تبلیغی جماعتیں سیاست سے لاتعلق کیوں
سیاست میں تضاد کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے
LONDON:
ایک معروف عالم دین اور دینی اسکالر جو ایک دینی جماعت کے سربراہ بھی تھے، ماضی میں اپنی زندگی میں تبلیغی جماعت کی سیاسی جماعتوں کے لیے حمایت کے شدید خواہش مند تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تبلیغی جماعتیں جو اپنی انفرادی قوت کے لحاظ سے بڑی قوت ہیں اگر یہ جماعت اپنا سیاسی کردار ادا کرے تو پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔
اس خواہش کے پیش نظر انھوں نے عملی کوششیں کیں، بلکہ کچھ عرصہ تبلیغی جماعت کا حصہ بھی بنے۔ لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی وہ تو اس بات کی دلی خواہش رکھتے تھے لیکن تبلیغی جماعت نے ان کے سیاسی مزاج کی بدولت انھیں قبول نہ کیا اور یوں وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔
زمانہ طالب علمی میں راقم نے پرجوش اسلامی مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کیا، نتیجے میں، ''میں'' بھی اسلام کی سیاسی تعبیر سے متاثر ہوا۔ اس حوالے سے میری بھی یہ دلی خواہش رہی کہ تبلیغی جماعتوں کو سیاست سے بیگانگی کے بجائے اپنا سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن بعد میں جیسے جیسے راقم کے شعور، مطالعہ اور مشاہدہ میں کچھ اضافہ ہوا تو یہ بات واضح ہوتی گئی کہ تبلیغی جماعتیں سیاست سے دور نظر آتی ہیں، اس کی چند ٹھوس وجوہات ہیں جس کی وجہ سے وہ سیاست سے لاتعلق ہیں۔ آئیے ان وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
بعض علمی حلقے جو دینی سوچ اور فکر رکھتے ہیں ان کے نزدیک ہماری زندگی کے مختلف پہلو ہیں، جس میں تعلیم، صحت، سیاست اور معاشرت وغیرہ شامل ہیں، اسی طرح ذریعہ معاش یعنی معیشت بھی ہماری زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ لیکن جب یہ معاشی مسئلہ ایک نظریہ یعنی مارکسزم کی شکل اختیار کرتا ہے تو مارکس کے فکری ڈھانچے میں مکمل نظریہ حیات کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ مارکسزم کی معاشی تعبیر میں زندگی کے تمام پہلوؤں کی تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ معاشی پہلو زندگی کے تمام پہلوؤں پر غالب آجاتا ہے۔
ادب ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا فنون لطیفہ غرض زندگی کے سارے رنگ اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں، ان کی الگ سے کوئی معنویت نہیں رہتی۔ زندگی دو وقت کی روٹی کی تلاش کا نام بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام کی سیاسی تعبیر سے متاثرہ مفکرین نے دین کی کچھ اس طرح تشریح کی ہے کہ اس میں سیاست کا پہلو اس طرح ابھرتا ہے کہ وہی پورے مجموعے کا مرکزی نقطہ بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ''ہدایت'' جو دین کا کلی جز ہے اس کے بجائے سیاست دین کا کلی جز قرار پایا ہے، نتیجے میں اصول اقتدار مقصد حیات بن جاتا ہے، یہ مزاج حقوق کی ادائیگی کے بجائے حقوق طلبی کا مزاج بناتا ہے، مذہب تکمیل کا موضوع ہونا چاہیے نفاذ کا موضوع بن جاتا ہے۔
سیاست میں تضاد کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے، نتیجے میں اسلام کی سیاسی تعبیر سے متاثرہ ذہن احتجاج کی جانب اپنا رخ کرلیتا ہے، اپنے مدمقابل کو اپنا دشمن اور رقیب کی صورت میں دیکھتا ہے، اس کے لیے خیرخواہی کے جذبات سے عاری ہوتا ہے، نتیجے میں ہر وقت اسے ضرب لگانے کی فکر میں مبتلا رہتا ہے، نفرت دعوت تبلیغ میں زہر قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعتیں سیاست سے دور ہوتی ہیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر سے متاثرہ ذہن جہاں کہیں بھی بگاڑ دیکھتے ہیں وہ اس کا سبب نظام کی خرابی کو قرار دے کر مروجہ نظام سیاست کے خاتمے کی جدوجہد شروع کردیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں وہ فتح کے ذریعے پرانے آقاؤں کی جگہ نئے آقاؤں کے سوا کچھ نہیں پاتے، نظام ٹوٹنے کے بعد بھی بگاڑ درست نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ بگاڑ ہمیشہ افراد کے کردار کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، بگاڑ کی درستگی افراد کی خرابی دور کرنے سے آئے گی نہ کہ حکمرانی کے نظام توڑنے سے، اس بنیاد پر تبلیغی جماعتیں نظام کے بجائے فرد کی اصلاح پر زور دیتی ہیں۔
میں اپنے گزشتہ ماہ کے کالموں میں دینی سیاسی جماعتوں کے نقطہ نظر کو بھی واضح کرچکا ہوں۔ تبلیغی جماعتوں کا سیاست کے حوالے سے نقطہ نظر بھی آپ کے سامنے ہے، کون درست ہے کون غلط، اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔ میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ تبلیغی جماعتیں عرصہ دراز سے اپنا کام کر رہی ہیں، لیکن وہ معاشرے کو مکمل اسلامی معاشرہ بنانے میں اب تک ناکام ہیں، کیوں؟
یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ سیکولر لوگ نام نہاد دینی لوگوں کے مقابلے میں سیرت اور کردار کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر لوگوں کا ضمیر انھیں ملامت کرتا رہتا ہے کہ تم غلطی پر ہو، یہ احساس ایک قسم کا اخلاقی محرک بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس نام نہاد معروف دینی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو دیانت دار، نیک اور نمازی ہیں، اس احساس کے نتیجے میں یہ لوگ گناہ کے ارتکاب کے وقت بے خوف ہوجاتے ہیں۔ یہ میرا مشاہدہ ہے جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
میرا علم بہت محدود ہے اور تعلیم بھی واجبی سی، اس لیے اس سوال پر اپنی علمی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ بعض علمی حلقوں کے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعتوں کا زیادہ زور عقائد کی درستگی، عبادات کی ادائیگی پر ہوتا ہے۔ یہ جماعتیں زیادہ تر فضائل کی بنیاد پر چلائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو عوام الناس میں شعوری طور پر منتقل کرنے میں ناکام رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو اب تک اسلامی معاشرے میں تبدیل نہ کیا جاسکا۔ موجودہ زمانے میں مطلوبہ مسلمان بنانے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ تعمیر شعور سے ان کے اندر اصلاح کے کام کا آغاز کیا جائے۔
اس وقت دنیا میں سرمایہ داروں کا راج ہے۔ سرمایہ داروں نے میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لفظ ''جدیدیت'' اور ''ترقی'' کا اس قدر پروپیگنڈا کیا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اس لفظ کے سحر میں گرفتار نظر آتا ہے۔ سرمایہ داروں نے ان دونوں الفاظ کے ذریعے اپنے لیے نئے صارف (خریدار) پیدا کیے ہیں، تاکہ اپنے سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جاسکے۔ مثلاً آپ ایک عام سی گاڑی میں سفر کرسکتے تھے لیکن آپ کو جدید ترین گاڑی کے حصول میں لگا کر نئے صارف پیدا کیے، نتیجے میں سرمایہ داروں کے سرمایہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرز زندگی کے نتیجے میں معاشرے کا ہر فرد اس دوڑ میں شریک ہوگیا ہے۔
مذہب سے دوری کے نتیجے میں جائز اور ناجائز کا فرق اس کے سامنے نہیں ہے، جس کی وجہ سے خود غرضی، ناانصافی، ظلم و ستم، بے سکونی، عدم مساوات جیسی برائیوں اور خرابیوں نے معاشرے میں جنم لیا ہے۔ ایسے حالات میں مذہب ہی وہ واحد کنٹرولنگ فورس ہے جو انسان کے اندر خود احتسابی کا نظام واضح کرتا ہے، جس سے انسان برائیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان برائیوں اور خرابیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔
میری ناقص رائے میں اصل مسئلہ دینی سیاسی جماعتوں اور تبلیغی جماعتوں کے باہمی اختلاف کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ان کی جانب سے متعین کی گئی ترجیحات کا ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا محور مسائل عالم اسلام ہے تو دوسری طرف تبلیغی جماعتیں ہیں جن کا زیادہ تر زور فضائل اسلام ہے، جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام نے زندگی گزارنے کے جو رہنما اصول دیے ہیں انھیں عوام الناس کے درمیان پیش کیا جائے اور انھیں عمل پر آمادہ کیا جائے۔ اسی صورت میں ہی ہم دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔