اسلحہ سے پاک کراچی آخر کس طرح…
بدنصیب شہر قائد میں بدترین خونریزی کے واقعات ایسے ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہے
ISLAMABAD:
ایک ماہر نفسیات نے ذہنی مریضوں کے شفا خانے میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کی دماغی کیفیت کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک نل کے نیچے بالٹی رکھ کر نل کھول دیا گیا، پھر باری باری آنے والے ذہنی مریضوں کو ایک ڈونگا دے کر پانی کی بالٹی خالی کرنے کو کہا۔۔۔ کئی مریض آئے اور چلے گئے۔
ماہر نفسیات بغور ان کا معائنہ کرتا رہا۔ ہر مریض کو ایک مقررہ وقت دیا گیا کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا، آخر کے چند مریضوں میں سے ایک کی جب باری آئی تو اس نے بالٹی کے پانی کو ڈونگے کی مدد سے نکالنے سے پہلے بالٹی کا نل بند کیا، اس کے بعد مقررہ وقت سے پہلے ہی بالٹی کو پانی سے خالی کر دیا۔۔۔! معالج نے اسے شاباش دی اور اسے دماغی لحاظ سے مکمل صحت یابی کی سند بھی عطا کی۔
کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ یا حکایت ہے، لیکن اس کا پیغام نہایت واضح ہے کہ پہلے مسئلے کی جڑ کو پکڑنا چاہیے اور پھر اس کے خاتمے کی کوشش کی جانی چاہیے، تا کہ ایک جانب سے اس کے خاتمے اور دوسری جانب سے اس کے آغاز کا مسلسل سلسلہ جاری نہ رہ سکے اور بالآخر مسئلے سے نجات ملے، لیکن کیا کہیے جس طرح ہمارے ہاں دیگر معاملات میں اسے مدنظر نہیں رکھا جاتا اور نل بند کیے بغیر بالٹی سے پانی نکالنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے بالکل اسی طرح کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی بات ہے۔ پہلے عدالت عظمیٰ بھی اس پر فیصلہ دے چکی ہے اور اب کور کمانڈر کانفرنس میں کراچی میں جاری اہدافی قتل کے نہ تھمنے والے سلسلے پر کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے سے متعلق کہا گیا کہ اب ایسا کرنے کا وقت آ گیا اور سیاسی قوتیں اس پر اتفاق پیدا کریں۔
بدنصیب شہر قائد میں بدترین خونریزی کے واقعات ایسے ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہے، اور لگتا ایسا تھا کہ شاید کوئی انھیں روکنے میں دل چسپی بھی نہیں رکھتا۔
ایسے میں کور کمانڈرز کانفرنس میں روزانہ بے گناہوں کی لاشیں گرنے سے بچانے کے لیے متحرک ہونا بلاشبہ ایک خوش آیند امر ہے ۔ ہمارے معاشرے میں تشدد اور بدامنی کے عنصر میں اضافہ ہونے کے بعد سے مختلف حلقوں سے یہ آواز گاہے بگاہے بلند کی جاتی رہی ہے کہ ہمارے ہاں اسلحے کی فراوانی ہے' اس کا تدارک ہونا چاہیے ۔۔۔پھر موجودہ حالات کے بعد یہ بات مزید بڑھ کر سامنے آئی کہ ''کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے!'' اس موقف کی عدالتی تائید کے بعد اب فوجی قیادت کی طرف سے بھی اس کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے، لیکن بنیادی مسئلہ وہیں موجود ہے کہ پانی کی بالٹی خالی کرنی ہے مگر نل بدستور کھلا ہوا ہے۔۔۔! جی ہاں شہر کو اسلحے سے پاک کرنا ہے مگر اس کی تیاری، آمد اور فروخت کے بارے میں بھی تو کچھ کیا جائے۔ اس طرح کی باتیں ہماری حکومتیں بھی کرتی آئی ہیں کہ آتش بازی پر پابندی' گٹکے' مین پوری اور دیگر مضر صحت منشیات پر پابندی مگر تیاری اور فروخت پر کوئی روک ٹوک موجود نہیں۔
کراچی کی پر آشوب تاریخ کو اٹھا کر دیکھیے۔۔۔ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد یہاں اسلحے کی فراوانی ہوئی۔۔۔ پھر متعدد چھوٹے بڑے آپریشن مختلف اوقات میں جاری رہے۔۔۔ اسلحہ اور جدید ترین اسلحے کی بڑی بڑی کھیپ برآمد ہوئیں مگر کوئی اسلحہ ساز فیکٹری نہ مل سکی جو اس بات کی علامت ہے کہ شہر کو تباہ کرنے کے لیے تمام تر اسلحہ بیرون شہر سے لایا جاتا ہے اس بات کو اور بھی تقویت یوں ملی کہ وقتاً فوقتاً شہر میں دنگا فساد کرنے کے لیے لائے جانے والے اسلحے کی گاڑیاں پکڑی جاتی رہی ہیں۔
جو مختلف زمینی راستوں سے لائی جا رہی تھیں، لیکن ایک موقف یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کراچی میں اسلحہ سمندری راستے سے آتا ہے۔۔۔ جو کہ خاصی ناقابل فہم بات ہے تاہم اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے گو کہ اب تک کسی کشتی سے اسلحہ نکلنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا، لیکن سمندری راستے سے اسلحہ کا الزام سراسر پاک بحریہ کے سرمنڈھنے والی بات ہے کیوں کہ ہمارے بحری راستوں پر اس کا مضبوط پہرہ موجود ہے۔ زمینی راستے اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ آسان ہیں۔۔۔
کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایک بار پھر یہاں رینجرز کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں اہدافی آپریشن جاری ہیں، جس کے دو واضح مقاصد نظر آ رہے ہیں۔۔۔ اول اسلحہ اور دوم جرائم پیشہ عناصر کی تلاش۔۔۔ ماضی میں بھی ایسے متعدد آپریشن ہوئے۔۔۔ پہلے بھی اور آج بھی عوام کی جانب سے ان کارروائیوں پر کچھ تحفظات رہے، ظاہر ہے گنے چنے مجرموں کی تلاش میں رینجرز کو رات گئے یا علی الصبح کتنے ہی گھروں میں داخل ہونا پڑا، ایسے میں شہر کی امن پسند اکثریت شدید اضطراب سے دو چار ہوتی ہے۔۔۔ چادر اور چار دیواری کے علاوہ گھر کی قیمتی اشیا ' نقدی اور زیورات کے حوالے سے بھی کافی شکایات اخباروں کی زینت بنتی رہی ہیں۔
قصہ مختصر شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے نہایت مستحسن اقدام کے ساتھ ضروری ہو گا کہ اعلیٰ سطح پر اس طرح کے اسلحہ و بارود کی تیاری' آمد اور فروخت کا بھی مکمل خاتمہ کیا جائے تا کہ مسئلے کی جڑ کا خاتمہ ہو جب اسلحہ بنے گا اور بِکے گا نہیں تو پھر کیوں کر اتنا عام ہو گا کہ ہر پندرھویں' بیسویں آدمی کے پاس پستول یا ٹی ٹی ہو۔ اس کے علاوہ ماضی اور حالیہ کارروائیوں کی بھی کڑی نگرانی کی جائے کیوں کہ گھر گھر تلاشی سے ایک عام شہری شدید کوفت سے دوچار ہوتا ہے جب کہ جلد یا بدیر مبینہ طور پر ملزمان کو آزاد کر دیا جاتا ہے اور اسلحہ بھی واپس کر دیا جاتا ہے۔۔۔ اور پھر حالات بگڑنے لگتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کے احتساب کا سامان بھی کیا جائے، جن کی وجہ سے عام شہری متاثر ہوتا ہے۔
پہلے مرحلے میں شہر کے تمام داخلی راستوں پر سخت پہرے لگائے جائیں تا کہ شہر کو تباہ کرنے والے بارود کی آمد رک سکے۔۔۔ اور یہاں بھی غفلت کرنے والوں کی جاں بخشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔۔۔ بلاشبہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے، لیکن غیر قانونی اسلحے نے شہر کو بارود نگر بنا دیا ہے۔ مزید یہ ہے کہ امن پسند شہریوں کو خدشہ ہے کہ اس کا قانونی اسلحہ تو تحویل میں لے لیا جائے گا مگر ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے ہاتھ بدستور مسلح رہیں گے۔۔۔ عام شہری اپنے تحفظ سے محروم اور نہتے ہو جائیں گے لیکن قاتل اسلحہ سے لیس رہے گا۔۔۔ ان خدشات میں بھی وزن موجود ہے اس کے بھی تدارک کی ضرورت ہے۔
آئی جی پولیس نے ہدایت کی ہے کہ شہری 7 دن میں غیر قانونی اسلحہ جمع کرا دیں ورنہ کارروائی ہو گی۔ سوال یہی ہے کہ اسلحہ سے پاک معاشرہ ناگزیر ہے اور بدامنی کی بنیادی وجہ اسلحہ کی فراوانی ہے تاہم جن ہاتھوں میں غیر قانونی اسلحہ ہے ان ہاتھوں میں ہتھکڑی لگنا ضروری ہے، قانون شکن عناصر خواہ کسی گروہ، سیاسی جماعت یا مافیا سے تعلق رکھتے ہوں انھیں فوری احتساب اور کڑی سزا سے بالاتر نہ رکھا جائے۔
چلتے چلتے ایک اور اہم بات کہ اسلحہ سے پاک کرنے کا فیصلہ کراچی کی بدامنی کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے نتیجے میں پیش آیا اس لیے اس کی ترجیح بے شک کراچی ہو لیکن اس احسن اقدام کا دائرہ ملک گیر ہونا ضروری ہے کیوں کہ کراچی بھی اس ملک کا حصہ ہے۔ اسلحہ کی فراوانی سے جو نتائج یہاں بھگتے جا رہے ہیں وہ کل ملک کے دوسرے حصے میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی رہے ہیں، کیا ضروری ہے کہ وہاں بھی اتنی خوں ریزی اور لاشوں کے گرنے کا انتظار کیا جائے۔
ہمیں فیصلے کے خلوص پر پورا یقین ہے لہٰذا اس اچھے کام کو پورے ملک تک وسیع کیا جائے اور صرف اسلحے سے پاک کراچی نہیں بلکہ اسلحہ سے پاک پاکستان کی بات کی جائے۔ اس شہر میں بھی اسلحہ ملک کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہوا آتا ہے۔۔۔ یقیناً ملک کے کسی حصے میں اس کی تیاری بھی ہوتی ہو گی لہٰذا کیا ہی اچھی بات ہو کہ بجائے اس کے کہ ہم اسلحہ تیاری اور آمد روکے بغیر اسلحہ کی تلاش کے نام پر کراچی کے شریف شہریوں کے گھروں کی دیواریں پھاندیں بلکہ کارروائی کے ساتھ ساتھ اس کی آمد اور تیاری روک کر اس خطرناک مسئلے کو جڑ سے ختم کریں۔۔۔!
ایک ماہر نفسیات نے ذہنی مریضوں کے شفا خانے میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کی دماغی کیفیت کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ایک نل کے نیچے بالٹی رکھ کر نل کھول دیا گیا، پھر باری باری آنے والے ذہنی مریضوں کو ایک ڈونگا دے کر پانی کی بالٹی خالی کرنے کو کہا۔۔۔ کئی مریض آئے اور چلے گئے۔
ماہر نفسیات بغور ان کا معائنہ کرتا رہا۔ ہر مریض کو ایک مقررہ وقت دیا گیا کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا، آخر کے چند مریضوں میں سے ایک کی جب باری آئی تو اس نے بالٹی کے پانی کو ڈونگے کی مدد سے نکالنے سے پہلے بالٹی کا نل بند کیا، اس کے بعد مقررہ وقت سے پہلے ہی بالٹی کو پانی سے خالی کر دیا۔۔۔! معالج نے اسے شاباش دی اور اسے دماغی لحاظ سے مکمل صحت یابی کی سند بھی عطا کی۔
کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ یا حکایت ہے، لیکن اس کا پیغام نہایت واضح ہے کہ پہلے مسئلے کی جڑ کو پکڑنا چاہیے اور پھر اس کے خاتمے کی کوشش کی جانی چاہیے، تا کہ ایک جانب سے اس کے خاتمے اور دوسری جانب سے اس کے آغاز کا مسلسل سلسلہ جاری نہ رہ سکے اور بالآخر مسئلے سے نجات ملے، لیکن کیا کہیے جس طرح ہمارے ہاں دیگر معاملات میں اسے مدنظر نہیں رکھا جاتا اور نل بند کیے بغیر بالٹی سے پانی نکالنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے بالکل اسی طرح کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی بات ہے۔ پہلے عدالت عظمیٰ بھی اس پر فیصلہ دے چکی ہے اور اب کور کمانڈر کانفرنس میں کراچی میں جاری اہدافی قتل کے نہ تھمنے والے سلسلے پر کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے سے متعلق کہا گیا کہ اب ایسا کرنے کا وقت آ گیا اور سیاسی قوتیں اس پر اتفاق پیدا کریں۔
بدنصیب شہر قائد میں بدترین خونریزی کے واقعات ایسے ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہے، اور لگتا ایسا تھا کہ شاید کوئی انھیں روکنے میں دل چسپی بھی نہیں رکھتا۔
ایسے میں کور کمانڈرز کانفرنس میں روزانہ بے گناہوں کی لاشیں گرنے سے بچانے کے لیے متحرک ہونا بلاشبہ ایک خوش آیند امر ہے ۔ ہمارے معاشرے میں تشدد اور بدامنی کے عنصر میں اضافہ ہونے کے بعد سے مختلف حلقوں سے یہ آواز گاہے بگاہے بلند کی جاتی رہی ہے کہ ہمارے ہاں اسلحے کی فراوانی ہے' اس کا تدارک ہونا چاہیے ۔۔۔پھر موجودہ حالات کے بعد یہ بات مزید بڑھ کر سامنے آئی کہ ''کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے!'' اس موقف کی عدالتی تائید کے بعد اب فوجی قیادت کی طرف سے بھی اس کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے، لیکن بنیادی مسئلہ وہیں موجود ہے کہ پانی کی بالٹی خالی کرنی ہے مگر نل بدستور کھلا ہوا ہے۔۔۔! جی ہاں شہر کو اسلحے سے پاک کرنا ہے مگر اس کی تیاری، آمد اور فروخت کے بارے میں بھی تو کچھ کیا جائے۔ اس طرح کی باتیں ہماری حکومتیں بھی کرتی آئی ہیں کہ آتش بازی پر پابندی' گٹکے' مین پوری اور دیگر مضر صحت منشیات پر پابندی مگر تیاری اور فروخت پر کوئی روک ٹوک موجود نہیں۔
کراچی کی پر آشوب تاریخ کو اٹھا کر دیکھیے۔۔۔ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد یہاں اسلحے کی فراوانی ہوئی۔۔۔ پھر متعدد چھوٹے بڑے آپریشن مختلف اوقات میں جاری رہے۔۔۔ اسلحہ اور جدید ترین اسلحے کی بڑی بڑی کھیپ برآمد ہوئیں مگر کوئی اسلحہ ساز فیکٹری نہ مل سکی جو اس بات کی علامت ہے کہ شہر کو تباہ کرنے کے لیے تمام تر اسلحہ بیرون شہر سے لایا جاتا ہے اس بات کو اور بھی تقویت یوں ملی کہ وقتاً فوقتاً شہر میں دنگا فساد کرنے کے لیے لائے جانے والے اسلحے کی گاڑیاں پکڑی جاتی رہی ہیں۔
جو مختلف زمینی راستوں سے لائی جا رہی تھیں، لیکن ایک موقف یہ بھی سامنے آتا ہے کہ کراچی میں اسلحہ سمندری راستے سے آتا ہے۔۔۔ جو کہ خاصی ناقابل فہم بات ہے تاہم اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے گو کہ اب تک کسی کشتی سے اسلحہ نکلنے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا، لیکن سمندری راستے سے اسلحہ کا الزام سراسر پاک بحریہ کے سرمنڈھنے والی بات ہے کیوں کہ ہمارے بحری راستوں پر اس کا مضبوط پہرہ موجود ہے۔ زمینی راستے اس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ آسان ہیں۔۔۔
کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایک بار پھر یہاں رینجرز کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں اہدافی آپریشن جاری ہیں، جس کے دو واضح مقاصد نظر آ رہے ہیں۔۔۔ اول اسلحہ اور دوم جرائم پیشہ عناصر کی تلاش۔۔۔ ماضی میں بھی ایسے متعدد آپریشن ہوئے۔۔۔ پہلے بھی اور آج بھی عوام کی جانب سے ان کارروائیوں پر کچھ تحفظات رہے، ظاہر ہے گنے چنے مجرموں کی تلاش میں رینجرز کو رات گئے یا علی الصبح کتنے ہی گھروں میں داخل ہونا پڑا، ایسے میں شہر کی امن پسند اکثریت شدید اضطراب سے دو چار ہوتی ہے۔۔۔ چادر اور چار دیواری کے علاوہ گھر کی قیمتی اشیا ' نقدی اور زیورات کے حوالے سے بھی کافی شکایات اخباروں کی زینت بنتی رہی ہیں۔
قصہ مختصر شہر کو اسلحے سے پاک کرنے کے نہایت مستحسن اقدام کے ساتھ ضروری ہو گا کہ اعلیٰ سطح پر اس طرح کے اسلحہ و بارود کی تیاری' آمد اور فروخت کا بھی مکمل خاتمہ کیا جائے تا کہ مسئلے کی جڑ کا خاتمہ ہو جب اسلحہ بنے گا اور بِکے گا نہیں تو پھر کیوں کر اتنا عام ہو گا کہ ہر پندرھویں' بیسویں آدمی کے پاس پستول یا ٹی ٹی ہو۔ اس کے علاوہ ماضی اور حالیہ کارروائیوں کی بھی کڑی نگرانی کی جائے کیوں کہ گھر گھر تلاشی سے ایک عام شہری شدید کوفت سے دوچار ہوتا ہے جب کہ جلد یا بدیر مبینہ طور پر ملزمان کو آزاد کر دیا جاتا ہے اور اسلحہ بھی واپس کر دیا جاتا ہے۔۔۔ اور پھر حالات بگڑنے لگتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کے احتساب کا سامان بھی کیا جائے، جن کی وجہ سے عام شہری متاثر ہوتا ہے۔
پہلے مرحلے میں شہر کے تمام داخلی راستوں پر سخت پہرے لگائے جائیں تا کہ شہر کو تباہ کرنے والے بارود کی آمد رک سکے۔۔۔ اور یہاں بھی غفلت کرنے والوں کی جاں بخشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔۔۔ بلاشبہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے، لیکن غیر قانونی اسلحے نے شہر کو بارود نگر بنا دیا ہے۔ مزید یہ ہے کہ امن پسند شہریوں کو خدشہ ہے کہ اس کا قانونی اسلحہ تو تحویل میں لے لیا جائے گا مگر ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے ہاتھ بدستور مسلح رہیں گے۔۔۔ عام شہری اپنے تحفظ سے محروم اور نہتے ہو جائیں گے لیکن قاتل اسلحہ سے لیس رہے گا۔۔۔ ان خدشات میں بھی وزن موجود ہے اس کے بھی تدارک کی ضرورت ہے۔
آئی جی پولیس نے ہدایت کی ہے کہ شہری 7 دن میں غیر قانونی اسلحہ جمع کرا دیں ورنہ کارروائی ہو گی۔ سوال یہی ہے کہ اسلحہ سے پاک معاشرہ ناگزیر ہے اور بدامنی کی بنیادی وجہ اسلحہ کی فراوانی ہے تاہم جن ہاتھوں میں غیر قانونی اسلحہ ہے ان ہاتھوں میں ہتھکڑی لگنا ضروری ہے، قانون شکن عناصر خواہ کسی گروہ، سیاسی جماعت یا مافیا سے تعلق رکھتے ہوں انھیں فوری احتساب اور کڑی سزا سے بالاتر نہ رکھا جائے۔
چلتے چلتے ایک اور اہم بات کہ اسلحہ سے پاک کرنے کا فیصلہ کراچی کی بدامنی کے حوالے سے درخواست کی سماعت کے نتیجے میں پیش آیا اس لیے اس کی ترجیح بے شک کراچی ہو لیکن اس احسن اقدام کا دائرہ ملک گیر ہونا ضروری ہے کیوں کہ کراچی بھی اس ملک کا حصہ ہے۔ اسلحہ کی فراوانی سے جو نتائج یہاں بھگتے جا رہے ہیں وہ کل ملک کے دوسرے حصے میں بھی نمودار ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی رہے ہیں، کیا ضروری ہے کہ وہاں بھی اتنی خوں ریزی اور لاشوں کے گرنے کا انتظار کیا جائے۔
ہمیں فیصلے کے خلوص پر پورا یقین ہے لہٰذا اس اچھے کام کو پورے ملک تک وسیع کیا جائے اور صرف اسلحے سے پاک کراچی نہیں بلکہ اسلحہ سے پاک پاکستان کی بات کی جائے۔ اس شہر میں بھی اسلحہ ملک کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہوا آتا ہے۔۔۔ یقیناً ملک کے کسی حصے میں اس کی تیاری بھی ہوتی ہو گی لہٰذا کیا ہی اچھی بات ہو کہ بجائے اس کے کہ ہم اسلحہ تیاری اور آمد روکے بغیر اسلحہ کی تلاش کے نام پر کراچی کے شریف شہریوں کے گھروں کی دیواریں پھاندیں بلکہ کارروائی کے ساتھ ساتھ اس کی آمد اور تیاری روک کر اس خطرناک مسئلے کو جڑ سے ختم کریں۔۔۔!