امریکی دھمکیاں اور پاکستان

پاکستان اور اس کی بہادر فوج نے دہشت گردی لازوال اور بے مثال تاریخ رقم کی ہے جس کی ساری دنیا معترف ہے۔


Shakeel Farooqi January 09, 2018
[email protected]

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کا آغاز پاکستان کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں دھونس اور دھمکیوں کے ساتھ کیا ہے جس پر ہمیں شاعر کج کلاہ یگانہ یاس چنگیزی یاد آرہے ہیں جنھوں نے کیا خوب کہا ہے:

خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

بیٹھے بیٹھے ٹویٹ پر ٹویٹ کرنا اور بھس میں چنگاری پھینکنا ٹرمپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ بقول شاعر:

بے کار مباش کچھ کیا کرو

ٹرمپ دنیا کا امن و سکون غارت کرنے کے لیے جس راہ پر چل رہے ہیں وہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔ ان سے خیر کی امید بھلا کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔ ان کا کام ہی دنیا جہاں میں شر پھیلانا اور انتشار کے شعلوں کو زیادہ سے زیادہ بھڑکانا ہے۔ ''پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں'' والی سیانوں کی برسوں پرانی کہاوت ٹرمپ پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے کیونکہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی کچھ کم زہر افشانی نہیں کی تھی۔ تاہم بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جب وہ کرسی صدارت سنبھالیں گے تو کسی نہ کسی حد تک ہوش کے ناخن ضرور لیں گے، مگر ٹرمپ نے اپنے رویوں سے اس خیال کو محض خام خیالی ثابت کردیا۔ انھوں نے اس کہاوت کو بھی سچ ثابت کردیا کہ ''اصل سے خطا نہیں اور بد نسل سے وفا نہیں۔'' ٹرمپ کا معاملہ یہ ہے کہ ''تھوتھا چنا' باجے گھنا۔''

ٹرمپ کے بعض صلاح کار شاہ سے بھی زیادہ وفادار ہونے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور آئے دن انھیں نئی سے نئی پٹیاں پڑھا کر اپنے اپنے نمبر بڑھوانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب ان کے وہ مشیران کرام ہیں جو نہایت ادب سے دست بستہ کھڑے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ''حضور! جان کی امان پائیں تو کچھ عرض کریں۔'' یہ بے چارے اپنے آقا کے خیر خواہ ہیں اور انھیں بھلے اور برے کا فرق سمجھانا چاہتے ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ خودسری کا شکار ٹرمپ ان کی کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سرپھرے کو سمجھانا سب سے مشکل کام ہے۔ اس لیے تو کہا گیا ہے کہ:

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

اندھے کے ہاتھ بٹیر آجائے تو وہ جامے سے باہر ہوجاتا ہے۔ لگتا ہے ٹرمپ کا معاملہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔ امریکی صدارت کا حاصل ہوجانا ان کے لیے ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' والی کہاوت کے عین مترادف ہے۔ سیر کے برتن میں اگر سوا سیر ڈال دیا جائے تو اس کا چھلک جانا قطعی منطقی ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ اس صورتحال کے حوالے سے ہمیں اس وقت یہ شعر یاد آرہا ہے جو حسب حال ہے:

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

اس سے قبل ٹرمپ کے بعض ایلچی سمجھانے بجھانے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے پاکستان آئے تھے مگر پاکستان کی قیادت نے انھیں بخوبی یہ باور کرادیا کہ پاکستان نے اپنی بساط سے بھی بڑھ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں اور امریکا کے ''ڈو مور'' کے مطالبے کا واحد جواب اب صرف ''نو مور'' کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور اس کی بہادر فوج نے دہشت گردی کی بیخ کنی کی ایک لازوال اور بے مثال تاریخ رقم کی ہے جس کی ساری دنیا معترف ہے۔

چنانچہ امریکا کا ''ڈو مور'' کا مطالبہ ناصرف قطعی ناجائز بلکہ غیر حقیقی اور غیر منطقی ہے۔ دراصل امریکا کو افغانستان میں جس شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کی نفی کرنے کے لیے امریکا کا رویہ ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' والی کہاوت کے مترادف ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی سپر پار کہلانے والے امریکا کا بھرم پھوٹ چکا ہے۔ مبادہ کہ اسے پاکستان کی کمزوری تصور کیا جائے، پاکستان کی قیادت نے ٹرمپ انتظامیہ کے دھمکی آمیز رویے کا منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے دو ٹوک الفاظ میں امریکا کو یہ پیغام دے دیا کہ اگر امریکا نے پاکستان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے کی جرأت کی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کو وقتاً فوقتاً دھمکیاں دینا امریکا کی طرف سے کوئی انوکھی بات نہیں ہے آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اس وقت کے امریکی صدر بش نے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے امریکا کا ساتھ نہ دیا تو اسے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا جائے گا۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاک امریکا دوستی ''طوطا چشمی'' سے عبارت ہے جسے اگر ''امریکا چشمی'' کہا جائے تو زیادہ مناسب اور درست ہوگا۔ اس دوستی کے حوالے سے بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

ابن الوقتی اور مفاد پرستی امریکی خارجہ پالیسی کا خاصہ رہا ہے۔ جب جب امریکا کا مفاد وابستہ ہوتا ہے وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاتا ہے اور اپنا کام نکالنے کے بعد پاکستان کو ٹھینگا دکھا دیتا ہے۔ آج کل امریکا بھارت کے ساتھ نت نئی رنگ رلیاں منا رہا ہے اور مودی سرکار پر نت نئی مہربانیاں فرما رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی مودی ہے جس کے داخلے پر امریکا نے کبھی پابندی عائد کر دی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہرزہ سرائی پر سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا ہے کہ پاکستان امریکی صدر کے غیر ذمے دارانہ الزامات کے باوجود جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرے گا تاہم پاکستانی قوم اپنی حفاظت کرنا خوب جانتی ہے۔ ٹرمپ کی پاکستان مخالف اشتعال انگیزی پر قومی سلامتی کمیٹی کا ردعمل بروقت اور برمحل ہے۔ کمیٹی کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جلد بازی کے بجائے امریکا کو حقائق کے اعتراف پر سفارتی ذرایع سے مجبور کیا جائے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں کو یہ بھی باور کرایا جائے کہ وہ خطے میں بے امنی، جنگجوئی اور تباہی کا ہولناک کھیل کھیلنے سے باز رہیں۔

ٹرمپ کی طرف سے آیندہ 24 اور 48 گھنٹوں میں مزید اقدامات کرنے کی خطرے کی گھنٹی بھی بجائی گئی مگر پاکستان نے ضبط و تحمل کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے زمینی حقائق کے منافی اور پاکستان کی قربانیوں کی نفی قرار دیا ۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کردی گئی کہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب امریکی صدر کے پاکستان مخالف بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے سدابہار دوست چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اس بیان کو بالکل مسترد کردیا ہے اور باور کرایا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم الشان قربانیاں دی ہیں۔ پاک امریکا تعلقات کی داغ دار تاریخ میں دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں کی یہ بدترین صورتحال ہے۔

لگتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئی کروٹ لینے والی ہے جس کے نتیجے میں پاک امریکا تعلقات کی خلیج مزید گہری ہوگی لیکن حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ چھ ملکی اسپیکر کانفرنس اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان اس خطے میں اکیلا نہیں ہے۔ چین کے علاوہ ایران، ترکی اور روس بھی اب اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ نکتہ آغاز پاکستان اور خطے کی تاریخ کو امریکی سامراج کے چنگل سے چھڑانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔