غلطیاں نہ ماننے والا سیاستدان

جس پنجاب پر نواز شریف فخر کرتے ہیں اسی پنجاب کی اسمبلی کی اکثریت نواز شریف کو چھوڑ چکی تھی

میاں نواز شریف کو ملک کی ستر سالہ تاریخ میں تین بار اور تقریباً نو سال ملک کا وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہے جب کہ پنجاب کا دو بار وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ رہنے کا شرف بھی انھیں ملا ہوا ہے۔ جنرل جیلانی نے جب انھیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا تھا، اس وقت وہ سیاستدان کم اور ایک بڑے صنعتکار زیادہ تھے۔

وہ تحریک استقلال میں بھی رہے مگر وہ سیاستدان مسلم لیگ میں آکر بنے، جو جنرل ضیا الحق شہید کی خواہش پر بنی تھی جس کے سربراہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے جن کو پیرپگاڑا کے بقول انھوں نے جنرل ضیا کو 1985 میں ادھار دیا تھا اور انھی کے دور میں نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے گئے تھے۔ جونیجو صاحب شریف سیاستدان تھے جو جنرل ضیا کے ساتھ نہ چل سکے اور 1988 میں برطرف کیے گئے تو جنرل ضیا الحق نے جو نگراں حکومت بنائی اس میں نواز شریف دوبارہ عبوری مدت کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد ہوئے، جس کے بعد 17 اگست 1988 کو جنرل ضیا کی شہادت کے بعد جو انتخابات ہوئے۔

اس میں مسلم لیگ کو پنجاب میں اور پیپلز پارٹی کو وفاق اور سندھ میں زیادہ نشستیں ملنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم پہلی بار اور نواز شریف دوسری بار منتخب ہوئے جب کہ مسلم لیگ ہی کے غلام اسحق خان صدر مملکت منتخب ہوئے تھے۔ محترمہ بے نظیر 1990 میں برطرف ہوئیں تو پی این اے زیادہ نشستیں لے کر اقتدار میں آیا اور نواز شریف پنجاب میں زیادہ نشستیں لینے کی وجہ سے غلام مصطفیٰ جتوئی کی بجائے پہلی بار ملک کا وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوگئے ۔ پی این اے کے ساتھ بھی نہ چل سکے اور مسلم لیگ نواز بناکر اس کے صدر منتخب ہوگئے اور نواز شریف صدر غلام اسحق خان کو بھی ناراض کر بیٹھے جب کہ اسلامی جمہوری اتحاد میں بھی پہلے ہی ان کی حکومت سے ناراضگی تھی مگر نواز شریف نے کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہ کی اور صدر اسحق کے ہاتھوں 1992 ہی میں برطرف ہوگئے اور ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا۔

سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد بھی انھوں نے اپنی ہی مسلم لیگ کے صدر مملکت سے اختلافات دور نہیں کیے اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کرکے صدر اسحق خان اور وزیر اعظم نوازشریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ عدالتی بحالی کے وقت پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت اور غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ اور نہایت شریف آدمی تھے اور منظور وٹو اسپیکر پنجاب اسمبلی تھے جنھوں نے صدر اسحق کی مدد لے کر راتوں رات مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملاکر غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک اعتماد میں کامیابی حاصل کی اور خود وزیر اعلیٰ بن گئے ، انھیں پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے مخالف حامد ناصر چٹھہ کی بھی مدد حاصل تھی کہ جنھوں نے نواز شریف سے ناراض ہوکر مسلم لیگ جونیجو بحال کر رکھی تھی اور وہ جونیجو لیگ کے صدر تھے۔


جس پنجاب پر نواز شریف فخر کرتے ہیں اسی پنجاب کی اسمبلی کی اکثریت نواز شریف کو چھوڑ چکی تھی اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے اپنے ہی ارکان قومی اسمبلی کو ایک ماہ میں صرف دو منٹ ملاقات کا وقت دیتے تھے اور یہ بات اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات پنجاب ڈاکٹر صفدر محمود نے راقم کو ملاقات میں بتائی تھی۔

مرحوم پیرپگاڑا کی تنقید نے نواز شریف کو صنعتکار سے ایک سیاستدان بننے پر راغب کیا تھا مگر وہ ایک مکمل عوامی لیڈر تین بار اقتدار میں رہ کر نہیں بن سکے اور نہ کبھی عوام کے مزاج، سیاسی حالات اور حکومتی باریکیوں کو سمجھ سکے اور فوج کو ساتھ لے کر نہ چل سکے۔ نواز شریف نے ہمیشہ مکمل بااختیار حکمرانی کی کوشش کی اور تو اور وہ اپنے قریبی ساتھیوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیتے تھے اور من مانے فیصلے کرتے تھے اور اسی جلد بازی میں انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش کی اور الٹا خود ہٹا دیے گئے۔

جمہوریت میں نہ بادشاہت ہوتی ہے نہ من مانی مگر نواز شریف کبھی اپنے قریبی ساتھیوں اور سیاسی حلیفوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے جس کی وجہ سے دیرینہ مسلم لیگی رہنما ان سے دور ہوتے گئے جنھیں منانے کی نواز شریف نے خود کبھی کوشش نہیں کی ۔ آصف زرداری کو خوش رکھنے کے لیے انھوں نے سندھ حکومت کو مکمل فری ہینڈ دیا اور اپنی مسلم لیگ سندھ سے ختم کرالی مگر پھر بھی آصف زرداری ان کے سیاسی دشمن بنے ہوئے ہیں اور صرف مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی ہی اب تک ان کے حلیف چلے آرہے ہیں۔

نواز شریف نے کبھی قائد اعظم بننے کی کوشش کی کبھی ذوالفقار علی بھٹو مگر ناکام رہے اور حقیقی عوامی رہنما نہ بن سکے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ان کے تحفظات کافی حد تک درست ہیں مگر انھیں انتہا تک نہیں جانا چاہیے اور اپنے بھائی شہباز شریف کا ہی مشورہ مان لینا چاہیے وگرنہ مسلم لیگ (ن) کے بکھرنے کی نوبت آچکی ہے من مانیوں نے انھیں بند گلی میں دھکیل دیا ہے اور اپنی پالیسی سے وہ اپنے ساتھیوں سے بھی دور ہو رہے ہیں اور عدالتی شکنجہ بھی ان کے گرد تنگ ہو رہا ہے۔
Load Next Story