سوئس بینکوں میں موجود 200ارب ڈالر کی واپسی ناممکن
نئے ٹیکس قوانین کا اطلاق پرانی ٹرانزیکشن پر نہیں ہوگا، حکام کی تصدیق
لاہور:
نئے ٹیکس قوانین کے ذریعے بھی سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے چُھپائے گئے 200 ارب ڈالرکو وطن واپس نہیں لایا جاسکتا۔
تفصیلات کے مطابق منگل کو ٹیکس حکام نے تصدیق کی ہے کہ ڈبل ٹیکسیشن معاہدے کے باوجود ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ نئے قوانین پرانی ٹرانزیکشن پر لاگو نہیں ہونگے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ان لینڈ ریونیو پالیسی کے رکن ڈاکٹر محمد اقبال نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نئے معاہدے کا اطلاق جنوری 2018 میں ہونے والی ٹرانزیکشنز سے ہوگا۔ ایف بی آر کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے رکھی گئی رقم کا معاملہ ادارے کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تاہم ٹیکسیشن کے مقصد کے لیے معلومات حاصل کرنے کیلیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ 2014 میں اُس وقت کے وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر موجود ہیں اور حکومت ٹیکسیشن معاہدے میں تبدیلی کے بعد یہ رقم واپس پاکستان لائے گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت (جسے ابھی سوئس پارلیمنٹ سے منظوری ملنا باقی ہے)، صرف خاص مقاصد کے لیے ٹیکسیشن کی معلومات کا تبادلہ ممکن ہوگا۔
نئے ٹیکس قوانین کے ذریعے بھی سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے چُھپائے گئے 200 ارب ڈالرکو وطن واپس نہیں لایا جاسکتا۔
تفصیلات کے مطابق منگل کو ٹیکس حکام نے تصدیق کی ہے کہ ڈبل ٹیکسیشن معاہدے کے باوجود ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ نئے قوانین پرانی ٹرانزیکشن پر لاگو نہیں ہونگے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ان لینڈ ریونیو پالیسی کے رکن ڈاکٹر محمد اقبال نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نئے معاہدے کا اطلاق جنوری 2018 میں ہونے والی ٹرانزیکشنز سے ہوگا۔ ایف بی آر کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی جانب سے رکھی گئی رقم کا معاملہ ادارے کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تاہم ٹیکسیشن کے مقصد کے لیے معلومات حاصل کرنے کیلیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ 2014 میں اُس وقت کے وزیر خزانہ نے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر موجود ہیں اور حکومت ٹیکسیشن معاہدے میں تبدیلی کے بعد یہ رقم واپس پاکستان لائے گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت (جسے ابھی سوئس پارلیمنٹ سے منظوری ملنا باقی ہے)، صرف خاص مقاصد کے لیے ٹیکسیشن کی معلومات کا تبادلہ ممکن ہوگا۔