پاک ایران یکساں مسائل کا شکار مگر
ایران میں تمام تر احتجاجی تحریک کا تعلق ایران کے اندرونی معاملات سے ہے
ایران ہمارا وہ پڑوسی و برادر اسلامی ملک ہے جس نے قیام پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ یہ ایرانی عوام کی پاکستانی عوام سے محبت کا اولین ثبوت تھا، پھر یہ کہ پاکستانی و ایرانی عوام کی باہمی محبت ہی تو تھی کہ مشکل کی ہر ایک گھڑی میں پاکستانی و ایرانی عوام ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔ یہاں تک 1978 میں ایران میں انقلاب برپا ہوا۔
ایران سے ڈھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور صدارتی جمہوری نظام قائم ہوگیا۔ گو انقلاب مخالف قوتیں، جن میں امریکا و اس کے یورپی اتحادی پیش پیش ہیں، نے ایران پر تمام قسم کی تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد کردیں مگر ایرانی عوام تمام تر عالمی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آگے بڑھتے رہے، جب کہ اسی دوران ایران و عراق کے مابین ایک بے مقصد و غیر ضروری جنگ کا ایرانی عوام کو سامنا کرنا پڑا، مگر تمام تر عالمی پابندیوں اور 9 سالہ جنگ کے باوجود ایرانی عوام کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ ایران نے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا اور تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود آج ایران کا شمار خطے کے اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے۔
ایرانی عوام مشکلات سے دوچار ضرور تھے، اس کے باوجود انھوں نے یہ سب برداشت کرتے ہوئے اپنے حکمرانوں کا پورا پورا ساتھ دیا، گوکہ 2009 میں مہنگائی و دیگر مسائل کے باعث حکومت مخالف ایک احتجاجی تحریک ضرور دیکھنے میں آئی، مگر اس تحریک پر قابو پالیا گیا۔
مگر ہماری گفتگو کا یہ تمام تر تذکرہ ماضی کا ہے، موجودہ کیفیت یہ ہے کہ ایرانی حکومت نے روٹی کی قیمت جوکہ جنگ کے بعد سے ایک ٹمن (ایرانی کرنسی) میں ایرانی عوام کو دستیاب تھی، اب روٹی کی قیمت ایرانی حکومت نے تین سے چار ٹمن کردی ہے۔ گویا ایرانی عوام کو روٹی کی قیمت میں کئی گنا اضافے کا سامنا کرنا پڑگیا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایران میں ایک روٹی کی قیمت ہے دس ٹمان، مگر ایرانی عوام فقط ایک ٹمن کے عوض روٹی حاصل کر رہے تھے، دیگر 9 ٹمن روٹی کی قیمت ایرانی حکومت ادا کر رہی تھی۔
مگر روٹی کی قیمت میں دو یا تین ٹمن کا حالیہ اضافہ ایرانی عوام کی قوت خرید سے باہر تھا، جس کے باعث ایرانی عوام میں بے چینی پھیلی۔ دوم مسئلہ ہے ایران میں بے روزگاری کا۔ ایرانی عوام میں بے چینی پھیلنے کا ایک سبب بے روزگاری بھی ہے، بالخصوص نوجوان طبقے میں۔ سوم بے چینی پھیلنے کا باعث ہے ایرانی عوام پر امریکا میں داخلے پر پابندی۔
یہ پابندی گزشتہ برس امریکا کے منتخب ہونے والے امریکا کے 45 ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عائد کی ہے کہ ایرانی عوام امریکا میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ ظاہر ہے اس قسم کی پابندیوں سے ایران میں بے چینی پھیلی، جس کے باعث 28 دسمبر بروز جمعرات 2017 کو ایرانی حکومت کے خلاف ایک منظم احتجاج کے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ یہ احتجاج جس کا آغاز یرانی انقلاب کے مرکزی شہر مشہد سے ہوا تھا، ہر آنے والے یوم کے ساتھ ایران کے دیگر شہروں تک پھیلتا چلا گیا، دو تین روز میں اس عوامی احتجاج میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا، جس کے باعث 22 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے، چار سو پچاس مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔
یہ احتجاج اس قدر پرتشدد شکل اختیار کرگیا کہ مظاہرین نے پولیس تھانوں تک میں گھس کر سیکیورٹی اہلکاروں سے اسلحہ چھیننا شروع کردیا تھا۔ یہ احتجاج تا دم تحریر جاری ہے۔ اس موقع پر ایران کے صدر حسن روحانی نے عوام سے کہا کہ احتجاج آپ کا حق ہے مگر کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور پرتشدد کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔
ایران میں تمام تر احتجاجی تحریک کا تعلق ایران کے اندرونی معاملات سے ہے اور اپنے اندرونی معاملات سے کیسے نمٹا جائے یہ دردسر بھی ایرانی حکمرانوں کا ہے، ہم فقط ایرانی عوام و ایرانی حکمرانوں سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ اپنے تمام اندرونی معاملات باہم افہام و تفہیم سے حل کریں، ایرانی عوام احتجاج ضرور کریں مگر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ اسی طرح ایرانی حکومت کا بھی فرض اولین ہے کہ وہ اپنے عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ان مشکلات سے اپنے عوام کو نجات دلانے کی مقدور بھر کوشش کرے۔
البتہ اس تمام تر ایران کے اندرونی حالات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ایرانی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ایران کے بہادر عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ایرانی عوام ہمت سے کام لو، کامیابی قریب ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ پیغام بلاشبہ ایران کے معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ اسی قسم کا بیان اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی جاری کرنا لازمی جانا اور ایرانی عوام کی ستائش کرتے ہوئے گویا ایران کے احتجاجیوں کی کمر تھپتھپائی۔
جواب میں ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکی صدر و اسرائیلی وزیراعظم کے بیانات کے جواب میں کہا کہ بیرونی قوتیں ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہی ہیں۔ حسن روحانی کا واضح اشارہ امریکا و اسرائیل کے ساتھ ساتھ برطانیہ و سعودی عرب کی جانب تھا۔ ہم پرامید ہیں کہ ایران کی حکومت و عوام جلد اپنے مسائل باہم افہام و تفہیم سے حل کرلیں گے، البتہ اگر ہم تذکرہ کریں پاکستان کے عوام کے مسائل کا، تو پاکستانی عوام کے مسائل بھی ایرانی عوام کے مسائل سے کم نہیں بلکہ دوچند ہیں۔ کیونکہ مہنگائی کا ایک طوفان ہے جوکہ ہر ماہ کے آغاز میں پاکستانی عوام کے سامنے پوری قوت سے کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہ چند روز قبل سال نو کے آغاز میں ہوا ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں بے پناہ اضافہ کرکے عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
بے روزگاری کی شرح بھی ہر ایک آنے والے یوم کے ساتھ بڑھ رہی ہے، نجکاری کی حکومتی حکمت عملی کے باعث روزگار کے مواقع عوام کے لیے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں، خواندگی کی شرح گھٹ رہی ہے، ان مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کے باعث پاکستانی عوام میں بھی بے چینی کا عنصر نمایاں پایا جاتا ہے، جس کا اظہار کبھی اساتذہ کے احتجاج کی شکل میں، کبھی کلرکوں کے احتجاج کی شکل میں، کبھی پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاج کی شکل میں آتا رہتا ہے، جب کہ تازہ ترین احتجاج چھوٹے کاشتکاروں کی جانب سے دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ چھوٹے کاشتکار گنے کی پوری قیمت نہ ملنے کے باعث احتجاج کر رہے ہیں، اب ان کاشتکاروں کے احتجاج میں سیاسی عناصر بھی شریک ہوچکے ہیں، چنانچہ اب یہ احتجاج کیا رخ اختیار کرے گا؟
یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ اگر چھوٹے کاشتکاروں کے احتجاج میں عام محنت کش بھی شریک ہوگئے تو پھر یہ احتجاج ضرور اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے، ایسے ہی سال نو کے موقع پر پاکستان پر بھی یہ الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں پاکستان نے امریکا سے 33 ارب ڈالر امداد لے کر اس امداد کے عوض امریکا کو دھوکا دیا ہے اور امریکی حکمرانوں کو احمق بنایا ہے۔
تمام گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ پاکستان و ایران کے عوام یکساں مسائل سے دوچار ہیں اور امریکا کے رویے کے معاملے میں بھی دونوں ممالک میں یکسانیت ہے، فرق یہ ہے کہ ایرانی عوام مہنگائی و بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر ہیں اور پاکستانی عوام تمام تر حکومتی ظلم و استحصال کے باوجود کوئی بڑا احتجاج منظم کرنے سے گریزاں ہیں۔ مگر کب تک؟ چنانچہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ قبل اس کے کہ پاکستانی چھوٹے کاشتکاروں، اساتذہ کے ساتھ ساتھ عام محنت کش طبقہ بھی سڑکوں پر آجائے، اپنا قبلہ درست کرلیں۔