روسی انتخابات میں حصہ لینے والی باہمت مسلم خاتون
اینا کے وطن، داغستان میں ان کے صدارتی امیدوار بننے کے اعلان کے ساتھ ہی جشن کا سلسلہ شروع ہوگیا
نیا سال دنیا میں بہت سارے ممالک میں ہونیوالے انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں اور مخالف جماعتوں کے بگڑنے والے رویوں کا مشاہدہ کرے گا ۔ مشرق وسطی، ایشیا، یورپ، افریقہ اور شمالی و جنوبی امریکا کے بے شمار خطوں میں نئے سیاسی چہرے ابھریں گے، طاقت کے نئے باب رقم ہوں گے،کہیں الزامات کی بوچھاڑ ہوگی توکہیں جیت کا جشن اور کہیں شکست کا سوگ منایا جائے گا۔
روس میں اقتدار عرصہ دراز سے ولادی میر پیوٹن کے نام سے ہی عبارت ہے، مسلسل چوتھی بار وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے جیت کے لیے پُرعزم ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کے پاس عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ایسا معیاری منصوبہ ہی نہیں، جس کی وجہ سے عوام اقتدار اُن کے حوالے کر دے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پیوٹن کے پاس کوئی جامع منصوبہ ہے بھی تو بھی روسی عوام کے ساتھ پوری دنیا کی نگاہیں، بے گناہ شامیوں کے خون سے رنگے ہوئے، پیوٹن کے ہاتھوں پر ہی مرکوز ہیں، جس کے باعث ، بین الاقوامی سطح پر ان کی شہرت کا چاند کتنا گہنا گیا ہے۔ ا س کو شاید مزید دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت میری تحریر کا مقصد پیوٹن کی مدح یا ہجو نہیں، بلکہ مارچ میں متوقع روسی صدارتی انتخابات میں ان کے مقابل کھڑی ہونے والی خاتون مسلم امیدوار اینا گیمزیٹوا ہیں۔ روس کے صدارتی امیدواروں کی قطار میں یوں تو خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں بزنس وومین الویرا، صحافی اور موسیقار اکترینا گورڈن، معروف ٹی وی اینکر کینیسیا سوبچک، پیپلزپارٹی کی ایریانا اور بہت سی دیگر شامل ہیں لیکن مغربی دنیا کو حیرت کا ایک جھٹکا اس وقت لگا جب اینا گیمزیٹوا نے صدارتی امیدوار کے لیے رجسٹریشن کروائی۔
اینا کا مذہب اسلام سے تعلق محض ظاہری ہی نہیں بلکہ وہ ایک نامور روسی مفتی کی اہلیہ ہونے کے ساتھ ساتھ باحجاب خاتون بھی ہیں۔ صدارتی انتخابات کے لیے اینا کی رجسٹریشن کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز تو ہوا ہی ہے ساتھ یورپ میں مسلمانوں کے مستقبل پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ روس کی نئی تاریخ رقم کرنے والی اینا کی وجہ شہرت ان کا صنف نازک ہونا نہیں بلکہ ان کا مذہب اسلام سے رشتہ ہے، جسے پوری دنیا میں مخالفت کا سامنا ہے۔
اینا کا انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کوئی معمولی بات نہیں بلکہ روس کی جدید تاریخ کا اہم واقعی ہے۔ صدارتی امیدوار کے لیے اس کی رجسٹریشن کے کاغذات محض چند صفحات نہیں بلکہ پیوٹن کے لیے پہلے سے موجود چیلینجز میں ایک اور چیلینج کا اضافہ ہے۔ چھیالیس سالہ اینا کا تعلق روسی وفاق کی جمہوریہ داغستان سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور روس کے سب سے بڑے اسلامی میڈیا گروپ'' اسلام آر یو'' کی ایڈیٹر ان چیف ہونے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لیے فلاحی ادارے بھی چلا رہی ہیں۔
انھوں نے مختلف موضوعات پر اسلامی لٹریچر بھی تحریر کیا ہے۔ دس سے پندرہ فی صد مسلم آبادی کے حامل ملک میں اینا کا بطور صدارتی امیدوار کھڑا ہونا اور پھر ان کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا بہت سے روسیوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ اینا نے کمال جرأت سے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان خواتین اپنی تعلیم اور شعور کے ساتھ کوئی بھی میدان سر کرنے کے قابل ہیں اور روس جیسے اسلام مخالف معاشرے میں ان کا مسلمان عورت ہونا مقصد کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکتا۔
اینا کے شوہر احمد عبداللہ داغستان کے مفتی اعظم ہیں۔ وہ اینا کے دوسرے شوہر ہیں۔ ان کے پہلے شوہر بھی نامور مسلم راہ نما تھے، جن کو پچاس کی دہائی میں قتل کردیا گیا۔ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اینا اس وقت روس کی مسلم آبادی کی توجہ کا مرکز تو ہیں ہی بین الاقوامی میڈیا بھی ان کو خاص اہمیت دے رہا ہے۔ الجزیرہ کے ساتھ، جرمن، ایرانی، انڈونیشیائی اور بوسنیائی میڈیا میں تو ان کا بڑا چرچا ہے۔
اینا کے وطن، داغستان میں ان کے صدارتی امیدوار بننے کے اعلان کے ساتھ ہی جشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ داغستان روس کا وہ شورش زدہ خطہ ہے جہاں روسی افواج اور قبائلیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہزاروں لوگوں کا خون بہایا جاچکا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ انتخابات میں اینا کی فتح کے کتنے فی صد امکانات روشن ہیں! یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ روسی شہری ہونے کے ناتے انھوں نے انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے حق کو نہایت بہادری کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو اینا کے اس قدم سے نہ صرف حوصلہ ملے گا بلکہ اسلام کا قائم ہونے والا منفی تاثر بھی زائل ہوسکے گا۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ روس کے اندر بہت سارے عناصر مل کر اینا کی ہمت توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کی سوچ کو احمقانہ قرار دے کر مذاق اُڑا رہے ہیں۔ شاید وہ اس سوچ سے ہی خوف زدہ ہیں کہ مسلمان روس میں طاقت نہ پکڑلیں۔
روس جو ایک عرصے سے اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ہے اور ان کو اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا ذمے دار بہت ذمے داری سے گردانتا ہے، وہاں اینا کا مسلمان ہونا ان کے لیے صرف مشکلات ہی لے کر آئے گا مگر وہ مغرب میں اسلام کی تجدیدِ نو کے لیے پُرعزم اور پر امید ہیں۔
روس کے صدارتی انتخابات میں میں اکیس سیاسی جماعتیں اور تیس آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تو واضح ہے کہ اینا کے لیے مقابلہ سخت ہے اور مخالفین کے مطابق ان کی جیت کے امکانات بھی معدوم ہیں، تو اُن کی بات کرلی جائے جو جیت کے لیے پُرعزم ہیں یعنی مسٹر پیوٹن! توگزشتہ کئی سالوں میں پیوٹن کی طرف سے ہونے والے غیردانش مندانہ فیصلوں سے روس کے اندر اگر بے روزگاری کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوا تو روس کے باہر شام کی سرحد پر قومی وسائل کے ضیاع پر بھی عوام چیں بجبیں ہوئے، جس کے باعث اندرونِ خانہ پیوٹن کی مقبولیت کا گراف گرچکا ہے، اس کے باوجود اگر پیوٹن فتح کے لیے پُرامید ہیں تو اینا کیوں ناامید ہوں؟ جب کہ ان کے پاس نئے روس کی تعمیر کا ایک واضح منشور بھی موجود ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دیے جانے والے ایک پیغام میں اینا کا کہنا ہے کہ روس ہمارا ملک ہے۔ ہم اسے عیسائیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی حکومت بھی کامیابی سے نہیں چل سکے گی۔ ساتھ ہی اینا نے شمالی قفقاز میں سرگرم ان جنگجوؤں کی سخت مخالفت کی جو وہاں علیحدہ اسلامی ریاست کی تشکیل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ جیت کے لیے اینا کو سخت مقابلہ درپیش ہے۔ پیوٹن کے مقابلے میں اس وقت سب سے مضبوط امیدوار لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف رشیا کے سربراہ Vladimir Zhirinovskyہیں۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اینا کو کامیابی کے لیے تین لاکھ دستخطوں کی ضرورت ہے، جو بلاشبہ مشکل امر ہے۔ یہ امر اینا کے مسلمان ہونے کے باعث مشکل ترین بھی ہوگیا ہے۔
روسی سرزمین پر ہمیشہ مسلمانوں کی تصویر کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ انیسویں صدی میں ٹالسٹائی سمیت دیگر روسی مصنفین کی کہانیوں کی اصل تھیم روسی افسروں اور اسلامی جنگجوؤں کی باہمی جنگ رہی ہے۔ اسی تھیم کو اب تک روسی میڈیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ پیوٹن کا پسندیدہ اینکر مائٹری کیسیلیو گزشتہ ایک سال سے اپنے ہفتہ وار پروگرام میں روس کی شام میں جنگ کی کچھ ایسی ہی تھیم بناکر پیش کر رہا ہے۔ اس نے ایک پروگرام میں یہاں تک کہا کہ روس چوتھی بار دنیا کو بربریت سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ چوتھی بار کیسے؟ تو موصوف نے کہا کہ آئیے شمار کرتے ہیں: پہلی بار منگولوں سے، دوسری بار نپولین سے، تیسری بار ہٹلر سے اور اب چوتھی بار مسلمانوں سے۔
اس پورے منظرنامے میں فتح اور شکست کی بحث سے بالاتر ہوکر اینا گیمزیٹوا کی ہمت کو سلام ہے۔ روسی سرزمین پر نہیں تو کم از کم پوری اسلامی دنیا میں اینا زبردست پذیرائی کی حقدار ہیں۔
روس میں اقتدار عرصہ دراز سے ولادی میر پیوٹن کے نام سے ہی عبارت ہے، مسلسل چوتھی بار وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے جیت کے لیے پُرعزم ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کے پاس عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ایسا معیاری منصوبہ ہی نہیں، جس کی وجہ سے عوام اقتدار اُن کے حوالے کر دے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پیوٹن کے پاس کوئی جامع منصوبہ ہے بھی تو بھی روسی عوام کے ساتھ پوری دنیا کی نگاہیں، بے گناہ شامیوں کے خون سے رنگے ہوئے، پیوٹن کے ہاتھوں پر ہی مرکوز ہیں، جس کے باعث ، بین الاقوامی سطح پر ان کی شہرت کا چاند کتنا گہنا گیا ہے۔ ا س کو شاید مزید دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت میری تحریر کا مقصد پیوٹن کی مدح یا ہجو نہیں، بلکہ مارچ میں متوقع روسی صدارتی انتخابات میں ان کے مقابل کھڑی ہونے والی خاتون مسلم امیدوار اینا گیمزیٹوا ہیں۔ روس کے صدارتی امیدواروں کی قطار میں یوں تو خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن میں بزنس وومین الویرا، صحافی اور موسیقار اکترینا گورڈن، معروف ٹی وی اینکر کینیسیا سوبچک، پیپلزپارٹی کی ایریانا اور بہت سی دیگر شامل ہیں لیکن مغربی دنیا کو حیرت کا ایک جھٹکا اس وقت لگا جب اینا گیمزیٹوا نے صدارتی امیدوار کے لیے رجسٹریشن کروائی۔
اینا کا مذہب اسلام سے تعلق محض ظاہری ہی نہیں بلکہ وہ ایک نامور روسی مفتی کی اہلیہ ہونے کے ساتھ ساتھ باحجاب خاتون بھی ہیں۔ صدارتی انتخابات کے لیے اینا کی رجسٹریشن کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز تو ہوا ہی ہے ساتھ یورپ میں مسلمانوں کے مستقبل پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ روس کی نئی تاریخ رقم کرنے والی اینا کی وجہ شہرت ان کا صنف نازک ہونا نہیں بلکہ ان کا مذہب اسلام سے رشتہ ہے، جسے پوری دنیا میں مخالفت کا سامنا ہے۔
اینا کا انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کوئی معمولی بات نہیں بلکہ روس کی جدید تاریخ کا اہم واقعی ہے۔ صدارتی امیدوار کے لیے اس کی رجسٹریشن کے کاغذات محض چند صفحات نہیں بلکہ پیوٹن کے لیے پہلے سے موجود چیلینجز میں ایک اور چیلینج کا اضافہ ہے۔ چھیالیس سالہ اینا کا تعلق روسی وفاق کی جمہوریہ داغستان سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور روس کے سب سے بڑے اسلامی میڈیا گروپ'' اسلام آر یو'' کی ایڈیٹر ان چیف ہونے کے ساتھ انسانیت کی خدمت کے لیے فلاحی ادارے بھی چلا رہی ہیں۔
انھوں نے مختلف موضوعات پر اسلامی لٹریچر بھی تحریر کیا ہے۔ دس سے پندرہ فی صد مسلم آبادی کے حامل ملک میں اینا کا بطور صدارتی امیدوار کھڑا ہونا اور پھر ان کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا بہت سے روسیوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ اینا نے کمال جرأت سے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان خواتین اپنی تعلیم اور شعور کے ساتھ کوئی بھی میدان سر کرنے کے قابل ہیں اور روس جیسے اسلام مخالف معاشرے میں ان کا مسلمان عورت ہونا مقصد کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکتا۔
اینا کے شوہر احمد عبداللہ داغستان کے مفتی اعظم ہیں۔ وہ اینا کے دوسرے شوہر ہیں۔ ان کے پہلے شوہر بھی نامور مسلم راہ نما تھے، جن کو پچاس کی دہائی میں قتل کردیا گیا۔ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اینا اس وقت روس کی مسلم آبادی کی توجہ کا مرکز تو ہیں ہی بین الاقوامی میڈیا بھی ان کو خاص اہمیت دے رہا ہے۔ الجزیرہ کے ساتھ، جرمن، ایرانی، انڈونیشیائی اور بوسنیائی میڈیا میں تو ان کا بڑا چرچا ہے۔
اینا کے وطن، داغستان میں ان کے صدارتی امیدوار بننے کے اعلان کے ساتھ ہی جشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ داغستان روس کا وہ شورش زدہ خطہ ہے جہاں روسی افواج اور قبائلیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہزاروں لوگوں کا خون بہایا جاچکا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ انتخابات میں اینا کی فتح کے کتنے فی صد امکانات روشن ہیں! یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ روسی شہری ہونے کے ناتے انھوں نے انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے حق کو نہایت بہادری کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کو اینا کے اس قدم سے نہ صرف حوصلہ ملے گا بلکہ اسلام کا قائم ہونے والا منفی تاثر بھی زائل ہوسکے گا۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ روس کے اندر بہت سارے عناصر مل کر اینا کی ہمت توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کی سوچ کو احمقانہ قرار دے کر مذاق اُڑا رہے ہیں۔ شاید وہ اس سوچ سے ہی خوف زدہ ہیں کہ مسلمان روس میں طاقت نہ پکڑلیں۔
روس جو ایک عرصے سے اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ہے اور ان کو اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کا ذمے دار بہت ذمے داری سے گردانتا ہے، وہاں اینا کا مسلمان ہونا ان کے لیے صرف مشکلات ہی لے کر آئے گا مگر وہ مغرب میں اسلام کی تجدیدِ نو کے لیے پُرعزم اور پر امید ہیں۔
روس کے صدارتی انتخابات میں میں اکیس سیاسی جماعتیں اور تیس آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تو واضح ہے کہ اینا کے لیے مقابلہ سخت ہے اور مخالفین کے مطابق ان کی جیت کے امکانات بھی معدوم ہیں، تو اُن کی بات کرلی جائے جو جیت کے لیے پُرعزم ہیں یعنی مسٹر پیوٹن! توگزشتہ کئی سالوں میں پیوٹن کی طرف سے ہونے والے غیردانش مندانہ فیصلوں سے روس کے اندر اگر بے روزگاری کی شرح میں حیران کن اضافہ ہوا تو روس کے باہر شام کی سرحد پر قومی وسائل کے ضیاع پر بھی عوام چیں بجبیں ہوئے، جس کے باعث اندرونِ خانہ پیوٹن کی مقبولیت کا گراف گرچکا ہے، اس کے باوجود اگر پیوٹن فتح کے لیے پُرامید ہیں تو اینا کیوں ناامید ہوں؟ جب کہ ان کے پاس نئے روس کی تعمیر کا ایک واضح منشور بھی موجود ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دیے جانے والے ایک پیغام میں اینا کا کہنا ہے کہ روس ہمارا ملک ہے۔ ہم اسے عیسائیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی حکومت بھی کامیابی سے نہیں چل سکے گی۔ ساتھ ہی اینا نے شمالی قفقاز میں سرگرم ان جنگجوؤں کی سخت مخالفت کی جو وہاں علیحدہ اسلامی ریاست کی تشکیل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ جیت کے لیے اینا کو سخت مقابلہ درپیش ہے۔ پیوٹن کے مقابلے میں اس وقت سب سے مضبوط امیدوار لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف رشیا کے سربراہ Vladimir Zhirinovskyہیں۔ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اینا کو کامیابی کے لیے تین لاکھ دستخطوں کی ضرورت ہے، جو بلاشبہ مشکل امر ہے۔ یہ امر اینا کے مسلمان ہونے کے باعث مشکل ترین بھی ہوگیا ہے۔
روسی سرزمین پر ہمیشہ مسلمانوں کی تصویر کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ انیسویں صدی میں ٹالسٹائی سمیت دیگر روسی مصنفین کی کہانیوں کی اصل تھیم روسی افسروں اور اسلامی جنگجوؤں کی باہمی جنگ رہی ہے۔ اسی تھیم کو اب تک روسی میڈیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ پیوٹن کا پسندیدہ اینکر مائٹری کیسیلیو گزشتہ ایک سال سے اپنے ہفتہ وار پروگرام میں روس کی شام میں جنگ کی کچھ ایسی ہی تھیم بناکر پیش کر رہا ہے۔ اس نے ایک پروگرام میں یہاں تک کہا کہ روس چوتھی بار دنیا کو بربریت سے بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ چوتھی بار کیسے؟ تو موصوف نے کہا کہ آئیے شمار کرتے ہیں: پہلی بار منگولوں سے، دوسری بار نپولین سے، تیسری بار ہٹلر سے اور اب چوتھی بار مسلمانوں سے۔
اس پورے منظرنامے میں فتح اور شکست کی بحث سے بالاتر ہوکر اینا گیمزیٹوا کی ہمت کو سلام ہے۔ روسی سرزمین پر نہیں تو کم از کم پوری اسلامی دنیا میں اینا زبردست پذیرائی کی حقدار ہیں۔