مہنگائی کے خلاف ایران میں مظاہرہ
لوگ نے معاشی مسائل پر، جن میں بے روزگاری، افلاس اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے
1979میں شہنشاہ پہلوی مخالف انقلاب کے بعد اتنا وسیع پیمانے کا عوامی ابھار نظر نہیں آیا۔ 2009 کے سبز انقلاب کے مقابلے میں اب بھی اس کا عددی اجتماع کم ہے، مگر شہری علاقوں میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پھیلا ہوا ہے۔
اس احتجاج نے حکمران طبقات کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ مظاہرہ 27 صوبوں کے 52 شہروں تک پھیل گیا، جو کہ 28 دسمبر 2017 میں مشہد کی سڑکوں سے شروع ہوا۔ اس مظاہرے کی ابتدا مشہد شہر سے صدر حسن روحانی کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے والے رجعتی عناصر کی جانب سے شروع ہوئی۔
جمعہ کو مشہد کی ایک مسجد کے امام احمد علم الحدیٰ جو کہ امام رضا نام کے ادارے کے سرپرست بھی ہیں، جن کے پاس 15 ارب ڈالر سے زیادہ رقم موجود ہے۔ بہرحال مشہد کے مذہبی حلقوں میں تیزی سے یہ احتجاج پھیل گیا۔ مشہد ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ قدامت پرست اور مذہبی شہر بھی کہلاتا ہے۔ مگر گزشتہ برسوں میں عوام کے تیور بدل گئے اور عوام اپنے مطالبات کے ساتھ پورے ایران میں بپھر گئے۔ 29 دسمبر کو مقدس شہر قم جہاں سب سے زیادہ مذہبی ادارے ہیں، وہاں ہزاروں لوگ سڑکوں پر آکر نعرے لگا رہے تھے ''حزب اﷲ مردہ باد'' اور ''علی خامنہ ای اقتدار چھوڑ دو''۔
اس مظاہرے میں چی گویرا کی تصویر بھی نظر آئی۔ شمالی شہر رشد میں لوگ یہ بھی نعرہ لگا رہے تھے کہ ''ایماندار فوج ہماری مدد کرے''۔ دوسرے نعروں میں یہ بھی تھا کہ ''ایران، شام کی خانہ جنگی میں مداخلت بند کرے''۔ تہران یونیورسٹی کے گرد طلبا اور نوجوانوں کا ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔
لوگ نے معاشی مسائل پر، جن میں بے روزگاری، افلاس اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، نعرے لگائے۔ پھر نعروں کا رخ آزادی، بنیادی حقوق، انفرادی آزادی، عوام کی اجتماعی آزادی کی طرف آگیا۔ طلبا کو عوام کے احتجاج میں شریک ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہ بھی عوام کا حصہ ہیں۔ یہ نعرے بھی لگے کہ ''آمریت مردہ باد''، ''عوام غریب ہوتے جارہے ہیں''، ''مریں گے مگر ایران کو واپس لیں گے''۔ وہ روٹی، ملازمت اور آزادی کا مطالبہ کررہے تھے، طلبا اور مزدوروں کی یکجہتی کی بات کررہے تھے۔
شروعات کے اس مرحلے میں بعض نعرے تذبذب اور بے مقصد لگ رہے تھے، جیسا کہ آمریت مردہ باد اور ساتھ ساتھ رضاخان کی تعریف۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ عوام بھوکے ہیں اور ملازمت کی تلاش میں ہیں، افراط زر اور بدامنی بڑھتی جارہی ہے، ملا کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، جب کہ غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد اب تک کئی درجن ہوگئی ہے۔
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پاکستان کی سرحد کے نزدیک واقع ایرانی شہر زاہدان تک پھیل گیا ہے۔ مظاہرین نے بپھر کر متعدد پولیس تھانوں پر حملے کرکے انھیں آگ لگادی۔ مختلف شہروں سے 500 کے لگ بھگ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ صدر روحانی نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج عوام کا حق ہے، لیکن سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
ایران کے وسطی صوبے اصفہان میں واقع شہر فہد ریان میں 5 مظاہرین ہلاک ہوگئے۔ مظاہرین نے شہر کے ہال میں گھسنے کی کوشش کی، اس کے بعد مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ''ارنا'' نے اصفہان کے ایک اور شہر نجف آباد میں مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں ایک سیکیورٹی اہلکار کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔
بعض ویب سائٹوں نے غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس شہر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2 ہے اور دونوں سپاہ پاسداران انقلاب کے اہلکار ہیں۔ قبل ازیں ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے دوران 12 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی، لیکن اس نے ہلاکتوں کی مزید تصدیق نہیں کی تھی۔ اس طرح ہلاکتوں کی تعداد درجنوں ہوگئی ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے میڈیا کو بتایا کہ جنوب مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ایذہ میں گولی لگنے سے دو افراد ہلاک ہوئے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ہدایت اﷲ خادمی نے ایلنا نیوزایجنسی کو بتایا کہ ایذہ کے مکینوں نے بھی ملک کے دوسرے شہروں کی طرح اقتصادی مسائل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس دوران دو افراد مارے گئے اور بعض زخمی ہوگئے تھے۔
ایرانی حکومت نے قبل ازیں یہ اطلاع دی تھی کہ اس نے 370 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جب کہ ایرانی کارکنان نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران پکڑے جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ صوبہ نورستان میں ایک سرکاری گاڑی دو افراد پر چڑھ دوڑی، جس سے دونوں افراد جان سے گئے۔
صوبہ تہران کے نائب گورنر علی اصغر ناصر بخت نے کہا ہے کہ مقامی پولیس نے احتجاج کرنے والے دو سو افراد کو گرفتار کیا تھا، ان میں سے 40 افراد قیادت کررہے تھے۔ صوبہ مرکزی کے میئر کے مطابق غیر مجاز احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں 100 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جب کہ مغربی حکمران (امریکا اور یورپ) اسرائیل اور سعودی عرب کے حکمران اس تحریک سے فائدہ اٹھانے میں مشغول ہیں، مگر ایران کے عوام سامراجیوں کی بدعنوانیوں اور ایرانی عوام کے استحصال کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تحریک ناکام بھی ہوجائے لیکن عوام کو اپنے مسائل پر لڑنے کا شعور عطا کرجائے گی۔
ایران کے انقلابی عوام اپنی ماضی کی عظیم تاریخی تحریکوں مزدک سے پہلوی بادشاہت کے تجربات کو کارآمد کرتے ہوئے منزل مقصود کمیونسٹ انقلاب یا امداد باہمی کا سماج قائم کرنے سے کبھی بھی روگردانی نہیں کریں گے اور وہ دن جلد آنے والا ہے جب طبقات ہوں گے اور نہ ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ یہ لڑائی دنیا بھر میں جاری ہے، جسے عالمی سامراج رنگ و نسل، مذہب، فرقہ اور زبان میں تقسیم کرنے کی سازش میں مصروف ہے، لیکن دنیا کے محنت کش عوام اور پیداواری قوتیں اسے ایک روز ناکام بنادیں گی۔
اس احتجاج نے حکمران طبقات کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ مظاہرہ 27 صوبوں کے 52 شہروں تک پھیل گیا، جو کہ 28 دسمبر 2017 میں مشہد کی سڑکوں سے شروع ہوا۔ اس مظاہرے کی ابتدا مشہد شہر سے صدر حسن روحانی کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے والے رجعتی عناصر کی جانب سے شروع ہوئی۔
جمعہ کو مشہد کی ایک مسجد کے امام احمد علم الحدیٰ جو کہ امام رضا نام کے ادارے کے سرپرست بھی ہیں، جن کے پاس 15 ارب ڈالر سے زیادہ رقم موجود ہے۔ بہرحال مشہد کے مذہبی حلقوں میں تیزی سے یہ احتجاج پھیل گیا۔ مشہد ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کہ قدامت پرست اور مذہبی شہر بھی کہلاتا ہے۔ مگر گزشتہ برسوں میں عوام کے تیور بدل گئے اور عوام اپنے مطالبات کے ساتھ پورے ایران میں بپھر گئے۔ 29 دسمبر کو مقدس شہر قم جہاں سب سے زیادہ مذہبی ادارے ہیں، وہاں ہزاروں لوگ سڑکوں پر آکر نعرے لگا رہے تھے ''حزب اﷲ مردہ باد'' اور ''علی خامنہ ای اقتدار چھوڑ دو''۔
اس مظاہرے میں چی گویرا کی تصویر بھی نظر آئی۔ شمالی شہر رشد میں لوگ یہ بھی نعرہ لگا رہے تھے کہ ''ایماندار فوج ہماری مدد کرے''۔ دوسرے نعروں میں یہ بھی تھا کہ ''ایران، شام کی خانہ جنگی میں مداخلت بند کرے''۔ تہران یونیورسٹی کے گرد طلبا اور نوجوانوں کا ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔
لوگ نے معاشی مسائل پر، جن میں بے روزگاری، افلاس اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، نعرے لگائے۔ پھر نعروں کا رخ آزادی، بنیادی حقوق، انفرادی آزادی، عوام کی اجتماعی آزادی کی طرف آگیا۔ طلبا کو عوام کے احتجاج میں شریک ہونا چاہیے، اس لیے کہ وہ بھی عوام کا حصہ ہیں۔ یہ نعرے بھی لگے کہ ''آمریت مردہ باد''، ''عوام غریب ہوتے جارہے ہیں''، ''مریں گے مگر ایران کو واپس لیں گے''۔ وہ روٹی، ملازمت اور آزادی کا مطالبہ کررہے تھے، طلبا اور مزدوروں کی یکجہتی کی بات کررہے تھے۔
شروعات کے اس مرحلے میں بعض نعرے تذبذب اور بے مقصد لگ رہے تھے، جیسا کہ آمریت مردہ باد اور ساتھ ساتھ رضاخان کی تعریف۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ عوام بھوکے ہیں اور ملازمت کی تلاش میں ہیں، افراط زر اور بدامنی بڑھتی جارہی ہے، ملا کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے، جب کہ غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد اب تک کئی درجن ہوگئی ہے۔
احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پاکستان کی سرحد کے نزدیک واقع ایرانی شہر زاہدان تک پھیل گیا ہے۔ مظاہرین نے بپھر کر متعدد پولیس تھانوں پر حملے کرکے انھیں آگ لگادی۔ مختلف شہروں سے 500 کے لگ بھگ افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ صدر روحانی نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج عوام کا حق ہے، لیکن سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
ایران کے وسطی صوبے اصفہان میں واقع شہر فہد ریان میں 5 مظاہرین ہلاک ہوگئے۔ مظاہرین نے شہر کے ہال میں گھسنے کی کوشش کی، اس کے بعد مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ''ارنا'' نے اصفہان کے ایک اور شہر نجف آباد میں مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں ایک سیکیورٹی اہلکار کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔
بعض ویب سائٹوں نے غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس شہر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2 ہے اور دونوں سپاہ پاسداران انقلاب کے اہلکار ہیں۔ قبل ازیں ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے دوران 12 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی، لیکن اس نے ہلاکتوں کی مزید تصدیق نہیں کی تھی۔ اس طرح ہلاکتوں کی تعداد درجنوں ہوگئی ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے میڈیا کو بتایا کہ جنوب مغرب میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ایذہ میں گولی لگنے سے دو افراد ہلاک ہوئے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ ہدایت اﷲ خادمی نے ایلنا نیوزایجنسی کو بتایا کہ ایذہ کے مکینوں نے بھی ملک کے دوسرے شہروں کی طرح اقتصادی مسائل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس دوران دو افراد مارے گئے اور بعض زخمی ہوگئے تھے۔
ایرانی حکومت نے قبل ازیں یہ اطلاع دی تھی کہ اس نے 370 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جب کہ ایرانی کارکنان نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران پکڑے جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ صوبہ نورستان میں ایک سرکاری گاڑی دو افراد پر چڑھ دوڑی، جس سے دونوں افراد جان سے گئے۔
صوبہ تہران کے نائب گورنر علی اصغر ناصر بخت نے کہا ہے کہ مقامی پولیس نے احتجاج کرنے والے دو سو افراد کو گرفتار کیا تھا، ان میں سے 40 افراد قیادت کررہے تھے۔ صوبہ مرکزی کے میئر کے مطابق غیر مجاز احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں 100 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جب کہ مغربی حکمران (امریکا اور یورپ) اسرائیل اور سعودی عرب کے حکمران اس تحریک سے فائدہ اٹھانے میں مشغول ہیں، مگر ایران کے عوام سامراجیوں کی بدعنوانیوں اور ایرانی عوام کے استحصال کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تحریک ناکام بھی ہوجائے لیکن عوام کو اپنے مسائل پر لڑنے کا شعور عطا کرجائے گی۔
ایران کے انقلابی عوام اپنی ماضی کی عظیم تاریخی تحریکوں مزدک سے پہلوی بادشاہت کے تجربات کو کارآمد کرتے ہوئے منزل مقصود کمیونسٹ انقلاب یا امداد باہمی کا سماج قائم کرنے سے کبھی بھی روگردانی نہیں کریں گے اور وہ دن جلد آنے والا ہے جب طبقات ہوں گے اور نہ ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ یہ لڑائی دنیا بھر میں جاری ہے، جسے عالمی سامراج رنگ و نسل، مذہب، فرقہ اور زبان میں تقسیم کرنے کی سازش میں مصروف ہے، لیکن دنیا کے محنت کش عوام اور پیداواری قوتیں اسے ایک روز ناکام بنادیں گی۔