تجاوزات کیخلاف کارروائی سے ٹھیلے اور کیبن بنانے والوں کا کام متاثر
پتھاریداروں کیخلاف مقدمات درج کرنے سے مستقل کھانے پینے کی اشیا ٹھیلوں اور پتھاروں پر بیچنے والوں کی تعداد کم ہوگئی۔
شہر میں تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی، بلدیاتی اداروں اور پولیس کے اختیارات کے غلط استعمال اور رشوت ستانی کی وجہ سے روزگار کمانے کے لیے ٹھیلے لگانے والوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
شہر میں مستقل بنیاد پر لگائے جانے والے کھانے پینے کی اشیا کے ٹھیلوں اور پتھاروں کی تعداد کم ہورہی ہے جس کی وجہ سے ٹھیلے اور کیبن تیار کرنے والوں کا کام بھی متاثر ہونے لگا ہے بوہرہ پیر میں ٹھیلے بنانے کا کام کئی دہائیوں سے جاری ہے عام ٹھیلوں کے علاوہ چھت والے ٹھیلے اور کیبن بھی تیار کیے جاتے ہیں تاہم شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کی وجہ سے ٹھیلوں کی فروخت کم ہوگئی ہے اور ٹھیلے لگاکر روزگار کمانے والوں کے ساتھ ٹھیلے بنانے اور فروخت کرنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹھیلے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اب ٹھیلوں کی فروخت بری طرح متاثر ہے ایک جانب مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقے کے لیے گزربسر دشوار تر ہورہا ہے ایسے میں ٹھیلے لگاکر روزگار کمانا بھی دشوار بنادیا گیا ہے کراچی میں پورے ملک سے بے روزگار افراد آکر ٹھیلے لگاتے اور روزگار کما کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں لیکن پورے ملک کو روزگار دینے والے شہر کا خود پرسان حال نہیں ہے بازاروں میں گٹروں سے گندا پانی ابل رہا ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔
تجاوزات کے خاتمے کے نام پر پولیس کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے بالخصوص تجاوزات کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار مل گیا ہے جس کا غلط استعمال غریب طبقے کی مشکلات بڑھارہا ہے کئی دہائیوں سے ٹھیلے بناکر فروخت کرنے والے دکاندار محمد آصف نے بتایا کہ نئے ٹھیلوں کی فروخت 95 فیصد تک کم ہوچکی ہے یومیہ بمشکل 6 ٹھیلے اور اکا دکا چھت والے ٹھیلے فروخت ہورہے ہیں۔
ٹھیلوں سے پولیس منظم طریقے سے بھتہ وصول کررہی ہے اور بھتہ نہ دینے والے ٹھیلے والوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جا رہی ہیں اس سے قبل کے ایم سی کے لینڈ ڈپارٹمنٹ کا عملہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتا تھا جو تجاوزات کی صورت میں ٹھیلے ضبط کرلیتا تھا جو جرمانہ ادا کر کے واپس مل جاتے تھے اس طرح روزگار کا ذریعہ لگارہتا تھا تاہم اب ٹھیلے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی جاتی ہے جس کی وجہ سے غریب ٹھیلے والے اپنا کام کاج چھوڑ کر قانونی کارروائی میں الجھ جاتے ہیں یا پھر پولیس کو منہ مانگی رقم دیکر جان چھڑاتے ہیں اس رجحان کی وجہ سے ٹھیلے بکنا بند ہوگئے ہیں۔
پولیس نے مختلف علاقوں میں لگنے والے ٹھیلوں سے یومیہ بھتہ وصولی بھی بڑھادی ہے پہلے ٹھیلوں سے یومیہ 100 روپے وصول کیے جاتے تھے اب دن اور رات کی شفٹوں میں الگ الگ 200 روپے فی ٹھیلہ وصول کیا جاتا ہے پررونق مقامات اور بازاروں میں مستقل ٹھیلا لگوانے کے لیے 10 سے 20 ہزار روپے رشوت وصول کی جارہی ہے، دکاندار بھی اپنی دکانوں کے باہر ٹھیلے لگانے پر یومیہ اور ماہانہ کرایہ وصول کرتے ہیں ان سب وجوہات کی وجہ سے ٹھیلے لگانے والوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور ٹھیلے والے اپنے یہ تمام اخراجات اشیا کی قیمت بڑھا کر گاہکوں سے وصول کررہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ٹھیلے میں پڑتل کی لکڑی اورلوہے کی کمانی استعمال ہوتی ہے
عام طور پر ٹھیلا 3 گھنٹے میں تیار کرلیا جاتا ہے ٹھیلے کی تیاری کے لیے پڑتل کی لکڑی کا فریم تیار کیا جاتا ہے جسے پہلے سے تیار شدہ کمانیوں پر نٹ بولٹ سے فٹ کردیا جاتا ہے کمانیوں میں موٹرسائیکل کے استعمال شدہ پہیے لگائے جاتے ہیں ٹھیلے تیار کرنے والے کاریگر سلمان کے مطابق ایک اوسط معیار کا ٹھیلہ ایک گھنٹے میں تیار کرلیا جاتا ہے جبکہ مضبوط اور بھاری کمانی والے ٹھیلے کی تیاری میں3 گھنٹے لگتے ہیں ٹھیلے میں سب سے اہم لوہے کی کمانی ہوتی ہے جو ٹھیلے کا بوجھ برداشت کرتی ہے اس لیے زیادہ بوجھ اٹھانے کیلیے بھاری کمانی والے ٹھیلے تیار کیے جاتے ہیں۔
عام ٹھیلے کی قیمت 3سے4ہزار روپے جبکہ بھاری ٹھیلوں کی قیمت 6 سے 8 ہزار روپے تک ہوتی ہے ٹھیلوں کے علاوہ چھت والے ٹھیلے بھی اسی بازار میں تیار کیے جاتے ہیں جن کی قیمت 18ہزار سے شروع ہوتی ہے زیادہ تر برگر، پان، حلیم بریانی، چھولے کی چاٹ، آلو کے چپس، پکوڑے سموسے رول کی فروخت کے لیے چھت والے ٹھیلے تیار کیے جاتے ہیں۔
سردیوں میں سوپ کے ٹھیلے بھی تیار ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں میں خاص طور پر سجاوٹ والے گولہ گنڈے کے فینسی کیبن تیار کیے جاتے ہیں گولا گنڈہ اور مشروبات کے لیے ٹھیلوں میں میوزک سسٹم اور رنگ برنگی لائٹس بھی لگائی جاتی ہیں اور ٹھیلوں کو صاف ستھرا رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے اسٹیل کی چمکد دار چادریں بھی استعمال کی جاتی ہیں فینسی ٹھیلوں کی لاگت 80ہزار روپے تک ہوتی ہے جن کی تیاری میں ایک ہفتہ کا وقت لگ جاتا ہے۔
میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے ایک سال کے دوران ٹھیلوں کی لاگت میں 25فیصد تک اضافہ ہوا ہے جن میں لکڑی کی قیمت کے علاوہ رنگ روغن، پلاسٹک، جست کی چادروں کی قیمت میں اضافہ شامل ہے، ٹھیلوں کی مرمت پر400 روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک کا خرچ آتا ہے2 سے3 ہزار روپے میں ٹھیلا نیا ہوجاتا ہے پرانے ٹھیلوں کی خریدوفروخت میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے ٹھیلے کی فروخت کی رسید یا شناختی کارڈ کی نقل لے کر ٹھیلا خریدا جاتا ہے۔
کاروبار میں نقصان اٹھانے والوں کوبھی ٹھیلا لگاتے دیکھا، ٹھیلا فروش
بوہرہ پیر میں ٹھیلے فروخت کرنے والوں نے کھاتے پیتے کاروباری افراد کو قسمت کے پھیرے میں آ کر ٹھیلا لگاتے دیکھا ہے ٹھیلے تیار کرنے والے محمد آصف نے بتایا کہ ٹھیلوں کی تیاری اور فروخت ان کا آبائی کام ہے اور کئی دہائیوں کے دوران انھوں نے ایسے بھی افراد کو ٹھیلہ فروخت کیا ہے جو کاروبار میں نقصان یا کسی اور حادثے کی وجہ سے اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ٹھیلا لگانے پر مجبور ہو گئے۔
بہت سے شعبوں کے ماہر کاریگر بھی ان شعبوں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ٹھیلا لگاکر روزگار کماتے ہیں ٹھیلے فروخت کرنے والے مستحق افراد کو منافع کے بغیر ٹھیلا فروخت کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی کفالت کر سکیں۔
ٹھیلے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر غریبوں کا روزگار بند کرنے کے بجائے چنگ چی رکشوں پر کیبن بنانے کی اجازت دی جائے تاکہ تجاوزات اور ٹریفک کی روانی میں خلل کا مسئلہ بھی حل ہوسکے اس مقصد کے لیے چنگ چی کیبن کو شام 4 بجے کے بعد سڑکوں پر آنے کی اجازت دی جائے اس طرح چنگ چی پر لگے ہوئے۔
کیبن مستقل تجاوزات کی شکل اختیار نہیں کریں گے اور ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کی صورت میں انھیں فی الفور منتقل کرنا بھی آسان ہو گا، چنگ چی کیبن کی رجسٹریشن کرکے روزگار کمانے کی اجازت ملنے کے بعد پولیس کی بھتہ خوری کا بھی خاتمہ ہوگا اور تھانہ کچہری سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
سردیوں میں غریب طبقہ روزگارکمانے کیلیے کراچی کا رخ کرتاہے
کراچی میں سردیوں کا موسم ٹھیلوں کی فروخت کا سیزن تصور کیا جاتا ہے موسم سرما کے دوران ملک بھر سے غریب طبقہ روزگار کمانے کیلیے کراچی کا رخ کرتا ہے اور مونگ پھلی، خشک میوہ جات، مچھلی، گرم کپڑے، پرانے جوتے اور لنڈا کا سامان فروخت کرتے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں نئے ٹھیلوں کی فروخت کے ساتھ پرانے ٹھیلوں کی مرمت کا کام بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے لیکن رواں سیزن تجاوزات کے خلاف آپریشن اور پولیس گردی کی وجہ سے نئے ٹھیلوں کی فروخت ٹھپ پڑی ہے اور زیادہ تر ٹھیلوں کی مرمت کا کام چل رہا ہے ٹھیلے تیار کرنے والوں کے مطابق سردیوں کے بعد ٹھیلوں کی فروخت کا سب سے بڑ اسیزن موسم سرما میں آم کی فصل کی آمد کے موقع پر آتا ہے جب بڑے پیمانے پر شہر میں آم فروخت کیا جاتا ہے۔
رمضان کے دوران بھی مخیر حضرات مستحق اور بے روزگار افراد میں ٹھیلے تقسیم کرتے ہیں رمضان کے دوران بوہرہ پیر کے بازار سے یومیہ 20 سے 25 ٹھیلے فروخت ہوتے ہیں اس کے علاوہ مختلف سماجی تنظیمیں اور فلاحی انجمنیں بھی بڑے پیمانے پر ٹھیلے تقسیم کرتے ہیںکراچی میں بوہرہ پیر کے علاوہ کورنگی، نارتھ کراچی اور بلدیہ ٹاؤن میں بھی ٹھیلوں کی تیاری کے مراکز قائم ہیں۔
شہر میں مستقل بنیاد پر لگائے جانے والے کھانے پینے کی اشیا کے ٹھیلوں اور پتھاروں کی تعداد کم ہورہی ہے جس کی وجہ سے ٹھیلے اور کیبن تیار کرنے والوں کا کام بھی متاثر ہونے لگا ہے بوہرہ پیر میں ٹھیلے بنانے کا کام کئی دہائیوں سے جاری ہے عام ٹھیلوں کے علاوہ چھت والے ٹھیلے اور کیبن بھی تیار کیے جاتے ہیں تاہم شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کی وجہ سے ٹھیلوں کی فروخت کم ہوگئی ہے اور ٹھیلے لگاکر روزگار کمانے والوں کے ساتھ ٹھیلے بنانے اور فروخت کرنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹھیلے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اب ٹھیلوں کی فروخت بری طرح متاثر ہے ایک جانب مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقے کے لیے گزربسر دشوار تر ہورہا ہے ایسے میں ٹھیلے لگاکر روزگار کمانا بھی دشوار بنادیا گیا ہے کراچی میں پورے ملک سے بے روزگار افراد آکر ٹھیلے لگاتے اور روزگار کما کر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں لیکن پورے ملک کو روزگار دینے والے شہر کا خود پرسان حال نہیں ہے بازاروں میں گٹروں سے گندا پانی ابل رہا ہے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔
تجاوزات کے خاتمے کے نام پر پولیس کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے بالخصوص تجاوزات کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار مل گیا ہے جس کا غلط استعمال غریب طبقے کی مشکلات بڑھارہا ہے کئی دہائیوں سے ٹھیلے بناکر فروخت کرنے والے دکاندار محمد آصف نے بتایا کہ نئے ٹھیلوں کی فروخت 95 فیصد تک کم ہوچکی ہے یومیہ بمشکل 6 ٹھیلے اور اکا دکا چھت والے ٹھیلے فروخت ہورہے ہیں۔
ٹھیلوں سے پولیس منظم طریقے سے بھتہ وصول کررہی ہے اور بھتہ نہ دینے والے ٹھیلے والوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جا رہی ہیں اس سے قبل کے ایم سی کے لینڈ ڈپارٹمنٹ کا عملہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتا تھا جو تجاوزات کی صورت میں ٹھیلے ضبط کرلیتا تھا جو جرمانہ ادا کر کے واپس مل جاتے تھے اس طرح روزگار کا ذریعہ لگارہتا تھا تاہم اب ٹھیلے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی جاتی ہے جس کی وجہ سے غریب ٹھیلے والے اپنا کام کاج چھوڑ کر قانونی کارروائی میں الجھ جاتے ہیں یا پھر پولیس کو منہ مانگی رقم دیکر جان چھڑاتے ہیں اس رجحان کی وجہ سے ٹھیلے بکنا بند ہوگئے ہیں۔
پولیس نے مختلف علاقوں میں لگنے والے ٹھیلوں سے یومیہ بھتہ وصولی بھی بڑھادی ہے پہلے ٹھیلوں سے یومیہ 100 روپے وصول کیے جاتے تھے اب دن اور رات کی شفٹوں میں الگ الگ 200 روپے فی ٹھیلہ وصول کیا جاتا ہے پررونق مقامات اور بازاروں میں مستقل ٹھیلا لگوانے کے لیے 10 سے 20 ہزار روپے رشوت وصول کی جارہی ہے، دکاندار بھی اپنی دکانوں کے باہر ٹھیلے لگانے پر یومیہ اور ماہانہ کرایہ وصول کرتے ہیں ان سب وجوہات کی وجہ سے ٹھیلے لگانے والوں کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور ٹھیلے والے اپنے یہ تمام اخراجات اشیا کی قیمت بڑھا کر گاہکوں سے وصول کررہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ٹھیلے میں پڑتل کی لکڑی اورلوہے کی کمانی استعمال ہوتی ہے
عام طور پر ٹھیلا 3 گھنٹے میں تیار کرلیا جاتا ہے ٹھیلے کی تیاری کے لیے پڑتل کی لکڑی کا فریم تیار کیا جاتا ہے جسے پہلے سے تیار شدہ کمانیوں پر نٹ بولٹ سے فٹ کردیا جاتا ہے کمانیوں میں موٹرسائیکل کے استعمال شدہ پہیے لگائے جاتے ہیں ٹھیلے تیار کرنے والے کاریگر سلمان کے مطابق ایک اوسط معیار کا ٹھیلہ ایک گھنٹے میں تیار کرلیا جاتا ہے جبکہ مضبوط اور بھاری کمانی والے ٹھیلے کی تیاری میں3 گھنٹے لگتے ہیں ٹھیلے میں سب سے اہم لوہے کی کمانی ہوتی ہے جو ٹھیلے کا بوجھ برداشت کرتی ہے اس لیے زیادہ بوجھ اٹھانے کیلیے بھاری کمانی والے ٹھیلے تیار کیے جاتے ہیں۔
عام ٹھیلے کی قیمت 3سے4ہزار روپے جبکہ بھاری ٹھیلوں کی قیمت 6 سے 8 ہزار روپے تک ہوتی ہے ٹھیلوں کے علاوہ چھت والے ٹھیلے بھی اسی بازار میں تیار کیے جاتے ہیں جن کی قیمت 18ہزار سے شروع ہوتی ہے زیادہ تر برگر، پان، حلیم بریانی، چھولے کی چاٹ، آلو کے چپس، پکوڑے سموسے رول کی فروخت کے لیے چھت والے ٹھیلے تیار کیے جاتے ہیں۔
سردیوں میں سوپ کے ٹھیلے بھی تیار ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں میں خاص طور پر سجاوٹ والے گولہ گنڈے کے فینسی کیبن تیار کیے جاتے ہیں گولا گنڈہ اور مشروبات کے لیے ٹھیلوں میں میوزک سسٹم اور رنگ برنگی لائٹس بھی لگائی جاتی ہیں اور ٹھیلوں کو صاف ستھرا رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے اسٹیل کی چمکد دار چادریں بھی استعمال کی جاتی ہیں فینسی ٹھیلوں کی لاگت 80ہزار روپے تک ہوتی ہے جن کی تیاری میں ایک ہفتہ کا وقت لگ جاتا ہے۔
میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے ایک سال کے دوران ٹھیلوں کی لاگت میں 25فیصد تک اضافہ ہوا ہے جن میں لکڑی کی قیمت کے علاوہ رنگ روغن، پلاسٹک، جست کی چادروں کی قیمت میں اضافہ شامل ہے، ٹھیلوں کی مرمت پر400 روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک کا خرچ آتا ہے2 سے3 ہزار روپے میں ٹھیلا نیا ہوجاتا ہے پرانے ٹھیلوں کی خریدوفروخت میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے ٹھیلے کی فروخت کی رسید یا شناختی کارڈ کی نقل لے کر ٹھیلا خریدا جاتا ہے۔
کاروبار میں نقصان اٹھانے والوں کوبھی ٹھیلا لگاتے دیکھا، ٹھیلا فروش
بوہرہ پیر میں ٹھیلے فروخت کرنے والوں نے کھاتے پیتے کاروباری افراد کو قسمت کے پھیرے میں آ کر ٹھیلا لگاتے دیکھا ہے ٹھیلے تیار کرنے والے محمد آصف نے بتایا کہ ٹھیلوں کی تیاری اور فروخت ان کا آبائی کام ہے اور کئی دہائیوں کے دوران انھوں نے ایسے بھی افراد کو ٹھیلہ فروخت کیا ہے جو کاروبار میں نقصان یا کسی اور حادثے کی وجہ سے اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ٹھیلا لگانے پر مجبور ہو گئے۔
بہت سے شعبوں کے ماہر کاریگر بھی ان شعبوں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ٹھیلا لگاکر روزگار کماتے ہیں ٹھیلے فروخت کرنے والے مستحق افراد کو منافع کے بغیر ٹھیلا فروخت کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی کفالت کر سکیں۔
ٹھیلے بنانے والوں کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر غریبوں کا روزگار بند کرنے کے بجائے چنگ چی رکشوں پر کیبن بنانے کی اجازت دی جائے تاکہ تجاوزات اور ٹریفک کی روانی میں خلل کا مسئلہ بھی حل ہوسکے اس مقصد کے لیے چنگ چی کیبن کو شام 4 بجے کے بعد سڑکوں پر آنے کی اجازت دی جائے اس طرح چنگ چی پر لگے ہوئے۔
کیبن مستقل تجاوزات کی شکل اختیار نہیں کریں گے اور ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کی صورت میں انھیں فی الفور منتقل کرنا بھی آسان ہو گا، چنگ چی کیبن کی رجسٹریشن کرکے روزگار کمانے کی اجازت ملنے کے بعد پولیس کی بھتہ خوری کا بھی خاتمہ ہوگا اور تھانہ کچہری سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
سردیوں میں غریب طبقہ روزگارکمانے کیلیے کراچی کا رخ کرتاہے
کراچی میں سردیوں کا موسم ٹھیلوں کی فروخت کا سیزن تصور کیا جاتا ہے موسم سرما کے دوران ملک بھر سے غریب طبقہ روزگار کمانے کیلیے کراچی کا رخ کرتا ہے اور مونگ پھلی، خشک میوہ جات، مچھلی، گرم کپڑے، پرانے جوتے اور لنڈا کا سامان فروخت کرتے ہیں۔
سردیوں کے موسم میں نئے ٹھیلوں کی فروخت کے ساتھ پرانے ٹھیلوں کی مرمت کا کام بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے لیکن رواں سیزن تجاوزات کے خلاف آپریشن اور پولیس گردی کی وجہ سے نئے ٹھیلوں کی فروخت ٹھپ پڑی ہے اور زیادہ تر ٹھیلوں کی مرمت کا کام چل رہا ہے ٹھیلے تیار کرنے والوں کے مطابق سردیوں کے بعد ٹھیلوں کی فروخت کا سب سے بڑ اسیزن موسم سرما میں آم کی فصل کی آمد کے موقع پر آتا ہے جب بڑے پیمانے پر شہر میں آم فروخت کیا جاتا ہے۔
رمضان کے دوران بھی مخیر حضرات مستحق اور بے روزگار افراد میں ٹھیلے تقسیم کرتے ہیں رمضان کے دوران بوہرہ پیر کے بازار سے یومیہ 20 سے 25 ٹھیلے فروخت ہوتے ہیں اس کے علاوہ مختلف سماجی تنظیمیں اور فلاحی انجمنیں بھی بڑے پیمانے پر ٹھیلے تقسیم کرتے ہیںکراچی میں بوہرہ پیر کے علاوہ کورنگی، نارتھ کراچی اور بلدیہ ٹاؤن میں بھی ٹھیلوں کی تیاری کے مراکز قائم ہیں۔