبی ذخائر بنانا ضروری ہو گیا ہے ورنہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کی وجہ سے اپنے آبی وسائل کا 90 فیصد زرعی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریائوں کے بہائو میں مسلسل کمی آ رہی ہے جب کہ ہمارے پانی کا بڑا حصہ عمر رسیدہ اور بوسیدہ نہری نظام کی وجہ سے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضایع ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال کے بارے میں وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز واشنگٹن میں جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا پروگرام کے تحقیق کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اب پاکستان کی آبادی اور زراعت کا انحصار زیادہ تر صرف ایک دریا پر ہی ہے جب کہ پانی کی کمی سے متاثر ہونے والے زرعی نظام کے اثرات رفتہ رفتہ پاکستان میں خوراک کی صورت حال کو مزید خراب کریں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمارے لیے ایسی فصلوں کی کاشت کرنا ممکن نہیں رہے گا جن میں بے تحاشا پانی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گندم (ایک کلو 1500 لیٹر) ، چاول (ایک کلو 2500 لیٹر) ایک کلو چینی (16 ہزار لیٹر پانی) اور گنا جیسی فصلیں شامل ہیں۔ جب کہ پانی کی شدید قلت کے پیش نظر اب ہمیں اپنی غذائوں میں بھی توازن پیدا کرنا ہو گا۔
ایک اندازے کے مطابق ہم تقریباً 30 لاکھ ایکڑ فٹ استعمال شدہ پانی جھیلوں، چشموں اور ندی نالوں میں بہا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا قدرتی آبی ماحول تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں جس تیزی کے ساتھ میٹھے پانی کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں اس کو روکنے کے لیے صرف جنگلات ہیں جو نہ صر ف پانی کے قدرتی ذخائر کو صاف رکھتے ہیں بلکہ برف باری اور بارشوں کے بعد پانی کی کیفیت کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔
ملک میں آمرانہ اور غیر جمہوری حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے آبی ماہرین نے بھی اس اہم ترین مسئلے پر ملک کی چاروں وفاقی اکائیوں کو باہم دست و گریباں کیے رکھا۔ بھارت ہمارا پانی روک رہا ہے اور چاروں صوبے ایک دوسرے کا پانی چوری کر رہے ہیں جیسے تصورات کو فروغ دینے والے طبقات اور ماہرین آج تک قوم کو پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے کوئی بھی ایسا منصوبہ نہیں دے سکے جس سے اس ملک کے پانی کے مسائل حل ہوتے اور عوام اس کے فوائد سے مستفید ہوتے۔