ایک اور پارسا شخص کی ڈانگ کا انتظار
اس ملک میں وزیر اعظم تو وہ شخص بنتا ہے جس کی جماعت کے پاس 342 اراکین والی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت موجود ہو۔
ایک دوسرے پر کیچڑ سے بھری بالٹیاں پھینکتے ہوئے میاں محمد نوازشریف اور عمران خان کے متوالے اور پروانے ایک بنیادی بات بھولے بیٹھے ہیں اور وہ یہ کہ ان دونوں میں سے کسی ایک نے وزیر اعظم بننے کے بعد ہی ہمیں ترقی اور خوشحالی کی راہوں پر ڈالنا ہے۔
اب اس ملک میں وزیر اعظم تو وہ شخص بنتا ہے جس کی جماعت کے پاس 342 اراکین والی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت موجود ہو۔ یہ اکثریت کمزور یا موجود نہ ہونے کی صورت میں دوسری جماعتوں سے مدد مانگی جاتی ہے۔ ان کے لوگوں کو وزارتوں میں لینا ہوتا ہے۔ ان کے نخرے اُٹھانا ہوتے ہیں۔
342 اراکین قومی اسمبلی میں سے 272 افراد براہِ راست انتخابات کے ذریعے اس ایوان میں آتے ہیں اور یہ انتخابات محض اٹک سے ملتان تک پھیلے ہوئے حلقوں میں نہیں ہوتے۔ جی ٹی روڈ اور پشاور۔ لاہور موٹروے سے دور بھی ایک پاکستان ہے۔ اس میں بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی شامل ہیں۔ مانسہرہ اور ایبٹ آباد بھی۔
پھر جنوبی پنجاب ہے جہاں محض ملتان اور اس کے گرد و نواح کے قصبے ہی نہیں بہاولپور اور بہاولنگر بھی ہیں۔ ایک علاقہ ڈیرہ غازی خان بھی ہوا کرتا ہے۔ پھر سندھ ہے جہاں شہر بھی ہیں اور دیہات بھی۔ 1988 سے کراچی اور حیدر آباد ایک جماعت کو اور باقی سندھ کی اکثریت ایک اور جماعت کو ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں۔
نواز شریف اور عمران کو وزیر اعظم بنانے کی کوششوں میں ہلکان متوالوں اور پروانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں بہت طاقتور ہو گئی ہیں۔
وہ ساتھ نہ ہوں تو وزیر اعظم کتنا ہی طرم خان کیوں نہ ہو خلقِ خدا کو ان کی گلی اور محلے میں اپنی ذہانت و فطانت کے جلوے نہیں دکھا سکتا۔
قصہ مختصر یہ کہ نواز شریف اور عمران خان کے متوالوں اور پروانوں کو سارا زور اس بات پر صرف کرنا چاہیے کہ آیندہ انتخابات وقت ِ مقررہ پر ہوں۔
وہ آزادانہ اور منصفانہ بھی ہوں اور ان میں جو ووٹ پڑیں وہ پاکستان مسلم لیگ یا تحریک انصاف کو صرف قومی اسمبلی میں ہی اکثریت نہ دلوائیں بلکہ چاروں صوبوں میں ان جماعتوں کی حکومت قائم کرنے کی راہ بھی ہموار کریں۔
چلتے چلتے مجھے یہ بات بھی یاد دلانے دیجیے کہ ہمارے ہاں ایک منتخب ادارہ سینیٹ بھی ہوا کرتا ہے۔ وہاں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو آج کل دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ اس اکثریت کو توڑے بغیر آیندہ کوئی بھی سکون سے حکومت نہیں کر پائے گا۔ اس حقیقت کو سمجھنا ہو تو ذرا 1999 یاد کر لیجیے گا۔
نواز شریف کی ان دنوں قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہوا کرتی تھی۔ اسی کے بل بوتے پر انھوں نے وہاں سے ''شریعت بل'' منظور کرا لیا۔ میرے جیسے'' شیطان ''کے بہکائے لوگوں نے مشہور کر دیا کہ میاں صاحب اس بل کے ذریعے پاکستان کے پہلے منتخب امیر المومنین بننا چاہ رہے ہیں۔
سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہ تھی۔ وہاں اپوزیشن ڈٹ گئی اور نواز شریف اس بل کو اس ایوان میں پیش ہی نہ کر پائے اور بالآخر جنرل پرویز مشرف آ گئے جنہوں نے گج وج کے نو سال حکومت کی۔
نواز شریف اور عمران خان کے متوالوں اور پروانوں کو ان ساری پیچیدگیوں کی کچھ خبر ہی نہیں جن کا میں نے سرسری سا تذکرہ کیا ہے۔ وہ تو پے در پے پریس کانفرنسوں اور ٹیلی وژن ٹاک شوز کے ذریعے ایک دوسرے پر کیچڑ سے بھری بالٹیاں پھینکنے میں مصروف ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے وہ ظالمانہ حد تک پہنچی بے حسی کے سبب یہ حقیقت بھول بیٹھے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہوری ادارے اپنی وقعت اور قوت کھوبیٹھے ہیں۔
اس بحث میں اُلجھے بغیر کہ یوسف رضا گیلانی کو ''وہ چٹھی'' لکھنا چاہیے تھی یا نہیں حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی پارلیمانی جمہوریتوں میں وزیر اعظم کو ان کا منتخب کردہ ادارہ ہی گھر بھیجا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں وہ عدالت کے ایک حکم پر الیکشن کمیشن سے گزرے بغیر ہی یوں فارغ کر دیے گئے جیسے آپ گھر کے ایک ملازم کی چھٹی کر دیا کرتے ہیں۔
راجہ پرویز اشرف کا انجام بھی ان سے مختلف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ نئے انتخابات کے بعد جو وزیر ا عظم آئے گا، اس کے خلاف بھی لوگ عدالتوں میں جایا کریں گے۔ 1997میں بھی تو یہی ہوا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ بھڑ جانے کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت مزید اکیلی ہو گئیں جب ان کے اپنے بنائے صدر چیف جسٹس کے ساتھ مل گئے۔
ان کی رخصتی ہوئی تو نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ وزیر اعظم بنے۔ مگر اس دوران عدالت کو اپنی قوت کا بھرپور اندازہ ہو چکا تھا۔ وہ بدستور متحرک رہی اور بالآخر فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ کو گھر جانا پڑا۔ ''عوامی طاقت'' کے بل بوتے پر بحال اور بے تحاشہ متحرک ہوئی عدالت نے تو اب بہت ساری نئی منازل سر کر لی ہیں۔
نواز شریف اور عمران خان اسے وزیر اعظم بن جانے کے بعد روزانہ نت نئی خبریں بنانے سے نہیں روک سکیں گے۔ 1985 سے اقتدار کے کھیل کو بہت قریب سے دیکھنے اور اس میں اہم کردار ادا کرنے کے سبب ہی چوہدری نثار علی خان آنے والے دنوں کی حدت کو کچھ سمجھ پائے اور فوراََ وہ سخت سا بیان جاری کر دیا جس میں عدالت کے ان ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا جو اس نے توہین عدالت کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران اپوزیشن کے کردار کے بارے میں ادا کیے تھے۔ مگر یہ تو محض آغاز ہے، بات چل نکلی ہے، دور تلک جائے گی۔
عدالتی معاملات سے قطع نظر ایک بہت ہی اہم معاملہ پاکستان کے دفاعی اور خارجہ امور سے تعلق رکھتا ہے۔ نومبر2011ء میں سلالہ کا سانحہ ہوا تو ہماری فوج کے بپھرے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نیٹو افواج کے لیے پاکستانی راستوں سے افغانستان جانے والی رسد بند کرنا پڑی۔ ہماری ''خود مختار پارلیمان'' کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنی اجتماعی دانش کو بروے کار لاتے ہوئے امریکا سے تعلقات کے ضمن میں راہ نما اصول طے کرے۔
چھ سے زیادہ مہینوں کے غور و خوض کے بعد رضا ربانی کی ''قومی سلامتی کمیٹی'' نے کچھ اصول طے کیے۔ بات آگے نہ بڑھی۔ پھر صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے بالا بالا ہمارے کسی زمانے میں ورلڈ بینک سے متعلق ڈاکٹر حفیظ شیخ میدان میں آئے۔ انھوں نے ٹامس نائیڈ سے تنِ تنہا مذاکرات کیے۔ ان مذکرات کے اختتام پر جو دستاویز تیار ہوئی اس کی حتمی منظوری پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف نے دی۔ رسد کھول دی گئی۔
رسد کھل جانے کے بعد یہی دستاویز کابینہ کے سامنے رکھی گئی جس کے اراکین نے اس پر اپنے انگوٹھے لگا دیے۔ افغانستان جانے والی رسد بحال ہو گئی ہے مگر ڈرون حملے اب بھی جاری ہیں۔ انھیں روکنے کے لیے عمران خان ستمبر کے آخری دنوں میں تقریباََ ایک لاکھ کے ہجوم کے ساتھ وزیرستان جا پہنچنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔
ان کے وزیرستان پہنچنے سے پہلے مگر ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی واشنگٹن پہنچے۔ ان کی ملاقاتوں کے درمیان کیا طے ہوا یہ بات جنرل ظہیر السلام وطن لوٹنے کے بعد جنرل کیانی صاحب کو بتائیں گے۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو کب اور کیا بتایا جائے گا، ہمیں خبر نہیں۔ ہماری ضرورت سے زیادہ ''خود مختار پارلیمان'' کی قومی سلامتی کمیٹی اس دوران کیا کرے گی؟ ہمیں یہ بھی خبر نہیں۔ فی الحال توچسکے بھری خبریں یہ ہیں کہ خواجہ آصف نے کچھ کاغذات دکھائے ہیں۔
جواباََ عمران خان نے گیارہ سوال داغ دیے ہیں۔ را جہ پرویز اشرف کو 8 اگست کو سپریم کورٹ کو بتانا ہے کہ ''وہ چٹھی'' لکھی جانی ہے یا نہیں۔ ان خبروں سے بور ہو گئے ہوں تو چسکے لینے کے لیے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ اتنے برس اکٹھا رہنے کے بعد کھوسہ اور شریف خاندان کیوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
کچھ کہانیاں فیصل رضا عابدی بھی بڑی گھن گرج کے ساتھ سنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں دہرانے کی مجھ میں تو ہمت نہیں۔ بس تماشہ دیکھتے رہیے اور انتظار کیجیے کہ کب کوئی بہت ہی نیک اور پارسا شخص پاکستانی عوام کے بھیڑوں کی طرح منتشر غول کو اپنی ''ڈانگ'' چلا کر اکٹھا کرنے کے بعد کسی منزل کی طرف لے جاتا ہے۔