جیون ایک کہانی

1954ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
علی احمد خان نے اپنی زندگی کے 65 برسوںکی داستان کو ''جیون ایک کہانی'' کے عنوان سے کتاب میں منتقل کردیا۔ جیون ایک کہانی خان صاحب کے بچپن، مدراس، نوشہرہ، پشاور، کلکتہ، چٹاگانگ ، ڈھاکا اور کراچی میں گزرے واقعات پر مشتمل ہے۔ یہ ایسے شخص کی داستان ہے جس کے والد اور دو بھائی مکتی باہنی کے ہاتھوں قتل ہوئے مگر وہ پھر بھی بنگالیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

علی احمد خان لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت ہم لوگ مدارس کے قریب آوادی میں اپنے چچا کے ساتھ تھے جو رائل انڈین فورس میں تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرے دادا نے پورے خاندان کی پاکستان روانگی کی تجویز رکھی۔ میرے ابا نے انکار کردیا اور بیٹھک سے اٹھ کر چلے گئے۔ دوسرے دن صبح کو بغیر بتائے کلکتہ روانہ ہوگئے۔ میرے اباکاغصہ پورے خاندان میں مشہور تھا، جب انھوں نے میرے دادا کی بات بھی نہیں مانی تو ہر ایک کو یقین ہوگیا کہ ابا پاکستان نہیں جائیں گے ۔

علی احمد خان اپنے مشرقی بنگال پہنچنے کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چٹاگانگ میں میرے والد کا اپنے کاروباری سلسلے میں آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ یہاں وہ چھ مہینے رہتے تھے، پھر چچا کی پوسٹنگ چٹاگانگ ہوئی ۔ علی احمد خان اب بنگالیوں سے سلوک کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں ۔ بندرگاہ سے میرے چچا نے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی کیا تھی ایک خستہ حال سی کار تھی۔ ٹیکسی والے نے کہا کہ دس روپے لیں گے۔

میرے چچا اس پر برس پڑے۔ پھر بندرگاہ کے ایک انسپکٹر صاحب کو لے آئے جو اتفاق سے ہماری بستی کے تھے۔ انسپکٹر نے ٹیکسی والے کے منہ پر ایک زورکا طمانچہ لگایا۔ میرے چچا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ان لوگوں سے شرافت سے برتنا ہی بے وقوفی ہے۔ ساری زندگی ہندوؤں کی غلامی کرتے رہے۔ رات کو سوئے اور صبح اٹھے تو آزادی مل گئی۔ یہ کیا جانیں آزادی کیا ہوتی ہے۔ ایک بنگالی کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے۔

انسپکٹر نے چچا سے کہا اس کو پانچ روپے دینا اور ٹیکسی والے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا خبردار جو راستے میں حرامی پن کیا۔ کھال کھینچ دوں گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پھر چٹاگانگ سے دیناج پور تک کافی سفر احساس برتری کے مظاہروں میں گزرا۔ حکمراں طبقے کا خوف لوگوں کے ذہنوں میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا جیسے انگریزوں یا مغلوںکے زمانے میں تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب علی احمد خان اور ان کے بھائی اس سفر کے اختتام پر اپنے والد کے پاس پہنچے تو میرے والد اور ان کے دوست نے میرے چچا کی اس کارروائی پر اطمینان کا اظہارکیا اور میرے ابا نے میرے چچا کو ہدایت کی کہ کسی بنگالی کو اگر مارنا ہو تو ہمیشہ اکیلے میں مارنا ، اگر ان کی بھیڑ جمع ہوجائے تو یہ جان کو آجاتے ہیں ۔ بنگالیوں سے نمٹنے کے سلسلے کا یہ دوسرا سبق تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو کو قرار دینے کا اعلان کیا گیا تو بنگالیوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ مشرقی بنگال میں بنگالی زبان عام تھی اور وہ کسی اعتبار سے اردو سے کم نہیں تھی۔ اس میں ایک ملک یا صوبے کی سرکاری زبان بننے کی ساری صلاحیتیں موجود تھیں ۔ ابتداء میں بنگالیوں کا مطالبہ صرف اتنا تھا کہ اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان بنایا جائے۔ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ یہ سیاسی غلطی نہیں بلکہ ہٹ دھرمی تھی۔ خواجہ ناظم الدین 1951ء میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خود وزیر اعظم بنے تو مشرقی پاکستان کے دورے پر آئے اور پھر اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔


خواجہ ناظم الدین نے یہ تقریر 27 جنوری 1952ء کو کی تھی۔ پھر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ خواجہ ناظم الدین اور صوبائی حکومت کو مغربی پاکستان کا دلال قرار دیا گیا۔ 30 جنوری 1952ء سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اردو بولنے والے طلبہ کی اکثریت نے کلاسوں کا بائیکاٹ اور مظاہروں میں شرکت سے انکار کیا۔31 جنوری 1952ء کو ڈھاکا میں مولانا بھاشانی کی صدارت میں ایک کل جماعتی کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ 12 فروری 1952ء کو پورے صوبے میں ہڑتال ہوئی۔ پورا صوبہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور مغربی پاکستان کے خلاف کھڑا ہوگیا۔پولیس نے گولی چلائی، 8 افراد ہلاک ہوئے مگر بہاریوں یا اردو دان حضرات کی اکثریت نے حکومت کے اس اقدام کی حمایت کی اور بنگالیوں کو میر جعفر کی اولاد اور ہندوستان کے ایجنٹ جیسے القاب سے پکارا گیا۔

اگر کسی اردوداں اور بہاری طالب علم نے حکومت کی مخالفت میں حصہ لیا تو اسے بھی میر جعفر اور غدار جیسے القاب سے نوازا گیا۔ وہ بنگالی جو اردو میں دلچسپی رکھتے تھے وہ بھی اس سے کنارہ کش ہوئے۔ خان صاحب لکھتے ہیں کہ مشرقی بنگال میں 1954ء کے انتخابات نے ثابت کردیا کہ وہ صوبہ جہاں 1936ء کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ کی پہلی اور واحد حکومت بنی تھی اب مسلم لیگ سے تنگ آچکا تھا اور پاکستان کے ڈھانچے میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں پاتا تھا۔ اس صورتحال کا سب سے مضر نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ جو مہاجر ہندوستان سے آکر آباد ہوئے تھے ان میں یہ جھوٹی توقع پیدا ہوگئی کہ قائد اعظم اور قائد ملت کی حمایت کی بناء پر اردو قومی زبان رہے گی، یوں ان میں مقامی آبادی سے میل جول بڑھانے کے بجائے ان سے علیحدہ رکھنے کا رجحان پیدا ہوا ۔

1954ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مارچ 1954ء میں مشرقی بنگال کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ حزب اختلاف نے متحدہ محاذ کی شکل میں حکمراں جماعت کا مقابلہ کیا۔ انتخابات میں مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی۔ ان انتخابات میں مقامی لوگوں کو جس جوش و خروش سے حصہ لیتے دیکھا گیا اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ مرکزی حکومت نے کوئی ایک ماہ بعد فضل الحق کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی دعوت دی مگر فضل الحق کے کلکتہ کے بیان کی آڑ میں ملک دشمنی کا الزام لگا کر گورنر راج لگا دیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ گورنر راج کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جگتو فرنٹ نے اقتدار میں آتے ہی آئین ساز اسمبلی توڑنے اور نئی آئین ساز اسمبلی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اسمبلی میں مشرقی بنگال کی جو لوگ نمایندگی کررہے ہیں وہ حقیقی نمایندے نہیں ہیں۔

وہ عوامی لیگ میں اختلافات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے عناصر نے مولانا بھاشانی کی قیادت میں سہروردی کی خارجہ پالیسی اور جگتو فرنٹ سے انحراف کی کھلم کھلا مخالفت شروع کردی۔ جب پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تو اس میں سہروردی اپنی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مولانا بھاشانی کی قیادت میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے عناصر نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیارکر لی ۔ نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ نیپ میں صوبہ سرحد سے عبدالغفار خان، سندھ سے جی ایم سید، بلوچستان سے عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو اور عطاء اﷲ مینگل، پنجاب سے میاں افتخار الدین، محمود علی قصوری، کراچی سے محمود الحق عثمانی اور بائیں بازو کے کارکن شامل تھے ۔ اس طرح یہ پہلی پارٹی وجود میں آئی جو ملک گیر نمایندگی کرتی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ سہروردی پاکستان کے واحد سیاسی رہنما تھے جو پاکستان کو متحد رکھ سکتے تھے۔

علی احمد خان نے اکتوبر 1958ء تک سیاسی اتار چڑھاؤ کا بڑی عرق ریزی سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسکندر مرزا نے صدرکی حیثیت سے تمام اختیارات سنبھال لیے ۔ جنرل ایوب خان کو ملک کا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا ۔ جن لوگوں نے پاکستان بنایا تھا انھیں 11 سال بعد ناکارہ قرار دے کر نکال دیا گیا۔ اقتدار پر فوج نے قبضہ کرلیا جن کا ملک بنانے میں کوئی حصہ نہیں تھا ۔ وہ اگرتلہ سازش کیس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ اور معاہدہ تاشقند نے ایوب خان کے زوال کی رفتار تیزکردی، جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ بقول علی احمد خان اگرتلہ سازش میں مجیب الرحمن کو ملوث کرنا خود ایک سازش تھی۔ ایوب خان کی کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد الطاف گوہر نے بتایا کہ ایوب خان نے انھیں بتایا تھا کہ یحییٰ کا اصرار ہے کہ شیخ مجیب کو مقدمے میں ملوث کیا جائے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یکم مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرکے علیحدگی کا پیغام دیا گیا ۔

علی احمد خان نے 15 دسمبر 1971ء کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ جب بھارتی فوجیں ڈھاکا میں داخل ہوا چاہتی تھیں مگر کچھ لوگ بین الاقوامی نقشے کی مدد سے کچھ نہ ہونے کی پیشگوئی کر رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میرے میزبان دوست برس پڑے، آپ کو شرم نہیں آتی آپ افواہیں پھیلا رہے ہیں ۔ میں پولیس میں رپورٹ کردوں گا۔ انھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن میرے دوست اڑے رہے۔ پھر مارننگ نیوز کے مینیجنگ ایڈیٹر بدر الدین آئے اور انھوں نے ہمارے میزبان سے الگ سے بات سے کی اور ہمارے دوست خاموش ہوگئے۔ علی احمد خان نے اپنے بنگلہ دیش سے بھارت پھر نیپال جانے اور نیپال میں فوٹوگرافر احسان سنگرامی سے ملاقات اور ان کے کارناموں کا خوبصورت انداز میں ذکرکیا ہے۔

(نوٹ : علی احمد خان کی کتاب ''جیون ایک کہانی'' کی پانچ جنوری کوکراچی پریس کلب میں تقریب اجراء میں یہ مضمون پڑھا گیا ۔)
Load Next Story