مشرف کی کامیابی کے امکانات کتنے
جنرل پرویز مشرف کے نامہ اعمال میں اِس کے علاوہ اور بھی بہت سے کارنامے ہیں
پاکستان میں یہ بات ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ یہاں کبھی کسی آمر یا غیر جمہوری طالع آزما کو دوسری بار اقتدار نصیب نہیں ہوا۔ وہ صرف ایک بار ہی اِس ملک وقوم کی تقدیر کے فیصلوں کے مالک بن سکے اوروہ بھی صرف طاقت کے زور پر۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف تک یہ بات پاکستان کی تاریخ میں ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے اورابھی تک کوئی ڈکٹیٹر اِسے جھٹلا نہیں سکا۔ جنرل پرویز مشرف گرچہ ملکی تاریخ کے اِس ریکارڈ کو جھٹلانے اورمسخ کرنے کی حتی المقدورکوشش کررہے ہیں لیکن ہنوز کامیاب نہیں ہوپائے۔اُنہیں اقتدار سے بیدخل ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ ابھی تک عام لوگوں کے دل جیت نہیں سکے۔
اقتدار چھوڑتے وقت اُنہیں خوش گمانی تھی کہ لوگ بہت جلد اُنہیں یاد کریں گے اور وہ پھر حکمراں بن جائیں گے۔ لیکن یہ نہ ہو سکا۔ لیکن اِسے پرویز مشرف کی بد قسمی کہیے یا پھراِس قوم کی خوش قسمتی کہ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی پارٹی کو لوگوں نے حق حکمرانی عطا کیا جس نے تمام مشکلات کے باوجود بڑی حد تک قوم کے مسائل ومصائب کوکم کرنے کی کوشش اور جستجو کی۔گرچہ اُس کے راہ میں بہت سے رکاوٹیں بھی کھڑی کی گئیں لیکن اُس نے اپنے پانچ سالہ دور میں ترقی و خوشحالی کے کئی منصوبوں پر سنجیدگی سے کام شروع کیا اور بڑی حد تک اُس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُسے اگلے انتخابات میں بھی کامیاب و سرخرو دیکھنا چاہتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف طاقت کے زور پر نہ صرف اِ س ملک کے حکمراں بنے بلکہ 9 سال تک بلاروک ٹوک اِس قوم کی تقدیر وقسمت کے مالک بھی بنے رہے، وہ چاہتے تو اپنے اِس دور میں ملک وقوم کے لیے بہت کچھ کرجاتے، لیکن اُن کے نامہ اعمال میں ایک بھی ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے جسے دِکھلاکر وہ عوام سے اپنے حق میں تائیدوحمایت حاصل کرسکیں، وہ جب اقتدار میں آئے تھے توملک بھر سے کرپشن کے خاتمے کے لیے بہت بلند وبانگ دعوے کیے تھے۔اپنے سات نکاتی ایجنڈے میں قوم کو ایسے سبز باغ دکھائے کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کھاکرکوئی مسیحا بھیجا ہے۔''سب سے پہلے پاکستان'' کادلفریب نعرہ لگا کرپاکستان کا دفاع کیا کرتے اُسے ہی امریکا کے حوالے کردیا۔ نائن الیون کے فوراً بعد جارج بش کی ایک ٹیلی فون کال پر ہمارے اِس بہادرکمانڈو نے اپنا سب کچھ اِس واحد عالمی سپر پاورکے سپرد کردیا ۔
ہمارے ہوائی اڈے، ہمارے شاہراہیں اور ہماری بندرگاہیں قوم سے پوچھے بغیر سبھی اپنے اِس ذاتی مخلص اور مہرباں دوست ملک کے حوالے کردیں۔''تم ہمارے دوست ہو یادشمن'' صدر بش کے اِس جملے نے پرویز مشرف کو ایسا متاثرکیا کہ اپنی دوستی اور محبت کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اُنہوں نے امریکا کی اِس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر سارے ملک کو داؤ پرلگا دیا۔ یہ اُنہی کی پالیسیوں کاشاخسانہ ہے جو ہم دس پندرہ سال سے بھگتتے رہے۔
ہم نے اپنے ملک کو دہشتگردی کے آماجگاہ بناڈالا۔ خود کش حملوں اور آئے دن کے بم حملوں سے اپنے پیارے وطن کو لہولہان کر ڈالا۔ پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلاکر پرویز مشرف نے ساری قوم کو امریکا کے تابعداری پر مجبورکردیا۔ چند سو ڈالروں کے عوض ہم نے اپنے کئی لوگ امریکا کے ہاتھوں بیچ ڈالے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت نجانے کتنے معصوم لوگ ہمارے اِس خود غرض کاروبار کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہماری اِن قربانیوں کا صلہ ہمیں یہ ملا کہ آج ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں اپنے دیے ہوئے اِن پیسوں کاطعنہ دے رہا ہے اور ہماری یہ حالت ہے کہ ہم جواب میں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ لاؤ ہمارے دیے ہوئے ساڑھے پانچ سو لوگ واپس کردو جو تم نے ہم سے خریدے تھے۔ ہم نے دہشتگردی کے نام پر غیروں کی اِس لڑائی میں اپنے ساٹھ ہزار لوگ مروا دیے، اپنا امن امان غارت کردیا، بزنس اورکاروبار تباہ کرڈالا۔
جنرل پرویز مشرف کے نامہ اعمال میں اِس کے علاوہ اور بھی بہت سے کارنامے ہیں۔عدلیہ کو اپنے تابع کرنے کی کوشش میں 2007ء میں ایک نیا''ایل ایف او'' لانا، بلوچستان میں آرمی آپریشن کے ذریعے بزرگ اور معمر سیاسی رہنما اکبر بگٹی سمیت کئی اہم شخصیات کو بظاہرکاؤنٹر اٹیک میںمروادینا یا پھر غائب کروا دینا جس نے وہاں کے لوگوں میں احساسِ محرومی اور احساسِ مظلومیت کو اور پروان چڑھایا اوریوں وہاں علیحدگی پسندی کی تحریک کو مزید مستحکم کیا۔کراچی میں ایک مخصوص گروہ کی سرپرستی کرنا اور 12 مئی 2007ء کو ہونے والے خون خرابے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ایسے سیاہ کارنامے ہیں جنھیں وہ شاید اپنی اعلیٰ کارکردگی ظاہر کرکے کچھ لوگوں کو تو متاثرکرسکتے ہوںلیکن سارے ملک کے عوام کو ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاست کا محورسارے پاکستان میں اب صرف کراچی ہی رہ گیا ہے۔
وفاقی یاقومی سطح پر اُنہیں کوئی پذیرائی نہیں مل سکتی۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیںکہ اُن کا یہ کمانڈو کتنا بہادر اور دلیر تھا اورہے۔ وہ عدالتوں میں پیشی سے گھبرا کر مریض بن کر اسپتالوں میں داخل ہوتا رہا۔ دوسروں کو جلا وطن کرنے والا آج خود ساختہ جلاوطنی کے زندگی گزار رہا ہے۔ اُس میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ یہاں آکر انتخابی مہم شروع کرسکے۔ وہ آج کچھ جماعتوں کے توسط سے کراچی میں اپنی پارٹی کا جلسہ تو کرلیتا ہے لیکن خطاب کے لیے ذاتی طور پر آتے ہوئے اُسے ڈر لگتا ہے۔وہ دبئی میں رہتے ہوئے ویڈیو لنک ہی سے کام چلانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔
اپنے دورکے آخری دنوں میں اُس نے اپنی صدارت کو طول دینے کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو سے ایک خفیہ معاہدہ بھی کیا۔جسے ہماری قوم ایک خفیہ ڈیل کے نام سے جانتی ہے۔ اُس ڈیل میں اُس نے اپنی صدارت کے قائم رہنے کی ضمانت کے ساتھ محترمہ کو بطور وزیراعظم قبول کرلیا تھا۔ اُس نے صرف ذاتی مفادات کی خاطر بدنام زمانہ این آر او کرکے اِس ملک کے ساڑھے آٹھ ہزار مجرموں اور ملزموں کو معافی دے ڈالی تھی، لیکن شاید اُسے اِس ڈیل کے انجام کاپتہ نہیں تھا جو بعد ازاں آصف علی زرداری جیسے ذہین سیاستداں کی شکل میں اُس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ آصف علی زرداری این آر او کی لذتوں سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف پاکستان تشریف لے آتے ہیں بلکہ اپنے لیے صدارت کا منصب پسند فرما کر پرویز مشرف ہی کا تختہ گول کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو عدلیہ بحالی کا جھانسہ دیکر پرویز مشرف کے مواخذے کے لیے رضامند کرلیتے ہیں اوریوں وہ پرویز مشرف کو مواخذے کا ڈر اور خوف دلاکر از خود استعفیٰ پر مجبورکردیتے ہیں۔ پرویز مشرف چاروناچار ریڈیو اور ٹی وی پر اپنے ایک آخری خطاب اورگارڈ آف آنرز کے ساتھ رخصتی کی درخواست کرتے ہیں جو آصف علی زرداری بخوشی قبول کرلیتے ہیں اور یوں ایک آمر جس کا ہر حکم کبھی ایک فرمان امروزکا درجہ رکھتا تھا اورجس کی دبدبے اور طاقت وجبروت کے لوگ بڑے قصے سناکرتے تھے بڑی بے چارگی کے عالم میں ایوان صدارت سے رخصت ہوجاتا ہے۔ صدارت کے منصب سے نکل کر وہ اپنے یار اوردوست ملک امریکا اور یورپ کے ملکوں کے دورے کرتا ہے اور آمریت اورمطلق العنانی کے اپنے تجربوںکو وہاں کے لوگوں کے گوش گزار کرتا ہے۔
پھر جب یہ دکانداری بھی ختم ہوجاتی ہے تو پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ ناقص حکمرانی کا فائدہ اُٹھا کر وہ عوام میں ایک بار پھر آنے کی کوششں کرتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اُس کا یہ راستہ روک دیتی ہے۔ وہ واپس تو آتا ہے مگر پھر مقدمات کے خوف سے بیماری کو بہانہ بناکر ایک بار پھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ خود کو اِس ملک اگلا حکمراں تو دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے شاید یہ معلوم نہیں کہ یہاں ڈکٹیٹرکو صرف ایک بار ہی اقتدار نصیب ہوتا ہے وہ بھی طاقت اور پستول کی نوک پر، عوام کے ووٹوں اور جمہوری طریقوں سے ہرگزنہیں۔
اقتدار چھوڑتے وقت اُنہیں خوش گمانی تھی کہ لوگ بہت جلد اُنہیں یاد کریں گے اور وہ پھر حکمراں بن جائیں گے۔ لیکن یہ نہ ہو سکا۔ لیکن اِسے پرویز مشرف کی بد قسمی کہیے یا پھراِس قوم کی خوش قسمتی کہ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی پارٹی کو لوگوں نے حق حکمرانی عطا کیا جس نے تمام مشکلات کے باوجود بڑی حد تک قوم کے مسائل ومصائب کوکم کرنے کی کوشش اور جستجو کی۔گرچہ اُس کے راہ میں بہت سے رکاوٹیں بھی کھڑی کی گئیں لیکن اُس نے اپنے پانچ سالہ دور میں ترقی و خوشحالی کے کئی منصوبوں پر سنجیدگی سے کام شروع کیا اور بڑی حد تک اُس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُسے اگلے انتخابات میں بھی کامیاب و سرخرو دیکھنا چاہتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف طاقت کے زور پر نہ صرف اِ س ملک کے حکمراں بنے بلکہ 9 سال تک بلاروک ٹوک اِس قوم کی تقدیر وقسمت کے مالک بھی بنے رہے، وہ چاہتے تو اپنے اِس دور میں ملک وقوم کے لیے بہت کچھ کرجاتے، لیکن اُن کے نامہ اعمال میں ایک بھی ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے جسے دِکھلاکر وہ عوام سے اپنے حق میں تائیدوحمایت حاصل کرسکیں، وہ جب اقتدار میں آئے تھے توملک بھر سے کرپشن کے خاتمے کے لیے بہت بلند وبانگ دعوے کیے تھے۔اپنے سات نکاتی ایجنڈے میں قوم کو ایسے سبز باغ دکھائے کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کھاکرکوئی مسیحا بھیجا ہے۔''سب سے پہلے پاکستان'' کادلفریب نعرہ لگا کرپاکستان کا دفاع کیا کرتے اُسے ہی امریکا کے حوالے کردیا۔ نائن الیون کے فوراً بعد جارج بش کی ایک ٹیلی فون کال پر ہمارے اِس بہادرکمانڈو نے اپنا سب کچھ اِس واحد عالمی سپر پاورکے سپرد کردیا ۔
ہمارے ہوائی اڈے، ہمارے شاہراہیں اور ہماری بندرگاہیں قوم سے پوچھے بغیر سبھی اپنے اِس ذاتی مخلص اور مہرباں دوست ملک کے حوالے کردیں۔''تم ہمارے دوست ہو یادشمن'' صدر بش کے اِس جملے نے پرویز مشرف کو ایسا متاثرکیا کہ اپنی دوستی اور محبت کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اُنہوں نے امریکا کی اِس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر سارے ملک کو داؤ پرلگا دیا۔ یہ اُنہی کی پالیسیوں کاشاخسانہ ہے جو ہم دس پندرہ سال سے بھگتتے رہے۔
ہم نے اپنے ملک کو دہشتگردی کے آماجگاہ بناڈالا۔ خود کش حملوں اور آئے دن کے بم حملوں سے اپنے پیارے وطن کو لہولہان کر ڈالا۔ پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلاکر پرویز مشرف نے ساری قوم کو امریکا کے تابعداری پر مجبورکردیا۔ چند سو ڈالروں کے عوض ہم نے اپنے کئی لوگ امریکا کے ہاتھوں بیچ ڈالے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت نجانے کتنے معصوم لوگ ہمارے اِس خود غرض کاروبار کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہماری اِن قربانیوں کا صلہ ہمیں یہ ملا کہ آج ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں اپنے دیے ہوئے اِن پیسوں کاطعنہ دے رہا ہے اور ہماری یہ حالت ہے کہ ہم جواب میں یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ لاؤ ہمارے دیے ہوئے ساڑھے پانچ سو لوگ واپس کردو جو تم نے ہم سے خریدے تھے۔ ہم نے دہشتگردی کے نام پر غیروں کی اِس لڑائی میں اپنے ساٹھ ہزار لوگ مروا دیے، اپنا امن امان غارت کردیا، بزنس اورکاروبار تباہ کرڈالا۔
جنرل پرویز مشرف کے نامہ اعمال میں اِس کے علاوہ اور بھی بہت سے کارنامے ہیں۔عدلیہ کو اپنے تابع کرنے کی کوشش میں 2007ء میں ایک نیا''ایل ایف او'' لانا، بلوچستان میں آرمی آپریشن کے ذریعے بزرگ اور معمر سیاسی رہنما اکبر بگٹی سمیت کئی اہم شخصیات کو بظاہرکاؤنٹر اٹیک میںمروادینا یا پھر غائب کروا دینا جس نے وہاں کے لوگوں میں احساسِ محرومی اور احساسِ مظلومیت کو اور پروان چڑھایا اوریوں وہاں علیحدگی پسندی کی تحریک کو مزید مستحکم کیا۔کراچی میں ایک مخصوص گروہ کی سرپرستی کرنا اور 12 مئی 2007ء کو ہونے والے خون خرابے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرنا ایسے سیاہ کارنامے ہیں جنھیں وہ شاید اپنی اعلیٰ کارکردگی ظاہر کرکے کچھ لوگوں کو تو متاثرکرسکتے ہوںلیکن سارے ملک کے عوام کو ہرگز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاست کا محورسارے پاکستان میں اب صرف کراچی ہی رہ گیا ہے۔
وفاقی یاقومی سطح پر اُنہیں کوئی پذیرائی نہیں مل سکتی۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیںکہ اُن کا یہ کمانڈو کتنا بہادر اور دلیر تھا اورہے۔ وہ عدالتوں میں پیشی سے گھبرا کر مریض بن کر اسپتالوں میں داخل ہوتا رہا۔ دوسروں کو جلا وطن کرنے والا آج خود ساختہ جلاوطنی کے زندگی گزار رہا ہے۔ اُس میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ یہاں آکر انتخابی مہم شروع کرسکے۔ وہ آج کچھ جماعتوں کے توسط سے کراچی میں اپنی پارٹی کا جلسہ تو کرلیتا ہے لیکن خطاب کے لیے ذاتی طور پر آتے ہوئے اُسے ڈر لگتا ہے۔وہ دبئی میں رہتے ہوئے ویڈیو لنک ہی سے کام چلانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے۔
اپنے دورکے آخری دنوں میں اُس نے اپنی صدارت کو طول دینے کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو سے ایک خفیہ معاہدہ بھی کیا۔جسے ہماری قوم ایک خفیہ ڈیل کے نام سے جانتی ہے۔ اُس ڈیل میں اُس نے اپنی صدارت کے قائم رہنے کی ضمانت کے ساتھ محترمہ کو بطور وزیراعظم قبول کرلیا تھا۔ اُس نے صرف ذاتی مفادات کی خاطر بدنام زمانہ این آر او کرکے اِس ملک کے ساڑھے آٹھ ہزار مجرموں اور ملزموں کو معافی دے ڈالی تھی، لیکن شاید اُسے اِس ڈیل کے انجام کاپتہ نہیں تھا جو بعد ازاں آصف علی زرداری جیسے ذہین سیاستداں کی شکل میں اُس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ آصف علی زرداری این آر او کی لذتوں سے بہرہ مند ہوکر نہ صرف پاکستان تشریف لے آتے ہیں بلکہ اپنے لیے صدارت کا منصب پسند فرما کر پرویز مشرف ہی کا تختہ گول کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو عدلیہ بحالی کا جھانسہ دیکر پرویز مشرف کے مواخذے کے لیے رضامند کرلیتے ہیں اوریوں وہ پرویز مشرف کو مواخذے کا ڈر اور خوف دلاکر از خود استعفیٰ پر مجبورکردیتے ہیں۔ پرویز مشرف چاروناچار ریڈیو اور ٹی وی پر اپنے ایک آخری خطاب اورگارڈ آف آنرز کے ساتھ رخصتی کی درخواست کرتے ہیں جو آصف علی زرداری بخوشی قبول کرلیتے ہیں اور یوں ایک آمر جس کا ہر حکم کبھی ایک فرمان امروزکا درجہ رکھتا تھا اورجس کی دبدبے اور طاقت وجبروت کے لوگ بڑے قصے سناکرتے تھے بڑی بے چارگی کے عالم میں ایوان صدارت سے رخصت ہوجاتا ہے۔ صدارت کے منصب سے نکل کر وہ اپنے یار اوردوست ملک امریکا اور یورپ کے ملکوں کے دورے کرتا ہے اور آمریت اورمطلق العنانی کے اپنے تجربوںکو وہاں کے لوگوں کے گوش گزار کرتا ہے۔
پھر جب یہ دکانداری بھی ختم ہوجاتی ہے تو پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ ناقص حکمرانی کا فائدہ اُٹھا کر وہ عوام میں ایک بار پھر آنے کی کوششں کرتا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اُس کا یہ راستہ روک دیتی ہے۔ وہ واپس تو آتا ہے مگر پھر مقدمات کے خوف سے بیماری کو بہانہ بناکر ایک بار پھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ خود کو اِس ملک اگلا حکمراں تو دیکھنا چاہتا ہے لیکن اسے شاید یہ معلوم نہیں کہ یہاں ڈکٹیٹرکو صرف ایک بار ہی اقتدار نصیب ہوتا ہے وہ بھی طاقت اور پستول کی نوک پر، عوام کے ووٹوں اور جمہوری طریقوں سے ہرگزنہیں۔