ڈاکٹر اسد عثمان اور ان کے محافظ کی تدفین واقعے کا مقدمہ درج
جائے وقوع سے ملنے والے گولیوں کے خول فارنسک لیبارٹری روانہ
ناظم آباد کے علاقے میں فائرنگ کے واقعے میں جاں بحق ہونے والے ڈاکٹر اسد عثمان کو پاپوش نگر قبرستان اور ان کے محافظ پولیس اہلکار کو شاہ محمد قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ڈاکٹر اسد عثمان اور ان کے محافظ کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گرد ی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق منگل کو ناظم آباد نمبر7 انو بھائی پارک کے قریب نامعلوم مسلح ملزمان کی کار پر فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی فیکلٹی کے سینئر رکن واسسٹنٹ پروفیسر 45 سالہ ڈاکٹر اسد عثمان ولد محمد عثمان کی نماز جنازہ بدھ کو بعد نماز ظہر نارتھ ناظم آباد بلاک آئی میں واقع صدیقی اکبر مسجد میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں مقتول کے اہلخانہ ، دوست احباب ، عزیز و اقارب اور علاقہ مکین بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
بعدازاں ڈاکٹر اسد کو پاپوش نگر قبرستان میں آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا، علاوہ ازیں ڈاکٹر اسد عثمان کے ساتھ جاں بحق ہونے والے ان کے محافظ پولیس اہلکار36 سالہ عرفان احمد نورانی کی نماز جنازہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب گارڈ ہیڈ کوارٹرز میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں ڈی آئی جی ساؤتھ زون شاہد حیات سمیت اعلیٰ پولیس اہلکار مقتول کے اہلخانہ ، دوست ، عزیز و اقارب اور علاقہ مکینوں نے شرکت کی، بعد ازاں مقتول کو نارتھ کراچی میں واقع شاہ محمد قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
مقتول پولیس اہلکار اے ڈی آئی جی ،ٹی این ٹی طاہر نورانی کے بھائی ہیں جبکہ1995میں مقتول اہلکار کے والدپی ڈی ایس پی بشیر احمد نورانی 15 اکتوبر 1995میں نارتھ کراچی سیکٹر 5C/2 میں گھر پر کیے جانے والے حملے میں جاں بحق ہوئے تھے ، مقتول عرفان 19-7-1995میں پولیس محکمے میں بھرتی ہوا تھا اور 3ماہ سے ڈاکٹر اسد عثمان کے محافظ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، مقتول پولیس اہلکارکے بھائی طارق احمد نورانی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول عرفان خواجہ اجمیر نگری ہیڈ کوارٹرز کے عقب میں پولیس لائن میں رہائش تھا اور مقتول کی 2002 میں شادی ہوئی تھی اور مقتول 2 بیٹوں اور1بیٹے کا باپ تھا۔
انھوں نے بتایا کہ واقعے کے روز جس وقت مقتول اہلکار عرفان گھر سے ڈیوٹی جانے کے لیے نکل رہے تھے تو ان کے بچے اپنے والد کو ڈیوٹی پر جانے سے روک رہے تھے لیکن عرفان نے بچوں کی ضد کو ایک طرف رکھ کر ڈیوٹی پر جانے کے لیے گھر سے نکل گئے ، دوسری جانب پولیس نے ڈاکٹر اسد عثمان اور ان کے محافظ محمد عرفان کے قتل کا مقدمہ 66/2013 انسداد دہشت گردی ایکٹ 7ATA اور دیگر دفعہ 302/34 کے تحت ناظم آباد تھانے میں درج کر کے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق مقدمہ مقتول کے بھائی خالد عثمان کی مدعیت میں نامعلوم مسلح ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے ، ایس ایچ او تھانہ ناظم آباد شکیل شروانی نے ایکسپریس کو بتایا کہ پولیس کو جائے وقوعہ سے 9ایم ایم پستول کے17خالی خول ملے تھے جنھیں فوری طور پر فارنسک لیبارٹری میں جمع کرادیا گیاجس کی رپورٹ جلد موصول ہوگی ، انھوں نے بتایا کہ پولیس کو مقتول کو موبائل فون اور دیگر ضروری اشیا بھی ملی تھیں جو مقتول کے بھائی کے سپرد کردی گئی ہیں ۔
ڈاکٹر اسد عثمان اور ان کے محافظ کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گرد ی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کردی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق منگل کو ناظم آباد نمبر7 انو بھائی پارک کے قریب نامعلوم مسلح ملزمان کی کار پر فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی فیکلٹی کے سینئر رکن واسسٹنٹ پروفیسر 45 سالہ ڈاکٹر اسد عثمان ولد محمد عثمان کی نماز جنازہ بدھ کو بعد نماز ظہر نارتھ ناظم آباد بلاک آئی میں واقع صدیقی اکبر مسجد میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں مقتول کے اہلخانہ ، دوست احباب ، عزیز و اقارب اور علاقہ مکین بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
بعدازاں ڈاکٹر اسد کو پاپوش نگر قبرستان میں آہوں اور سسکیوں میں سپرد خاک کردیا گیا، علاوہ ازیں ڈاکٹر اسد عثمان کے ساتھ جاں بحق ہونے والے ان کے محافظ پولیس اہلکار36 سالہ عرفان احمد نورانی کی نماز جنازہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب گارڈ ہیڈ کوارٹرز میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں ڈی آئی جی ساؤتھ زون شاہد حیات سمیت اعلیٰ پولیس اہلکار مقتول کے اہلخانہ ، دوست ، عزیز و اقارب اور علاقہ مکینوں نے شرکت کی، بعد ازاں مقتول کو نارتھ کراچی میں واقع شاہ محمد قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
مقتول پولیس اہلکار اے ڈی آئی جی ،ٹی این ٹی طاہر نورانی کے بھائی ہیں جبکہ1995میں مقتول اہلکار کے والدپی ڈی ایس پی بشیر احمد نورانی 15 اکتوبر 1995میں نارتھ کراچی سیکٹر 5C/2 میں گھر پر کیے جانے والے حملے میں جاں بحق ہوئے تھے ، مقتول عرفان 19-7-1995میں پولیس محکمے میں بھرتی ہوا تھا اور 3ماہ سے ڈاکٹر اسد عثمان کے محافظ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، مقتول پولیس اہلکارکے بھائی طارق احمد نورانی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول عرفان خواجہ اجمیر نگری ہیڈ کوارٹرز کے عقب میں پولیس لائن میں رہائش تھا اور مقتول کی 2002 میں شادی ہوئی تھی اور مقتول 2 بیٹوں اور1بیٹے کا باپ تھا۔
انھوں نے بتایا کہ واقعے کے روز جس وقت مقتول اہلکار عرفان گھر سے ڈیوٹی جانے کے لیے نکل رہے تھے تو ان کے بچے اپنے والد کو ڈیوٹی پر جانے سے روک رہے تھے لیکن عرفان نے بچوں کی ضد کو ایک طرف رکھ کر ڈیوٹی پر جانے کے لیے گھر سے نکل گئے ، دوسری جانب پولیس نے ڈاکٹر اسد عثمان اور ان کے محافظ محمد عرفان کے قتل کا مقدمہ 66/2013 انسداد دہشت گردی ایکٹ 7ATA اور دیگر دفعہ 302/34 کے تحت ناظم آباد تھانے میں درج کر کے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق مقدمہ مقتول کے بھائی خالد عثمان کی مدعیت میں نامعلوم مسلح ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے ، ایس ایچ او تھانہ ناظم آباد شکیل شروانی نے ایکسپریس کو بتایا کہ پولیس کو جائے وقوعہ سے 9ایم ایم پستول کے17خالی خول ملے تھے جنھیں فوری طور پر فارنسک لیبارٹری میں جمع کرادیا گیاجس کی رپورٹ جلد موصول ہوگی ، انھوں نے بتایا کہ پولیس کو مقتول کو موبائل فون اور دیگر ضروری اشیا بھی ملی تھیں جو مقتول کے بھائی کے سپرد کردی گئی ہیں ۔