مردوں کے ساتھ زیادتی اور خواتین کے اوپن ٹکٹ
مردوں سے برابری کی دعویدار خواتین بسوں اور ٹرینوں میں کھڑے ہوکر سفر کرنے کے بجائے مظلوم کیوں بنی رہتی ہیں
ہم پاکستانی مرد مشرقی ہونے کے ساتھ ساتھ بامروت بھی ہیں کیونکہ ہم نے اپنے بچپن سے ہی مردوں کو خواتین کو راستہ دیتے، بسوں میں اپنی نشست دیتے دیکھا جبکہ خواتین کو صرف برابری کا راگ الاپتے ہی سنا۔ ایک طرف تو خواتین مردوں کے ساتھ برابری کی دعویدار ہوتی ہیں مگر دوسری طرف جب بس یا ٹرین میں کھڑا ہونا پڑجائے تو مردوں کو تمیز کے بھاشن کراتی ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہمیں بذریعہ ریل گاڑی ٹنڈوآدم جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلی بار اکانومی کلاس میں سفر کرنے کا تجربہ بھی ہوا۔ دوران سفر جو صورت حال دیکھنے کو ملی، وہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اس وقت ریل گاڑی کی نشست حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ بہرحال، ہمارے دوست میاں عثمان نے موبائل ایپ کے ذریعے آن لائن بکنگ یعنی ''ای ٹکٹنگ سروس'' کے تحت اپنی ٹکٹس پہلے ہی بک کرالی تھیں جو پاکستان ریلوے کا ایک زبردست کام ہے، اس لئے ہمیں تو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر دوران سفر معلومات میں اضافہ ہوا کہ لوگوں نے کتنی مشکل سے ٹکٹ حاصل کیے تھے۔
رابطے کو ترقی کی سب سے بڑی علامت قرار دیاجاتا ہے جبکہ ریلوے کو رابطے کے بہترین ذریعے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہر سیاح کے لیے ریل کا سفر ایک دلکش اور خوش کن تجربہ ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں۔ ریلوے کو عام اور غریب لوگوں کےلیے ٹرانسپورٹ کا ترجیحی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان ریلوے کا ایک سنہری دور گزرا ہے جسے ہم نے صرف کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔
لوگ آج بھی ریل گاڑی میں سفر کرتے ہیں، سیٹیں آج بھی نہیں ملتیں مگر ہر طرف خسارے کا شور ہے۔ ہر ٹرین مسافروں سے بھری ہوتی مگر پھر بھی ریلوے خسارے میں اور ٹکٹ چیکر اور افسران عیش میں ہیں۔ چیئرمین ریلوے اب تک 28 ٹرینیں بند کرچکے ہیں، 220 چل رہی ہیں مگر ان میں سے بھی 102 ٹرینوں کو بند کرنے کا عندیہ دیا جاچکا ہے۔ گاڑیاں بند ہونے کے باوجود روزانہ ادارے کی آمدنی، صرف ٹکٹوں کی مد میں، 6 سے 7 کروڑ روپے ہے۔ گاڑیاں سیٹ بائی سیٹ چلتی ہیں اور بارہ سو سے پندرہ سو مسافر ایک گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔
تاہم پولیس اور گارڈز پیسے لے کر عوام کو گاڑی میں بٹھا دیتے ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد اوپن ٹکٹ لے کر سفر کرتی ہے اور بعد میں پولیس والے اوپن ٹکٹ والوں سے پیسے لے کر ان کےلیے خالی سیٹوں پر یا پھر تین افراد والی سیٹوں کے مردوں سے جگہ کی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف صرف لاہور کی مختلف ٹرینوں پروقتاً فوقتاً چھاپے مار کر صرف ایک ماہ میں 2670 مسافروں سے کرائے و جرمانے کی مد میں 31 لاکھ 48 ہزار 710 روپے وصول کیے گئے۔ مگر پرائیویٹ ٹرینوں میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں پر ٹکٹ چیکر موقع پر ہی ٹکٹ جاری کردیتا ہے، بغیر کسی اضافی چارجز کے۔ یہ موقع پر ٹکٹ کا اجراء اور اوپن ٹکٹ والی صورت حال اس وقت زیادہ گمبھیر ہوجاتی ہے جب کوئی خاتون اوپن ٹکٹ لے کر ٹرین میں سوار ہوتی ہے۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا تھا، ہم مشرقی مرد ہیں تو بالکل ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ دو خواتین جو پہلے سے بھرے ہوئے ڈبے میں اندر گھس آئیں اور سارے مرد ایک طرف ہو کر ان دونوں خواتین کو راستہ دیتے رہے۔ ان میں سے ایک خاتون ہماری سامنے والی سیٹ پر، جس پر ایک ماں اور بیٹا پہلے سے ہی موجود تھے، زبردستی ان کے ساتھ بیٹھ گئیں جس پر اس لڑکے کی ماں کا کہنا تھا کہ میری ٹانگوں میں درد ہے، میں ٹانگیں موڑ کر سفر نہیں کرسکتی؛ جس پر ان محترمہ نے کہا کہ ہم بھی پیسے دے کر سفر کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے ٹکٹ چیکر سے دوران سفر چھ سو کے عوض ٹکٹس لئے تھے حالانکہ جب ٹکٹ چیکر نے 660 روپے مانگے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈرگ روڈ جنکشن پر اترنا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون عین ہمارے منہ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں تو ہمیں مروتاً ان کےلیے اپنی سیٹ چھوڑ کر اوپر برتھ پر جانا پڑا اور محترمہ کو سلمان کے برابر میں بیٹھنے کا کہہ کر ہم اوپر چلے گئے۔ وہ محترمہ سلمان کے برابر میں اپنا سامان رکھ کر ہماری نشست پر براجمان ہو گئیں اور جاتے ہوئے ایک شکریئے کا ایک جملہ تک نہیں کہا جبکہ دوسری خاتون، جن کی وجہ سے ان بزرگ خاتون نے پورا سفر شدید اذیت میں گزارا، ان کو بھی کچھ کہے بغیر ڈرگ روڈ اسٹیشن پر اتر گئیں۔
اس طرح کی حالات سے نمٹنے کےلیے خواتین پولیس اہلکار ہونی چاہئیں کیونکہ ہمارے مرد پولیس اہلکار خواتین کو دیکھ کر ویسے ہی نرم پڑجاتے ہیں کیونکہ وہ بھی آخر مشرقی مرد ہیں۔ ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ریلوے میں خواتین انسپکٹر کو بھرتی کیا جارہا ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس سے اوپن ٹکٹ والا مسئلہ حل ہوگا۔ اس معاملے کو حل کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے کہ پاکستان ریلوے خواتین کو اوپن ٹکٹ جاری کرنا بند کردے اور دوران سفر ٹکٹ جاری کرنے کا طریقہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ جو لوگ بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کریں، ان سے دوگنا ٹکٹ چارج کیا جائے تو اس صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے ورنہ جس طرح ہم نے اور ان بزرگ خاتون نے سفر کیا، سب کو اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
خواتین اپنے آپ کو مظلوم اور کمزور ثابت کرنے پر کیوں تلی رہتی ہیں؟ اگر واقعی مرد اور عورت برابر ہیں تو بسوں اور ٹرین میں کھڑے ہوکر سفر کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ابھی حال ہی میں ہمیں بذریعہ ریل گاڑی ٹنڈوآدم جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلی بار اکانومی کلاس میں سفر کرنے کا تجربہ بھی ہوا۔ دوران سفر جو صورت حال دیکھنے کو ملی، وہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اس وقت ریل گاڑی کی نشست حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ بہرحال، ہمارے دوست میاں عثمان نے موبائل ایپ کے ذریعے آن لائن بکنگ یعنی ''ای ٹکٹنگ سروس'' کے تحت اپنی ٹکٹس پہلے ہی بک کرالی تھیں جو پاکستان ریلوے کا ایک زبردست کام ہے، اس لئے ہمیں تو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر دوران سفر معلومات میں اضافہ ہوا کہ لوگوں نے کتنی مشکل سے ٹکٹ حاصل کیے تھے۔
رابطے کو ترقی کی سب سے بڑی علامت قرار دیاجاتا ہے جبکہ ریلوے کو رابطے کے بہترین ذریعے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہر سیاح کے لیے ریل کا سفر ایک دلکش اور خوش کن تجربہ ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں۔ ریلوے کو عام اور غریب لوگوں کےلیے ٹرانسپورٹ کا ترجیحی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان ریلوے کا ایک سنہری دور گزرا ہے جسے ہم نے صرف کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔
لوگ آج بھی ریل گاڑی میں سفر کرتے ہیں، سیٹیں آج بھی نہیں ملتیں مگر ہر طرف خسارے کا شور ہے۔ ہر ٹرین مسافروں سے بھری ہوتی مگر پھر بھی ریلوے خسارے میں اور ٹکٹ چیکر اور افسران عیش میں ہیں۔ چیئرمین ریلوے اب تک 28 ٹرینیں بند کرچکے ہیں، 220 چل رہی ہیں مگر ان میں سے بھی 102 ٹرینوں کو بند کرنے کا عندیہ دیا جاچکا ہے۔ گاڑیاں بند ہونے کے باوجود روزانہ ادارے کی آمدنی، صرف ٹکٹوں کی مد میں، 6 سے 7 کروڑ روپے ہے۔ گاڑیاں سیٹ بائی سیٹ چلتی ہیں اور بارہ سو سے پندرہ سو مسافر ایک گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔
تاہم پولیس اور گارڈز پیسے لے کر عوام کو گاڑی میں بٹھا دیتے ہیں جب کہ ایک بڑی تعداد اوپن ٹکٹ لے کر سفر کرتی ہے اور بعد میں پولیس والے اوپن ٹکٹ والوں سے پیسے لے کر ان کےلیے خالی سیٹوں پر یا پھر تین افراد والی سیٹوں کے مردوں سے جگہ کی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف صرف لاہور کی مختلف ٹرینوں پروقتاً فوقتاً چھاپے مار کر صرف ایک ماہ میں 2670 مسافروں سے کرائے و جرمانے کی مد میں 31 لاکھ 48 ہزار 710 روپے وصول کیے گئے۔ مگر پرائیویٹ ٹرینوں میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں پر ٹکٹ چیکر موقع پر ہی ٹکٹ جاری کردیتا ہے، بغیر کسی اضافی چارجز کے۔ یہ موقع پر ٹکٹ کا اجراء اور اوپن ٹکٹ والی صورت حال اس وقت زیادہ گمبھیر ہوجاتی ہے جب کوئی خاتون اوپن ٹکٹ لے کر ٹرین میں سوار ہوتی ہے۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا تھا، ہم مشرقی مرد ہیں تو بالکل ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ دو خواتین جو پہلے سے بھرے ہوئے ڈبے میں اندر گھس آئیں اور سارے مرد ایک طرف ہو کر ان دونوں خواتین کو راستہ دیتے رہے۔ ان میں سے ایک خاتون ہماری سامنے والی سیٹ پر، جس پر ایک ماں اور بیٹا پہلے سے ہی موجود تھے، زبردستی ان کے ساتھ بیٹھ گئیں جس پر اس لڑکے کی ماں کا کہنا تھا کہ میری ٹانگوں میں درد ہے، میں ٹانگیں موڑ کر سفر نہیں کرسکتی؛ جس پر ان محترمہ نے کہا کہ ہم بھی پیسے دے کر سفر کر رہے ہیں حالانکہ انہوں نے ٹکٹ چیکر سے دوران سفر چھ سو کے عوض ٹکٹس لئے تھے حالانکہ جب ٹکٹ چیکر نے 660 روپے مانگے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈرگ روڈ جنکشن پر اترنا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون عین ہمارے منہ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں تو ہمیں مروتاً ان کےلیے اپنی سیٹ چھوڑ کر اوپر برتھ پر جانا پڑا اور محترمہ کو سلمان کے برابر میں بیٹھنے کا کہہ کر ہم اوپر چلے گئے۔ وہ محترمہ سلمان کے برابر میں اپنا سامان رکھ کر ہماری نشست پر براجمان ہو گئیں اور جاتے ہوئے ایک شکریئے کا ایک جملہ تک نہیں کہا جبکہ دوسری خاتون، جن کی وجہ سے ان بزرگ خاتون نے پورا سفر شدید اذیت میں گزارا، ان کو بھی کچھ کہے بغیر ڈرگ روڈ اسٹیشن پر اتر گئیں۔
اس طرح کی حالات سے نمٹنے کےلیے خواتین پولیس اہلکار ہونی چاہئیں کیونکہ ہمارے مرد پولیس اہلکار خواتین کو دیکھ کر ویسے ہی نرم پڑجاتے ہیں کیونکہ وہ بھی آخر مشرقی مرد ہیں۔ ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ریلوے میں خواتین انسپکٹر کو بھرتی کیا جارہا ہے مگر مجھے نہیں لگتا کہ اس سے اوپن ٹکٹ والا مسئلہ حل ہوگا۔ اس معاملے کو حل کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے کہ پاکستان ریلوے خواتین کو اوپن ٹکٹ جاری کرنا بند کردے اور دوران سفر ٹکٹ جاری کرنے کا طریقہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ جو لوگ بغیر ٹکٹ ٹرین میں سفر کریں، ان سے دوگنا ٹکٹ چارج کیا جائے تو اس صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے ورنہ جس طرح ہم نے اور ان بزرگ خاتون نے سفر کیا، سب کو اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
خواتین اپنے آپ کو مظلوم اور کمزور ثابت کرنے پر کیوں تلی رہتی ہیں؟ اگر واقعی مرد اور عورت برابر ہیں تو بسوں اور ٹرین میں کھڑے ہوکر سفر کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔