ایئر چیف مارشل اصغر خان سچا انسان
اصغر خان سیاست کی قلابازیوں کو بالکل نہیں مانتے تھے۔ وہ تو سیدھی سچی بات کرنے والے انسان تھے
جمعہ 5 جنوری 2018 ایک اور سچا انسان، جھوٹ کے اونچے سروں والی دنیا چھوڑ گیا۔ 1921 میں پیدا ہونے والا اصغر خان تقسیم ہند کے وقت 26 سال کا تھا۔ جنگ عظیم دوم کے وقت وہ فوج میں شامل ہوچکا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ اصغر خان کی تصویر تاریخ کا حصہ ہے، جس میں وہ فوجی یونیفارم پہنے اپنے قائد کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اصغر خان ساری زندگی اپنے قائداعظم کے ساتھ ہی کھڑے رہے۔ لمحہ بھر کو بھی انھوں نے قائد کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ فوج میں رہے، فضائیہ کے سربراہ بنے اور صاف دامن، بے داغ ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 65 کی پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے ملک پاکستان کی فضاؤں کا بھرپور دفاع کیا۔ حکومت پاکستان نے ایئر چیف مارشل اصغرخان کی اعلیٰ فوجی خدمات کے اعتراف میں انھیں ہلال پاکستان اور ہلال قائداعظم سے نوازا، لیکن یہ اعزازات انھوں نے واپس کردیے جب انھیں صدر جنرل ایوب خان کی بعض پالیسیوں پر شدید اختلاف ہوا۔
ایئر چیف مارشل نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) کی سربراہی بھی کی اور وہاں سے بھی صاف ستھرے بغیر داغ دھبے فارغ ہوئے۔ اصغرخان اپنے وطن پاکستان کے لیے بہت سے سہانے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سیاست کی وادی پرخار میں بھی اترے، مگر ان کے پاس صرف سچ تھا اور وہ سچ ہی بولنا جانتے تھے۔
خطابت، لچھے دار تقریریں، جھوٹ پر مبنی مستقبل کے سہانے خواب، یہ سب کچھ اصغر خان کو نہیں آتا تھا، ان کی سیاست میں عوام کی خوشحالی اور انصاف جھلکتا تھا، اسی لیے انھوں نے پہلے جسٹس پارٹی بنائی اور بعد کو تحریک استقلال نامی سیاسی جماعت بنائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے پاکستان بھر میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ سیاست محل سراؤں سے نکل کر گلی کوچوں اور میدانوں کھیتوں کھلیانوں میں آگئی۔
ملک پر قابض طبقات کو بھلا یہ سب کہاں منظور تھا، لہٰذا فوجی آمر جنرل ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اور اس کی تحریک کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بھٹو کو گرفتار کرلیا۔ اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے اصغرخان بھٹو کے انقلابی مشن کو آگے لے جانے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ عوام نے اصغر خان کا ہر شہر میں والہانہ استقبال کیا۔ کاش ذوالفقار علی بھٹو اور اصغر خان مل کر انقلاب کو آگے لے جاتے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔
اصغر خان سیاست کی قلابازیوں کو بالکل نہیں مانتے تھے۔ وہ تو سیدھی سچی بات کرنے والے انسان تھے اور سیاست میں جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا ہی بڑا لیڈر۔ اصغر خان نے نہ قومی دولت لوٹی، نہ محل ماڑیاں بنائے، نہ بینک بھرے، نہ بیرون ملک جائیدادیں بنائیں، نہ پاناما لیکس کا ان کا نام، حتیٰ کہ وہ اپنے ہی ملک کے اسپتال میں زیر علاج رہ کر وہیں آخری ہچکی لی اور آگے بڑھ گئے۔ ان کا جسد خاکی امریکا، لندن سے نہیں آیا، وہ راولپنڈی کے اسپتال میں زیر علاج رہے، اور اسی اسپتال میں 96 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ہفتے کے دن میں ٹیلی وژن پر ایئر چیف مارشل اصغر خان کی نمازجنازہ ادا ہوتے دیکھ رہا تھا۔
ایئر چیف مارشل نور خان ایئربیس پر نمازجنازہ ادا کی جا رہی تھی، تابوت فوجی پرچم میں لپٹا ہوا، تابوت پر ایئر چیف مارشل کی فوجی ٹوپی رکھی ہوئی، وزیراعظم سمیت تمام فوجی سربراہان نماز جنازہ میں شامل تھے۔ نماز جنازہ کے بعد ان کے جسد خاکی کا تابوت ایک ہیلی کاپٹر میں رکھ دیا گیا، اور یہ ہیلی کاپٹر ایئر چیف مارشل کے آبائی شہر ایبٹ آباد روانہ ہوگیا، جہاں نواں شہر کے علاقے میں ایئر چیف مارشل کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ تدفین سے قبل ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کی جائے گی تاکہ ان کے شہر کے لوگ اپنے ایئر چیف مارشل کو دعاؤں اور محبتوں کے ساتھ رخصت کرسکیں۔
مجھے اصغر خان کے انتقال پر وہ یادگار جلوس اور جلسہ بھی یاد آرہا ہے۔ ایئر چیف مارشل اصغر خان اور شاعر عوام حبیب جالب لاہور سے جہاز میں کراچی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ کراچی ایئرپورٹ پر جہاز نے لینڈ کیا، ہزاروں لوگ استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے اور یہ جلوس تقریباً رینگتا ہوا 14 گھنٹے میں رات دو بجے فریسکو چوک برنس روڈ پہنچا تھا، جہاں ایئر چیف مارشل اصغر خان نے مختصر خطاب کیا، کیونکہ اگلے دن مزار قائد پر شاہراہ قائدین پر شام 3 بجے جلسہ تھا۔
مجھے یاد ہے، بھائی حبیب جالب صبح 4 بجے جب میرے گھر پہنچے تو ان کے پاؤں مسلسل چودہ گھنٹے ٹرک پر کھڑے رہنے کی وجہ سے سوج گئے تھے۔ میں ان دنوں جہانگیر روڈ کے کوارٹرز میں رہتا تھا اور مزار قائد کے جلسے میں بھائی حبیب جالب کو میں ہی اپنے اسکوٹر پر بٹھا کر لے گیا تھا۔ میں نے کاسموپولیٹن کلب کی جانب سے انھیں جلسہ گاہ پہنچایا۔ حبیب جالب کو لوگ راستہ دیتے گئے اور دس منٹ بعد میں عوام کے شاعر کو اسٹیج پر دیکھ رہا تھا۔ وہی جو میرے اسکوٹر پر بیٹھ کر آیا تھا، وہی اسٹیج پر ہاتھ لہرا کر لاکھوں عوام کی تالیوں کا جواب دے رہا تھا۔
ایئر چیف مارشل اصغر خان بڑے ہی برے وقتوں میں تم چھوڑ کر جا رہے ہو۔ مگر خیر تم جاؤ، اﷲ تمہارے درجات بلند کرے۔ پاکستان کے عوام نے بڑے طوفان جھیلے ہیں، جالب کا مصرعہ تمہارے لیے:
کرلیں گے شام غم کی سحر، آپ جائیے