پانی صحت اور تعلیم کے سلگتے ہوئے مسائل
بیماریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو چکی ہے
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے صاف پانی' مضر صحت دودھ' غیر قانونی میڈیکل کالجز اور شادی ہالز کے متعلق ازخود نوٹسز کی سماعت کے دوران سخت لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر صحت اور تعلیم پر توجہ نہ دی گئی تو اورنج لائن ٹرین اور دیگر منصوبے روک دیں گے' آرسینک اور آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے' وزیراعلیٰ سندھ عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں تو وزیراعلیٰ پنجاب کیوں نہیں۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق ملک کے ہر ادارے اور شعبے میں دہائیوں سے جاری بگاڑ اس قدر مضبوط جڑیں پکڑ چکا ہے کہ اب اسے ٹھیک کرنا بظاہر انتہائی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔اسے راہ راست پر لانے کے لیے چند نوٹسز کافی نہیں بلکہ بے رحم احتساب اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔کیا ملک میں ایسی انقلابی اور بے لوث قیادت موجود ہے،یہ سوال ہنوز تشنہ ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ حکمران اشرافیہ اور مقتدر اداروں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے سرکاری اداروں میں بگاڑ کو فروغ دیا۔ یوں سرکاری مشینری پہلے زنگ آلود ہوئی اور پھر جام ہو گئی' اس انتظامی اور سیاسی بریک ڈاؤن کے ذمے دار سیاستدان بھی ہیں اور نوکر شاہی کے کل پرزے بھی ہیں۔ سیاستدان کرپشن' بدعنوانی کے خاتمے اور میرٹ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن برسراقتدار آ کر آئین و قانون کو بھول جاتے ہیں' اداروں کے کل پرزے بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹسز کی سماعت کے دوران آلودہ پانی' مضر صحت دودھ' غیرقانونی شادی ہالز' اسپتال اور دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے جلد از جلد حل پر زور دیا۔ ڈائریکٹر پی سی ایس آئی آر نے پانی کے نمونوں کی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس کے چیمبر سے لیے گئے پانی کے نمونے بھی آلودہ ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے گئے پھر بھی شہریوں کو آرسینک ملا اور آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے جب کہ سب کو معلوم ہے کہ آرسینک زہر ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فیکٹریوں اور کارخانوں کا آلودہ پانی ٹریٹ کیے بغیر دریاؤں اور ندی نالوں میں پھینکا جا رہا ہے۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ فصلیں اگانے کے لیے آرسینک ملا یہی آلودہ پانی کھیتوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شہریوں میں بیماریاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور سالہا سال تک مسلسل علاج کے باوجود ان بیماریوں کا تدارک ہونے میں نہیں آ رہا۔ بیماریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو چکی ہے۔
دوسری جانب سرکاری اسپتالوں کی حالت سب کے سامنے ہے جس کا چیف جسٹس آف پاکستان نے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسپتالوں میں مشینیں خراب ہیں' دوائی تک میسر نہیں اور حالت یہ ہے کہ مریض کو ٹانکا لگانے کے لیے دھاگہ تک موجود نہیں۔ ڈاکٹر اپنے پیشے کی نوعیت کے اعتبار سے مسیحا کا درجہ رکھتا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ مسیحا تمام اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دولت اکٹھی کرنے کی دوڑ میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ اس نے انسانیت کے تمام معیارات کو بھلا کر مریضوں کو اے ٹی ایم مشین بنا لیا ہے۔
ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے کے بجائے پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینک پر حاضری دیتے ہیں۔ عدالت نے غیرقانونی طور پر تعمیر کیے گئے اسپتالوں اور شادی ہالوں کو گرانے کی بات تو کی مگر تعمیرات کے معیار کو چیک کرنے والے سرکاری افسران کو بھی سخت سے سخت سزا دینی چاہیے جنھوں نے مال پانی کے نام پر غیرقانونی طور پر تعمیر ہونے والی ان عمارات کا کبھی نوٹس نہیں لیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی تمام تعمیرات سرکاری اہلکاروں اور افسران کی ملی بھگت ہی سے وجود میں آئی ہیں۔
ملک بھر کے تمام شہروں حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشن اور لاری اڈوں پر غیرمعیاری اور مضرصحت خوراک کھلے عام فروخت کی جا رہی ہے جس کے تدارک کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ ملک بھر میں جب تعلیم کے نام پر پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھولے گئے اور ان کی بہت زیادہ فیسیں رکھی گئیں تو کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔ عدالت حکمرانوں کو پابند کرے کہ وہ ہر سال صوبے میں کم از کم ایک میڈیکل کالج' انجینئرنگ یونیورسٹی اور بڑا اسپتال تعمیر کرے۔
سرکاری اداروں کی کمیابی کے باعث ہی پرائیویٹ اداروں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ عدلیہ کے شعبے میں بھی جو خرابیاں موجود ہیں ان کے خاتمے کے لیے ابھی تک کوئی کوشش سامنے نہیں آئی اور معاملات کو صرف بیانات اور تنبیہات سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جن بنیادی مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے' دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے یا معاملات جوں کے توں رہتے ہیں۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق ملک کے ہر ادارے اور شعبے میں دہائیوں سے جاری بگاڑ اس قدر مضبوط جڑیں پکڑ چکا ہے کہ اب اسے ٹھیک کرنا بظاہر انتہائی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔اسے راہ راست پر لانے کے لیے چند نوٹسز کافی نہیں بلکہ بے رحم احتساب اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔کیا ملک میں ایسی انقلابی اور بے لوث قیادت موجود ہے،یہ سوال ہنوز تشنہ ہے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ حکمران اشرافیہ اور مقتدر اداروں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے سرکاری اداروں میں بگاڑ کو فروغ دیا۔ یوں سرکاری مشینری پہلے زنگ آلود ہوئی اور پھر جام ہو گئی' اس انتظامی اور سیاسی بریک ڈاؤن کے ذمے دار سیاستدان بھی ہیں اور نوکر شاہی کے کل پرزے بھی ہیں۔ سیاستدان کرپشن' بدعنوانی کے خاتمے اور میرٹ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن برسراقتدار آ کر آئین و قانون کو بھول جاتے ہیں' اداروں کے کل پرزے بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹسز کی سماعت کے دوران آلودہ پانی' مضر صحت دودھ' غیرقانونی شادی ہالز' اسپتال اور دیگر مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے جلد از جلد حل پر زور دیا۔ ڈائریکٹر پی سی ایس آئی آر نے پانی کے نمونوں کی رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس کے چیمبر سے لیے گئے پانی کے نمونے بھی آلودہ ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے گئے پھر بھی شہریوں کو آرسینک ملا اور آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے جب کہ سب کو معلوم ہے کہ آرسینک زہر ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فیکٹریوں اور کارخانوں کا آلودہ پانی ٹریٹ کیے بغیر دریاؤں اور ندی نالوں میں پھینکا جا رہا ہے۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ فصلیں اگانے کے لیے آرسینک ملا یہی آلودہ پانی کھیتوں کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ شہریوں میں بیماریاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور سالہا سال تک مسلسل علاج کے باوجود ان بیماریوں کا تدارک ہونے میں نہیں آ رہا۔ بیماریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہو چکی ہے۔
دوسری جانب سرکاری اسپتالوں کی حالت سب کے سامنے ہے جس کا چیف جسٹس آف پاکستان نے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسپتالوں میں مشینیں خراب ہیں' دوائی تک میسر نہیں اور حالت یہ ہے کہ مریض کو ٹانکا لگانے کے لیے دھاگہ تک موجود نہیں۔ ڈاکٹر اپنے پیشے کی نوعیت کے اعتبار سے مسیحا کا درجہ رکھتا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ مسیحا تمام اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دولت اکٹھی کرنے کی دوڑ میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ اس نے انسانیت کے تمام معیارات کو بھلا کر مریضوں کو اے ٹی ایم مشین بنا لیا ہے۔
ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے کے بجائے پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینک پر حاضری دیتے ہیں۔ عدالت نے غیرقانونی طور پر تعمیر کیے گئے اسپتالوں اور شادی ہالوں کو گرانے کی بات تو کی مگر تعمیرات کے معیار کو چیک کرنے والے سرکاری افسران کو بھی سخت سے سخت سزا دینی چاہیے جنھوں نے مال پانی کے نام پر غیرقانونی طور پر تعمیر ہونے والی ان عمارات کا کبھی نوٹس نہیں لیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی تمام تعمیرات سرکاری اہلکاروں اور افسران کی ملی بھگت ہی سے وجود میں آئی ہیں۔
ملک بھر کے تمام شہروں حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشن اور لاری اڈوں پر غیرمعیاری اور مضرصحت خوراک کھلے عام فروخت کی جا رہی ہے جس کے تدارک کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ ملک بھر میں جب تعلیم کے نام پر پرائیویٹ میڈیکل کالجز کھولے گئے اور ان کی بہت زیادہ فیسیں رکھی گئیں تو کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔ عدالت حکمرانوں کو پابند کرے کہ وہ ہر سال صوبے میں کم از کم ایک میڈیکل کالج' انجینئرنگ یونیورسٹی اور بڑا اسپتال تعمیر کرے۔
سرکاری اداروں کی کمیابی کے باعث ہی پرائیویٹ اداروں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ عدلیہ کے شعبے میں بھی جو خرابیاں موجود ہیں ان کے خاتمے کے لیے ابھی تک کوئی کوشش سامنے نہیں آئی اور معاملات کو صرف بیانات اور تنبیہات سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے جن بنیادی مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے' دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد بھی ہوتا ہے یا معاملات جوں کے توں رہتے ہیں۔