جمہوریت کا تسلسل اورنئی اتحادی سیاست
کسی معاندانہ جذبے کے تحت اُن کے دائیں اور بائیں بیٹھنے والے وقتی طور پر اُن کا سہارا تو بن سکتے ہیں
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب نے راولپنڈی چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا ہے:''ملک کی بقا،مضبوطی اور استحکام کے لیے جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے۔ عام انتخابات میں عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ 2013ء کے مقابلے میں آج 2018ء میں امن وامان کی صورتحال کہیں زیادہ بہتر ہے۔''
محترم خاتون وزیر مملکت نے مختصر الفاظ میں دراصل وطنِ عزیز اور پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے ایک اساسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے احترام اور تسلسل ہی میں ہماری بقا ہے کہ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم کے تمام ارشاداتِ عالیہ کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔ ماضی قریب میں جمہوری اداروں کی تضحیک اور عوامی مینڈٹ کی توہین کرکے وطنِ عزیز کو خاصا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ بدقسمتی سے بعض گروہ، جن کی عوام میں جڑیں بھی نہیں ہیں، اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور تعصبات میں ''اتحادی سیاست'' کا ڈول ڈال کر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ کوششیں مگر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گی۔ یہ عوامی جبر ہے کہ ایک جمہوری حکومت کو وقت سے پہلے رخصت کرنے کی درپے یہ قوتیں اپنے اقدامات کو بھی جمہوریت کے نام سے موسوم کررہی ہیں۔پاکستان کے اکثریتی خیر خواہوں کا کہنا ہے کہ اگر جمہوریت اور منتخب جمہوری اداروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ یہ ملک ''ڈِیپ اسٹیٹ'' کی شکل اختیار نہ کر جائے۔
منتخب حکومت کے مخالف ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب نے پچھلے ہفتے اپنے ہاں اکٹھے ہونے والے نئے سیاسی اتحادیوں کی تعداد کے بارے میں اعلان فرمایا تھا کہ ''چالیس سیاسی جماعتیں تشریف لائی ہیں۔'' کسی نے اِس اکٹھ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل ہو کر پاکستانی سیاست میں غیر متعلقہ ہو چکے ہیں، وہ ذرا سنجیدگی سے اِس اکٹھ ہی سے اندازہ لگا لیں کہ اُسی ''نااہل'' اور ''غیر متعلقہ'' نواز شریف کو گرانے کے لیے اب بھی کتنا زور لگانا پڑرہا ہے۔
جناب طاہر القادری کی قیادت میں مجتمع ہونے والی ان چالیس سیاسی جماعتوں میں چھتیس تو وہ ہیں جنھوں نے کبھی پارلیمنٹ کا منہ بھی نہیں دیکھا۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ یہ چھتیس جماعتیں ایک متفقہ پریشر گروپ بن کر نواز شریف اور شہباز شریف پر خاص قسم کا دباؤ تو ڈال سکتی ہیں لیکن شریف برادران کے سیاسی اثاثے پر منفی اثرات مرتّب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ شریف برادران، خصوصاً نواز شریف مخالف اس نئے سیاسی اتحاد کا ہدف کیا ہے؟ محض انہیں مقررہ وقت سے پہلے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کرنا؟
اگر ایسا ہی ہے تو ہمارے ان محترم سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباً چار عشرے قبل بھی کچھ ایسا ہی ''متفقہ'' سیاسی اتحاد بھٹو صاحب کو اقتدار سے رخصت کرنے کے لیے معرضِ عمل میں آیا تھا لیکن بھٹو مخالف جماعتوں کے ہاتھ میں مگر کچھ نہیں آیا تھا۔ فائدہ کوئی اور لے گیا تھا اور ہماری جمہوریت کی کشتی پھر بارہ سال تک آمریت کے سمندر میں ڈوبی رہی تھی۔ کیا ایسا ہی تماشہ پھر دکھانے کی سعی کی جارہی ہے؟
جناب طاہرالقادری کارنج اور دکھ اپنی جگہ سچا ہے۔ اِس دکھ کی دوا مگرآتش نوائی اور اتحادی سیاست میں نہیں، عدالت ہے۔ نئی اتحادی سیاست کے علمبردار ڈاکٹر صاحب کا مقدمہ اور مدعا خراب کرنے کا باعث تو بن سکتے ہیں، اُن کے ہاتھوں سے اُنہیں ریلیف نہیں ملے گا۔ اُنہیں یہ بنیادی حقیقت پیشِ نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ بہرحال نوابزادہ نصراللہ خان نہیں ہیں۔ اُن کی ذاتِ گرامی میں نوابزادہ مرحوم ایسی کسرِ نفسی ہے نہ خُوئے دلنوازی۔
کسی معاندانہ جذبے کے تحت اُن کے دائیں اور بائیں بیٹھنے والے وقتی طور پر اُن کا سہارا تو بن سکتے ہیں، مستقل طور پر اُن کے ہمنوا نہیں۔ آصف علی زرداری ،عمران خان اور گجرات کے چوہدری برادران اتنا تو بہرصورت جانتے ہی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اور اُن کی جماعت کا ووٹ بینک کتنا ہے؟پھر وہ ڈاکٹر صاحب کی قیادت و امامت کے سائے میں زیادہ دیر بیٹھنا کیوں چاہیں گے؟
مبینہ چالیس سیاستکاروں کی نئی اتحادی سیاست محض شریف برادران کے عناد میں کب تک باہم متحد رہے گی؟ اِس کی ''بِلٹ اِن'' خرابی یہ ہے کہ اِسے بکھرنا ہے۔جَلد یا بدیر، بکھرنا ہے۔ اگر آج نواز شریف یا شہباز شریف اِس نئے سیاسی اتحاد کے کسی ایک بڑے دھڑے کی طرف دستِ صلح بڑھا دیں تو یہ اتحاد پَل بھر میں ریت کی دیوار کی مانند زمین بوس ہو جائے گا۔ سارا رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔
ہماری سیاسی دنیا کے ان نئے اتحادیوں نے احتیاط اور شائستگی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ سفارتی اور معاشی دنیا میں بھارت، افغانستان اور امریکا مل کر پاکستان کے خلاف جو کھچڑی پکاتے نظر آرہے ہیں، اِس کا تو یہ تقاضا ہے کہ حزبِ اختلاف اپنے سیاسی تفرقات اور اختلافات ایک طرف رکھ کر حکومت کی آواز میںآواز ملاتے ہُوئے یکجہتی کا مظاہرہ کرتی۔دشمنانِ پاکستان کو تاکہ قومی اتحاد کاواضح پیغام دیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے۔
نئے سیاسی اتحادیوں کے اِس روئیے پر پاکستانی عوام نے مجموعی طور پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔نئی اتحادی سیاست قومی مفادات کے برعکس اپنے مفادات کے تحفظ میں کس طرح غیر محتاط واقع ہُوئی ہے، اس کا اندازہ اُن بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو اُنہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کے حالیہ دَورئہ سعودی عرب پر گولوں کی طرح داغ ڈالے۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ نواز شریف اب کبھی واپس پاکستان نہیں آئیں گے۔نواز شریف کے بارے میں ایسی پیشگوئیاں بیشمار مرتبہ کی گئی ہیں۔ ہر بار مگر یہ سچی ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔
پیشگوئیاں کرنے والے نادم ہونے کی بجائے ہر بار پھر نئے انداز سے نجومی بننے کی کوششیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اُن کی بدقسمتی ہے کہ وہ ناسٹرے ڈیمس نہیں ہیں۔ (ناسٹرے ڈیمس فرانس کا مشہور نجومی تھا جس کی تقریباً ہر پیشگوئی درست ثابت ہُوئی ) کسی پُراسرار ڈِیل کے بارے میں اتنی دھول اڑائی گئی ہے کہ ہر شئے دھندلا کر رہ گئی ہے۔شریف برادران کے مخالف یہ نئے سیاسی اتحادی تو رہے ایک طرف ، ہمارے بعض اخبار نویس حضرات بھی بازی لے جانے کی کوششیں کرتے پائے گئے۔
مثال کے طور پرجناب نواز شریف کی سعودیہ روانگی کے موقع پر لندن کے ایک معروف اخبار میں خواہش پر مبنی یہ ''خبر'' شایع ہُوئی کہ نواز شریف نے سیاست سے کنارہ کش ہو کر ملک سے باہر رہنا بھی قبول کر لیا ہے۔ یہ ''خبر'' بھی بے بنیاد اور بے اساس ثابت ہُوئی ہے۔ افسوس کی بات مگر یہ بھی دیکھئے کہ خبر نگار کی طرف سے ہنوذ کسی معذرت یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔وہ سوشل میڈیا پر ابھی تک اپنی ''خبر'' پر ڈٹے نظر آتے ہیں۔
اس برطانوی اخبار پر بھی تاسف ہے کہ جس نے کسی تصدیق کے بغیر ہی اتنی شعلہ فشاں خبردھڑلّے سے شایع کر دی۔ اِس سے یہ بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی اخباروں کا معیار کیا رہ گیا ہے۔ ماضی قریب میں جو قوتیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی کردار کشی کے لیے برطانوی اور امریکی میڈیا میں دھول اڑاتی رہی ہیں، کیا یہی قوتیں اب نئے ہدف پر نشانہ باندھنے کے لیے پھر سے بروئے کار آچکی ہیں؟
زیادہ کیا عرض کیا جائے، بس اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ نواز شریف کے عناد میں اتنا آگے بڑھنا کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہوگا۔ بعض اوقات ضِد اور انتقام میں ہاتھوں سے دی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ایسی نوبت نہ ہی آئے۔ اجتماعی قومی مفاد اِسی میں ہے۔
محترم خاتون وزیر مملکت نے مختصر الفاظ میں دراصل وطنِ عزیز اور پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے ایک اساسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے احترام اور تسلسل ہی میں ہماری بقا ہے کہ بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم کے تمام ارشاداتِ عالیہ کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔ ماضی قریب میں جمہوری اداروں کی تضحیک اور عوامی مینڈٹ کی توہین کرکے وطنِ عزیز کو خاصا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ بدقسمتی سے بعض گروہ، جن کی عوام میں جڑیں بھی نہیں ہیں، اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور تعصبات میں ''اتحادی سیاست'' کا ڈول ڈال کر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ کوششیں مگر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گی۔ یہ عوامی جبر ہے کہ ایک جمہوری حکومت کو وقت سے پہلے رخصت کرنے کی درپے یہ قوتیں اپنے اقدامات کو بھی جمہوریت کے نام سے موسوم کررہی ہیں۔پاکستان کے اکثریتی خیر خواہوں کا کہنا ہے کہ اگر جمہوریت اور منتخب جمہوری اداروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ یہ ملک ''ڈِیپ اسٹیٹ'' کی شکل اختیار نہ کر جائے۔
منتخب حکومت کے مخالف ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب نے پچھلے ہفتے اپنے ہاں اکٹھے ہونے والے نئے سیاسی اتحادیوں کی تعداد کے بارے میں اعلان فرمایا تھا کہ ''چالیس سیاسی جماعتیں تشریف لائی ہیں۔'' کسی نے اِس اکٹھ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل ہو کر پاکستانی سیاست میں غیر متعلقہ ہو چکے ہیں، وہ ذرا سنجیدگی سے اِس اکٹھ ہی سے اندازہ لگا لیں کہ اُسی ''نااہل'' اور ''غیر متعلقہ'' نواز شریف کو گرانے کے لیے اب بھی کتنا زور لگانا پڑرہا ہے۔
جناب طاہر القادری کی قیادت میں مجتمع ہونے والی ان چالیس سیاسی جماعتوں میں چھتیس تو وہ ہیں جنھوں نے کبھی پارلیمنٹ کا منہ بھی نہیں دیکھا۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ یہ چھتیس جماعتیں ایک متفقہ پریشر گروپ بن کر نواز شریف اور شہباز شریف پر خاص قسم کا دباؤ تو ڈال سکتی ہیں لیکن شریف برادران کے سیاسی اثاثے پر منفی اثرات مرتّب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔بنیادی سوال یہ ہے کہ شریف برادران، خصوصاً نواز شریف مخالف اس نئے سیاسی اتحاد کا ہدف کیا ہے؟ محض انہیں مقررہ وقت سے پہلے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کرنا؟
اگر ایسا ہی ہے تو ہمارے ان محترم سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تقریباً چار عشرے قبل بھی کچھ ایسا ہی ''متفقہ'' سیاسی اتحاد بھٹو صاحب کو اقتدار سے رخصت کرنے کے لیے معرضِ عمل میں آیا تھا لیکن بھٹو مخالف جماعتوں کے ہاتھ میں مگر کچھ نہیں آیا تھا۔ فائدہ کوئی اور لے گیا تھا اور ہماری جمہوریت کی کشتی پھر بارہ سال تک آمریت کے سمندر میں ڈوبی رہی تھی۔ کیا ایسا ہی تماشہ پھر دکھانے کی سعی کی جارہی ہے؟
جناب طاہرالقادری کارنج اور دکھ اپنی جگہ سچا ہے۔ اِس دکھ کی دوا مگرآتش نوائی اور اتحادی سیاست میں نہیں، عدالت ہے۔ نئی اتحادی سیاست کے علمبردار ڈاکٹر صاحب کا مقدمہ اور مدعا خراب کرنے کا باعث تو بن سکتے ہیں، اُن کے ہاتھوں سے اُنہیں ریلیف نہیں ملے گا۔ اُنہیں یہ بنیادی حقیقت پیشِ نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ بہرحال نوابزادہ نصراللہ خان نہیں ہیں۔ اُن کی ذاتِ گرامی میں نوابزادہ مرحوم ایسی کسرِ نفسی ہے نہ خُوئے دلنوازی۔
کسی معاندانہ جذبے کے تحت اُن کے دائیں اور بائیں بیٹھنے والے وقتی طور پر اُن کا سہارا تو بن سکتے ہیں، مستقل طور پر اُن کے ہمنوا نہیں۔ آصف علی زرداری ،عمران خان اور گجرات کے چوہدری برادران اتنا تو بہرصورت جانتے ہی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اور اُن کی جماعت کا ووٹ بینک کتنا ہے؟پھر وہ ڈاکٹر صاحب کی قیادت و امامت کے سائے میں زیادہ دیر بیٹھنا کیوں چاہیں گے؟
مبینہ چالیس سیاستکاروں کی نئی اتحادی سیاست محض شریف برادران کے عناد میں کب تک باہم متحد رہے گی؟ اِس کی ''بِلٹ اِن'' خرابی یہ ہے کہ اِسے بکھرنا ہے۔جَلد یا بدیر، بکھرنا ہے۔ اگر آج نواز شریف یا شہباز شریف اِس نئے سیاسی اتحاد کے کسی ایک بڑے دھڑے کی طرف دستِ صلح بڑھا دیں تو یہ اتحاد پَل بھر میں ریت کی دیوار کی مانند زمین بوس ہو جائے گا۔ سارا رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔
ہماری سیاسی دنیا کے ان نئے اتحادیوں نے احتیاط اور شائستگی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ سفارتی اور معاشی دنیا میں بھارت، افغانستان اور امریکا مل کر پاکستان کے خلاف جو کھچڑی پکاتے نظر آرہے ہیں، اِس کا تو یہ تقاضا ہے کہ حزبِ اختلاف اپنے سیاسی تفرقات اور اختلافات ایک طرف رکھ کر حکومت کی آواز میںآواز ملاتے ہُوئے یکجہتی کا مظاہرہ کرتی۔دشمنانِ پاکستان کو تاکہ قومی اتحاد کاواضح پیغام دیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے۔
نئے سیاسی اتحادیوں کے اِس روئیے پر پاکستانی عوام نے مجموعی طور پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔نئی اتحادی سیاست قومی مفادات کے برعکس اپنے مفادات کے تحفظ میں کس طرح غیر محتاط واقع ہُوئی ہے، اس کا اندازہ اُن بیانات سے لگایا جاسکتا ہے جو اُنہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کے حالیہ دَورئہ سعودی عرب پر گولوں کی طرح داغ ڈالے۔ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ نواز شریف اب کبھی واپس پاکستان نہیں آئیں گے۔نواز شریف کے بارے میں ایسی پیشگوئیاں بیشمار مرتبہ کی گئی ہیں۔ ہر بار مگر یہ سچی ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔
پیشگوئیاں کرنے والے نادم ہونے کی بجائے ہر بار پھر نئے انداز سے نجومی بننے کی کوششیں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اُن کی بدقسمتی ہے کہ وہ ناسٹرے ڈیمس نہیں ہیں۔ (ناسٹرے ڈیمس فرانس کا مشہور نجومی تھا جس کی تقریباً ہر پیشگوئی درست ثابت ہُوئی ) کسی پُراسرار ڈِیل کے بارے میں اتنی دھول اڑائی گئی ہے کہ ہر شئے دھندلا کر رہ گئی ہے۔شریف برادران کے مخالف یہ نئے سیاسی اتحادی تو رہے ایک طرف ، ہمارے بعض اخبار نویس حضرات بھی بازی لے جانے کی کوششیں کرتے پائے گئے۔
مثال کے طور پرجناب نواز شریف کی سعودیہ روانگی کے موقع پر لندن کے ایک معروف اخبار میں خواہش پر مبنی یہ ''خبر'' شایع ہُوئی کہ نواز شریف نے سیاست سے کنارہ کش ہو کر ملک سے باہر رہنا بھی قبول کر لیا ہے۔ یہ ''خبر'' بھی بے بنیاد اور بے اساس ثابت ہُوئی ہے۔ افسوس کی بات مگر یہ بھی دیکھئے کہ خبر نگار کی طرف سے ہنوذ کسی معذرت یا شرمندگی کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔وہ سوشل میڈیا پر ابھی تک اپنی ''خبر'' پر ڈٹے نظر آتے ہیں۔
اس برطانوی اخبار پر بھی تاسف ہے کہ جس نے کسی تصدیق کے بغیر ہی اتنی شعلہ فشاں خبردھڑلّے سے شایع کر دی۔ اِس سے یہ بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برطانوی اخباروں کا معیار کیا رہ گیا ہے۔ ماضی قریب میں جو قوتیں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی کردار کشی کے لیے برطانوی اور امریکی میڈیا میں دھول اڑاتی رہی ہیں، کیا یہی قوتیں اب نئے ہدف پر نشانہ باندھنے کے لیے پھر سے بروئے کار آچکی ہیں؟
زیادہ کیا عرض کیا جائے، بس اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ نواز شریف کے عناد میں اتنا آگے بڑھنا کسی کے لیے بھی مناسب نہیں ہوگا۔ بعض اوقات ضِد اور انتقام میں ہاتھوں سے دی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ایسی نوبت نہ ہی آئے۔ اجتماعی قومی مفاد اِسی میں ہے۔