غیر فوجی کالم

1971 کی جنگ میں وہ مشرقی پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں خدمات انجام دیتے رہے

SUKKUR:
''غیرفوجی کالم'' بریگیڈیئر صولت رضا کے وہ منتخب کالم ہیں جو انھوں نے 2003 میں آئی ایس پی آر سے ریٹائر ہونے کے بعد فوج کے ترجمان جریدے ''ہلال'' کے لیے لکھے۔

پہلا کالم صدیق سالک کی یاد میں ہے۔ لکھتے ہیں ''بریگیڈیئر صدیق سالک نے ڈائریکٹر آئی ایس پی آر کا عہدہ سنبھالا تو پورے دفتر میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔ یہ کیفیت غیر متوقع نہیں تھی۔ اسٹاف کو معلوم تھا کہ مزاج یار بچپن سے ''عاشقانہ'' ہے۔ میں آئی ایس پی آر لاہور میں تعینات تھا۔ میرے ایک رفیق کار نے راولپنڈی سے کانپتی آواز میں اطلاع دی کہ بریگیڈیئر سالک نے آئی ایس پی آرکی کمان سنبھال لی ہے اور آج انھوں نے بڑے سخت احکامات صادر کیے ہیں۔ 'اچھا ٹھیک ہے۔ ابھی یہ احکامات لاہور نہیں پہنچے ہیں۔' میرا جواب سن کر موصوف بولے، آپ خوش نہ ہوں۔ عنقریب ریجنل دفاتر کی شامت آنے والی ہے۔ میں نے جواب دیا، بھائی ہمارا کیا ہے پہلے ایک گگلی بالر (بریگیڈیئر تفصل حسین صدیقی) کا سامنا کرتے رہے، اب فاسٹ بالر آگیا ہے تو سر پر ہیلمٹ پہن لیتے ہیں اور باہر جاتی ہوئی تیز گیند سے فاصلہ رکھیں گے۔ دو چار روز کی بات ہے سب ٹھیک ہوجائے گا۔''

دوسرے دن صبح ساڑھے آٹھ بجے سالک صاحب کا فون آیا ۔ صولت رضا نے پرزور انداز میں کہا ''السلام علیکم سر! بہت بہت مبارک ہو۔'' دوسری طرف سے آواز آئی ''شکریہ میجر صولت رضا! آپ نے ہیلمٹ خرید لیا ہے؟'' ایک لمحے کے لیے صولت رضا سناٹے میں آگئے۔ کہنے لگے ''جی سر۔۔۔۔یس سر! ساڑھے سات بجے سے پہن کر بیٹھا ہوں۔''

صولت رضا لکھتے ہیں ''میرا جواب سن کر ادیب صدیق سالک ڈائریکٹر آئی ایس پی آر پر حاوی آگیا۔ ایک ہلکا سا قہقہہ فون پر سنائی دیا تو میرے اوسان بحال ہوئے۔ میں نے خوشامدانہ لہجے میں ایک اور فقرہ آگے بڑھایا۔ سر! آپ کی کمان میں آغاز سے ہی مخبری کا نظام بہت اعلیٰ دکھائی دیتا ہے۔ سالک صاحب کب چوکنے والے تھے، فوراً بولے ۔ '' فی الحال اس شعبے میں پہلے سے تعینات اسٹاف سے استفادہ کر رہا ہوں لہٰذا آپ زیادہ محتاط رہیں۔''

صولت رضا لکھتے ہیں ''صدیق سالک نے فوج میں کمیشن سے شہادت تک مثالی محنت، جذبے اور جوانمردی کے ساتھ فرائض انجام دیے۔ انھوں نے زندگی کا ہر لمحہ بھرپور انداز میں بسر کیا۔ وہ ترقی کی منازل طے کرتے رہے، کیپٹن، میجر، لیفٹیننٹ کرنل، فل کرنل اور بریگیڈیئر۔ اس کے بعد بھی مزید ترقی ان کی راہ میں تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جون 88 میں سال چھ ماہ بعد باعزت ریٹائرمنٹ کی آرزو کرنے والا صدیق سالک 17 اگست88 کو عسکریوں کی اس تابندہ صف میں شامل ہوگیا جو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ روزانہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آتے کیونکہ ہم اس کا شعور نہیں رکھتے۔''

کرنل قلب عباس دل کے مریض تھے۔ بائی پاس ہوچکا تھا۔ حج کو جانے کی تمنا تھی۔ ڈاکٹر سے پوچھا، چلا جاؤں؟ ڈاکٹر نے کہا، ارادہ ملتوی کیجیے۔ انھوں نے پھر سوال کیا، کیا سفر حج ملتوی کرنے سے میری زندگی بچ جائے گی؟ ڈاکٹر نے جواب دیا، ہر گز نہیں۔ صولت رضا لکھتے ہیں۔ '' قلب عباس نے اپنی طویل عسکری زندگی میں موت کو کئی بار قریب سے دیکھا تھا ، شاید ہر فوجی کو جو خود کو پیشہ ورانہ ترجیحات کے لیے وقف کردیتا ہے، اکثر ایسے مواقعے کا سامنا کرنا ہوتا ہے جب زندگی کھلی آنکھ سے موت کو اپنی طرف بڑھتے دیکھتی ہے۔'' قلب عباس نے یہ کیا کہ بیوی کو ساتھ لیا اور حج بیت اللہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں ان کے قافلے میں ایک ریٹائرڈ فوجی اور تھا، اور وہ بریگیڈیئر صولت رضا تھے۔ کرنل صاحب صولت سے خاصے سینئر تھے۔


1971 کی جنگ میں وہ مشرقی پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں خدمات انجام دیتے رہے۔ سرنڈر ہوا تو بھارت کی قید میں چلے گئے۔ واپس آئے تو دوبارہ اپنے یونٹ میں چلے گئے۔ صولت رضا لکھتے ہیں ''کسی نے گزرے دنوں کی یادداشتیں لکھنے کا مشورہ دیا۔ انھوں نے المیہ مشرقی پاکستان کو ایک نوجوان افسر کی حیثیت سے منفرد انداز میں دیکھا تھا۔ کبھی کبھار قابل اعتماد دوستوں کی محفل میں عبرت ناک قصے سنا دیا کرتے تھے لیکن انھیں ضبط تحریر میں لانا ان کے نزدیک عسکری روایات کے منافی تھا۔ میرے اصرار پر گلوگیر آواز میں کہا، کیا اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاؤں! لکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ہم سبق حاصل کرنے والی قوم نہیں۔''

اگرچہ حج کے مراحل معمول سے ہٹ کر صحت کے طلب گار تھے۔ سید قلب عباس ان سب سے بہ خوبی گزرے۔ فریضہ حج مکمل ہوا۔ دسمبر میں گئے تھے، اپریل میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 17 اگست کے حوالے سے صولت ایک کالم میں لکھتے ہیں ''پاکستان کے نامور صحافی محمد صلاح الدین ایک مرتبہ جنرل محمد ضیا الحق سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ میں آئی ایس پی آر کی جانب سے ان کے ہمراہ تھا۔ قریباً ایک گھنٹہ ملاقات کے بعد دونوں کمرے سے باہر نکلے تو میں بھی اے ڈی سی کے دفتر سے نکل کر ساتھ کھڑا ہوگیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ محمد صلاح الدین فوری انتخابات کے لیے دلائل دے رہے تھے اور جواب میں ایک دل آویز مسکراہٹ تھی۔

محمد صلاح الدین کے چند جملے تلخ بھی تھے لیکن جنرل ضیا الحق کمال مہربانی سے پی گئے۔ ہم دونوں آرمی ہاؤس، جہلم روڈ، راولپنڈی کے سادہ سے پورچ میں سرکاری گاڑی میں بیٹھ گئے تو ڈرائیور نے بتایا کہ کار بند ہوگئی ہے۔ شاید دھکے کی ضرورت ہے۔ میں فوراً نیچے اتر پڑا۔ دو تین فوجی جوان بھی لپکے۔ لیکن ہم سب سے پہلے صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور چیف آف دی آرمی اسٹاف کا ہاتھ اپنے ''نکتہ چیں'' کی کار پر تھا۔ گاڑی فوراً اسٹارٹ ہوگئی۔ راستے میں صلاح الدین نے کہا، یہ شخص اپنے رویے سے دوسروں کو ''ختم'' کردیتا ہے۔ محمد ضیا الحق کی زندگی ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ یوں گیارہ برس گزر گئے اور جب ان کا جسد خاکی شاہ فیصل مسجد کے احاطے میں سپردخاک کیا گیا تو وطن عزیز ایک بار پھر سیاسی، سماجی اور داخلی بحران کا شکار تھا۔ کیا یہ گیارہ برس ضایع ہوگئے یا محمد ضیا الحق طرز حکمرانی کے حوالے سے قیمتی اثاثہ چھوڑ گئے۔ یہ فیصلہ ہونا باقی ہے۔''

''سرکار کے عوامی جلسے'' کے عنوان سے ایک کالم میں صولت رضا لکھتے ہیں۔ '' صحیح تاریخ مجھے یاد نہیں، بھٹو صاحب کوئٹہ تشریف لائے۔ اس موقعے پر اہم ترین عوامی تقریب کوئٹہ میں جلسہ عام تھا جو اسمبلی ہال کے قریب ترتیب دیا گیا تھا۔ مجھے اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک آرمی یونٹ میں لاتعداد جوان قطار بنائے باربر کے زیر مشق نظر آئے۔ قریب ہی ایک صوبیدار صاحب کھڑے تھے۔ ان سے پوچھا تو کہنے لگے، سر! کل بھٹو صاحب کے فنکشن میں جانا ہے۔

گھر سے متعلقہ حکام کو فون کیا۔ عوامی جلسے کے علاوہ اور کوئی تقریب نہیں تھی۔ فوجی جوانوں کا بھٹو صاحب کے جلسے میں کیا کام ہوسکتا ہے؟ بہرحال اعلیٰ ترین سطح سے یہ خبر ملی کہ پانچ سو کے لگ بھگ جوان اسٹیج کے قریب سول لباس میں سیکیورٹی زون بنائیں گے۔ بلوچستان میں جاری آپریشن کی وجہ سے وزیر اعظم کی حفاظت ضروری ہے لیکن یہ اخبار میں نہیں آنا چاہیے۔ میں نے اعلیٰ ترین سطح سے گزارش کی جوانوں کی حجامت روکی جائے تاکہ کم ازکم بالوں کی کٹنگ سے 'جیالے' شک نہ کریں۔ حکم کے مطابق جلسہ شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے حاضر سروس فوجی اسٹیج کے قریب براجمان ہوگئے۔ میں بھی ہمراہ تھا۔ عوام سیکیورٹی زون سے باہر تھے۔

بھٹو صاحب اپنے مخصوص اسٹائل میں اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ ہر طرف تالیاں ہی تالیاں تھیں۔ پانچ سو نوجوانوں کی تالیاں ان کے سیکشن کمانڈر کنٹرول کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب کی تقریر شروع ہوئی ۔ انھوں نے بلوچستان کے ''باغی'' سرداروں پر کڑی تنقید کی۔ 'میں انھیں سبق سکھاؤں گا۔ کوہلو تک سڑک بنے گی، اسپتال تعمیر ہوں گے، کوئٹہ میں ایک اور یونیورسٹی بنائیں گے، گیس آئے گی۔ ہتھیار ڈال دو۔ معاف کردوں گا۔' بھٹو صاحب گرج رہے تھے۔

اسٹیج کے پائیدان پر صابر بلوچ ایم پی اے بیٹھے نعرے لگوا رہے تھے۔ 'قائد عوام' وہ پکارتے دور سے گلوگیر انداز میں جیالے چلاتے 'زندہ باد!' ان سے رہا نہیں گیا۔ وہ طیش کے عالم میں ہماری طرف بڑھے اور تقریباً چیختے ہوئے کہا 'تم لوگ نعروں کا کیوں نہیں جواب دیتے؟' سب سے آگے فرش پر بیٹھے سفید پوش صوبیدار نے کہا، صاحب! صرف نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کا آرڈر ہے۔ کس نے حکم دیا ہے، صابر بلوچ پھر چلائے۔ اس دوران ان کی نظر مجھ پر رک گئی۔ میں نے اشارے سے سلام کیا۔ آئی ایس پی آر کے حوالے سے وہ مجھے جانتے تھے۔ اخبارات میں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ان کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ انھوں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا اور زمین پر بیٹھ گئے۔
Load Next Story