پنجاب پولیس کی ناکامی کے باعث بچوں کے اغوا و زیادتی کے واقعات میں اضافہ

قصور جنسی اسکینڈل کیس میں بھی اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی

قصور جنسی ویڈیو اسکینڈل کیس میں بھی اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ فوٹو : فائل

پنجاب میں پولیس کی جانب سے عملی اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

قصور میں بچوں سے زیادتی کے بعد قتل کے کل 12 واقعات پیش آئے لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی رہی جب کہ ان واقعات میں صرف ایک بچی کو زندگی ملی۔ تھانہ صدر کے علاقے میں ہونے والے ان واقعات کے مقدمات درج ہوئے، مگر صرف کاغذی کارروائی عمل میں لائی گئی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : قصور میں 8 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل

پہلا واقعہ 6 اپریل 2016 کو تھانہ صدر کے علاقے میں پیش آیا جہاں تہمینہ نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرکے لاش زیر تعمیر مکان میں پھینک دی گئی، 4 مئی 2016 کو بھی صدر کے علاقے میں ثنا نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، 8جنوری 2017 کو بھی دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں عائشہ نامی بچی کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا اور لاش زیر تعمیر مکان سے ملی۔


اس خبر کو بھی پڑھیں : قصور جنسی اسکینڈل کیس میں اہم پیش رفت، 239 بچوں سے زیادتی ثابت ہوگئی

19 فروری2017 کو صدر کے علاقے میں ایک اور واقعہ پیش آیا جہاں ملزمان نے 9 سالہ عمران کو زیادتی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا، 24 فروری 2017 کو صدر کے علاقے میں ایمان فاطمہ نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، صدر میں 11 اپریل 2017 کو ایک اور معصوم بچی نور فاطمہ کو زیادتی کے بعد قتل کرکے لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔

21 اپریل 2017 کو تھانہ صدر کے علاقے میں ہی فوزیہ نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا،7 جون 2017 کو جوئیاں اتاڑ میں 10 سالہ بابر کو زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کیاگیا، 8 جولائی کو کھارا روڈ سے 8 سالہ لائبہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کردیا گیا جب کہ 13 نومبر کو کوٹ اعظم خان میں 7 سالہ کائنات کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : لاڑکانہ میں 5 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا گرفتار

ان تمام واقعات سے قبل بھی حسین خان والا میں لڑکوں سے زیادتی کی ویڈیوز کا اسکینڈل منظر عام پر آیا جس میں 100 کے قریب ویڈیو منظر عام پر آئیں جب کہ واقعہ میں ملوث ملزمان کے خلاف 50 سے زائد مقدمات بھی درج ہوئے۔ مرکزی ملزم حسیم عامر اور اس کے بھائی علیم آصف، نسیم شہزاد سمیت درجنوں ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ملزمان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج ہوئے تاہم اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
Load Next Story