روبوٹ کی دنیا‘ دنیا کے روبوٹ

آج کا سائنس فکشن ہمارا کل ہے۔ کل کسی نے نہیں دیکھا۔


Shaikh Jabir March 20, 2013
[email protected]

ساری دنیا پر مشینوں کی حکومت ہے، مشینوں نے حضرت انسان کو خلافت ارض کے منصب سے معزول کر دیا ہے۔ مشینیں کچھ عرصہ قبل تک انسانوں کی خادم ہوا کرتی تھیں۔ اب معاملہ اس کے برعکس ہو گیا ہے۔ اب انسان مشینوں کی خدمت اور غلامی میں مصروف ہیں۔ مصنوعی ذہانت جس کا استعمال انسانوں نے اپنی سہولت کے لیے شروع کیا تھا۔ اس ذہانت نے بڑھ کر خود اپنے خالق کو نگل لیا۔ مصنوعی ذہانت یا ''آرٹی فیشل انٹیلی جنس'' نے روبوٹس یا مشینوں کو رفتہ رفتہ ذہین بنانا شروع کیا۔

دھیرے دھیرے یہ ذہانت اتنی بڑھی کہ ایک ذہین ترین مشین نے اپنے مالک یعنی انسانوں کو مالک تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ مشین دیگر مشینوں کے ساتھ مل کر قوت جمع کرتی ہے اور رفتہ رفتہ دنیا پر اپنی حکومت قائم کر لیتی ہے۔ انسانوں کو اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ ایسے میں ہیرو ہیروئن حرکت میں آتے ہیں۔ وہ ادھم پچھاڑ ہوتی ہے کہ الامان۔ آخر کار ذہین ترین، طاقت ور ترین مشینوں کے قبضے سے انسان حکومت واپس لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سائنس فکشن کی ایسی کہانیاں، ناول فلمیں اور ویڈیو گیم اب عام سی بات ہیں۔

کل کا جادو آج کی سائنس ہے۔ آج کا سائنس فکشن ہمارا کل ہے۔ کل کسی نے نہیں دیکھا۔ مستقبل کے پردوں میں ہمارے لیے کیا کیا چھپا ہے کوئی نہیں جانتا۔ دور جدید میں مشینوں کا استعمال جس تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور خطرناک بھی۔ آج روبوٹ یا مشینیں جس تیز رفتاری سے ہماری دنیا میں داخل ہوتے جا رہے ہیں وہ صرف 20 برس قبل تک ناقابل تصور تھا۔ روبوٹس کا استعمال وقت، پیسہ اور توانائی بچانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ اب یہ ہمارے لیے طبی خدمات، سماجی خدمات اور طرز زندگی کو بلند کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

آج مصنوعی ذہانت سے لیس ایسی مشینیں ایجاد کر لی گئی ہیں جو انسانوں کے کئی آپریشن جزوی طور پر نہایت صفائی سے کرنے کی صلاحیت کی حامل ہیں۔ کمپیوٹر اور انجینئرنگ کے امتزاج سے ایسے روبوٹ تیار کر لیے گئے ہیں جو آپ کے گھر اور گٹر کی صفائی سے لے کر آپ کے گھر کا کھانا آپ کی مرضی کے عین موافق تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ روبوٹس ہیں جو مختلف حکومتی اداروں سے منظور شدہ ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی ادارے ''ایف ڈی اے'' (جو عوام کے طبی معاملات کا کڑا نگران ہے) نے ایسے روبوٹس کے استعمال کی اجازت دے دی ہے جو ڈاکٹروں کی مدد کریں گے۔

یہ براہ راست مریضوں سے رابطے میں رہ کر ڈاکٹرز کو مختلف معلومات مہیا کرتے ہیں۔ انھیں فیصلہ کرنے میں آسانی فراہم کرتے ہیں۔ مریضوں سے معلومات حاصل کرنے والے ان روبوٹس میں اسٹیتھو اسکوپ، بلڈ پریشر چیک کرنے سے لے کر ''الٹرا ساؤنڈ'' اور ایکس رے تک لگے ہوئے ہیں۔ ایسی مشینیں بنانے والی کمپنیوں کا اصرار ہے کہ مہیا کی گئی معلومات درست اور قابل بھروسہ ہوتی ہیں۔ ڈرون کا استعمال تو ہمارے سامنے کی بات ہے۔ جاسوس طیاروں سے لے کر بم باری کرنے والے ڈرون تک جس جس طریقے سے کام کر رہے ہیں وہ حیرت ناک کم اور خطرناک زیادہ ہے۔

بچوں کے استعمال کے لیے ایسے چھوٹے چھوٹے ہیلی کاپٹر اور طیارے بنائے جا رہے ہیں۔ جنھیں گھر کے اندر یا کسی میدان میں بچے، بڑے باآسانی اڑا سکتے ہیں۔ اس طرح کے تفریحی مقاصد سے ہٹ کر کمپنیاں اب ایسے خفیہ جاسوسی طیارے بھی بنا کر دے رہی ہیں جو آپ کے پڑوسی کے یا جس فرد کی نگرانی اور جاسوسی کرنی ہو اس کے گھر کی بالائی فضا میں نہایت خاموشی سے گھنٹوں ایستادہ رہ کر کیمرے کے ذریعے تصاویر اور فلمیں آپ تک مسلسل پہنچا سکیں گے۔ اگر آس پاس کی فضا میں شور نہیں ہے، یا کم ہے تو یہ مکینوں کی آوازیں بھی کسی درجے تک سننے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔

اس سے ملتے جلتے ماڈل ''پیرٹ اے آر ڈرون 2.0 '' کے نام سے نہ صرف بازار میں بلکہ فروخت کے لیے نیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی ملک کی ''ایوی ایشن اتھارٹیز'' اس طرز کے طیاروں کے استعمال کو غیر قانونی سمجھتی ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کچھ عرصہ قبل تک وائرلیس کا استعمال صرف عسکری مقاصد کے لیے جائز تھا۔ وائرلیس کا عوامی استعمال غیر قانونی اور ممنوع تھا۔ آج قریباً ہر فرد ہاتھ میں موبائل لیے گھوم رہا ہے۔

''تھری ڈی پرنٹنگ'' والے کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ ایسی مشینیں تیار کر لی گئی ہیں جو اپنی ہی جیسی دوسری مشین تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ قطعی طور پر سائنس فکشن جیسی بات ہے۔ اگرچہ ان مشینوں کو ابھی انسان ہی چلا سکتے ہیں۔ یہ خود سے حرکت میں آنے اور کسی بھی قسم کی کارکردگی کے مظاہرے کے لیے انسان کی پابند ہیں اور تو اور ''گوگل'' اس کے برعکس کے آخر تک ایسے چشمے مارکیٹ میں لا رہا ہے جو بجائے خود ایک طرح کا کمپیوٹر یا روبوٹ ہیں۔ ہزار سے پندرہ ڈالر متوقع قیمت کا یہ چشمہ حیرت انگیز ایجاد ثابت ہونے والا ہے۔ یہ محض آپ کے حکم پر چلے گا۔

اگر آپ اپنی ای میل دیکھنا چاہتے ہیں تو بس اسے حکم دیجیے آپ کے سامنے تمام ای میلز ہوں گی۔ آپ کسی ای میل کا جواب دینا چاہتے ہیں اسے حکم دیجیے جواب لکھوائیے یہ جواب لکھ کر املا کی درستی کرے گا اور فوراً بھیج دے گا۔ یہاں تک کہ کسی بھی زبان میں ترجمہ کر کے جواب روانہ کیا جا سکے گا۔ تصویریں کھینچنا، ویڈیو بنانا۔ سب ہی کچھ صرف آپ کے حکم پر۔ بغیر ہاتھ ہلائے۔ چوں کہ اس میں جدید ''اینڈرائڈ'' موجود ہے تو آپ بغیر ہاتھ ہلائے اینڈرائڈ کے تمام تر فوائد تک رسائی رکھیں گے۔ ''گوگل میپ'' کے ذریعے آپ مصنوعی سیاروں سے براہ راست رابطے میں ہوں گے۔

کسی نئی سے نئی منزل تک بغیر رہ نما رسائی آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتی۔ یہ آپ کے تمام گھر والوں اور دوستوں کو آپ سے زیادہ جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔ کسی پر ہجوم مقام پر اگر آپ اپنے کسی دوست یا گھر والے کو شناخت کرنا چاہیں تو یہ لمحوں میں آپ کو تلاش کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ یہ تو اس کے چند فوائد ہیں جو گوگل نے بتائے ہیں۔ بہت کچھ تو اس نے چھپا رکھا ہے۔ اب فرمائیے اس چشمے کو آپ کیا کہیں گے؟ دوست، سیکریٹری، معاون، کمپیوٹر یا روبوٹ؟

امریکا میں ایک رپورٹ کے مطابق ہر برس 30 ہزار افراد روڈ ایکسیڈنٹ میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔ ان حادثوں میں ایک تہائی حادثے نشہ کر کے گاڑی چلانے کی بنا پر ہوتے ہیں۔ وہاں بے شمار افراد نشہ کرتے ہیں۔ اکثر ان کے حواس مختل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں گاڑی چلانا تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ خود بھی مرتے ہیں، دوسروں کی بھی جان کے درپے۔

میرے نزدیک ان مباحث سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ان تمام تر ایجادات سے انسانیت کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ ہر نئی ایجاد کا ہر ہر فائدہ سرمائے کو اور سرمایہ کار کو ہوتا ہے۔ جدید طب کے آنے کے بعد سے لوگ پہلے کی نسبت صحت مند ہوئے ہیں یا آج قریباً ہر فرد بیمار ہے؟ کیا دنیا سے جدید سائنس نے غربت، افلاس، بھوک، قحط اور ہلاکتیں ختم کر دیں؟ یا اس میں اضافہ ہوا ہے؟ مشینوں اور روبوٹس کی آمد احساس کی موت کے علاوہ کچھ نہیں۔

اٹا ہوا ہے زمانوں کی گرد سے عالم

میں دیکھتا ہوں مگر دور تک اندھیرا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔